کوئی بھی عام آدمی مصری صدر سے ملاقات کر سکتا ہے !!!!

 
کوئی بھی عام آدمی مصری صدر سے ملاقات کر سکتا ہے  !!!!


رپورٹ: اختر عباس

مجھے اب تک یقین نہیں آرہا کہ ہمارے مصر میں ایسا بھی ہو سکتا ہے۔ میں نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ میں مصر کے صدر سے مل سکوں گا۔ جو عرب جمہوریہ مصر کا پانچواں مگر عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والا پہلا صدر ہے۔ اپنے سامنے ایک سادہ، متواضع اور عاجزی سے بات کرنے والے صدر کو دیکھ کر میری حیرت دوچند ہو گئی تھی، میرے تعجب کی انتہا نہ رہی جب ایوانِ صدر میں موجود ایک طالبہ کو میں نے دیکھا جو مصری صدر کا دامن پکڑ کر کہہ رہی تھی ’’اتق اللہ فینا‘‘ ہمارے بارے میں اللہ سے ڈرو۔ مصری صدر نے سرجھکا کر کہا میں حاضر ہوں۔ اس کی آواز پست تھی، حالانکہ اس کے دونوں طرف اعلیٰ فوجی افسران پورے کروفر کے ساتھ موجود تھے۔صدر میری طرف متوجہ ہوئے تو میں حواس باختہ تھا۔ انھوں نے مجھ سے پوچھا ’’کیا آپ کو مالی امداد کی ضرورت ہے یا ذاتی وظیفہ چاہیے؟ جو بھی آپ کی ضرورت ہے مجھے بتائیے۔‘‘ میں نے کہا ’’مجھے اپنے لیے کچھ نہیں چاہیے۔ اپنے جلے ہوئے بیٹے کا علاج اور ہسپتال میں داخلہ چاہیے جس سے وہ انکاری ہیں۔‘‘
صدر نے کہا ’’میں مریض کو دیکھنا چاہتا ہوں۔ مجھے اس سے ملوائو۔‘‘ گاڑی میں لیٹے ہوئے بیٹے کو لے کر آیا تو صدر نے اس کے ماتھے پر بوسہ دیا۔ اس کے لیے دوبارہ مشروب منگوایا، پھر ہسپتال بھجوانے کے لیے سرکاری گاڑی منگوائی اور ایک افسر کو میرے ساتھ بھیجا۔ مجھے اب تک یقین نہیں آرہا کہ ہمارے مصر میں ایسا بھی ہو سکتا ہے۔ میرے صدر محترم…! اللہ آپ کو برکت دے۔ اس بے چاری قوم کے آپ کو مزید قریب کرے۔ آپ کی قوم کو اللہ کی مدد کے بعد آپ کی توجہ، مدد اور شفقت کی بہت ضرورت ہے۔‘‘جلے ہوئے جسموں کے علاج کے ماہر ڈاکٹرمحمدسمیر نے فیس بُک پر اس روتے ہوئے باپ کا مکالمہ اور کہانی درج کی ہے جو اپنے جواں سال بیٹے کو جس کا جسم
۴۰ فیصد سے زائد جلا ہوا تھا، سرکاری ہسپتال میں داخلے کے لیے لایا تھا۔ ڈاکٹرسمیر کہتے ہیں کہ مریض کے زخموں کی حالت دیکھ کر میں نے مشورہ دیا کہ اسے کسی بڑے ہسپتال لے جائو، جہاں زیادہ سہولتیں اور آرام ہو۔ مریض کے لواحقین نے اصرار کیا۔ میرے انکار پر وہ ہسپتال کے سربراہ کے پاس چلے گئے۔ میں نے وہاں بھی صورتِ حال واضح کی تو مریض کے لواحقین نے جاتے ہوئے دھمکی دی کہ وہ وزارتِ صحت ہی نہیں مصری حکومت کے اعلیٰ ترین منصب دار سے بھی میری شکایت کریں گے۔ان کی بات سن کر میں مسکرا دیا مگر کچھ ہی دیر بعد میری مسکراہٹ غائب ہوگئی جب ایوانِ صدر کی ایک گاڑی، ایک اعلیٰ افسر کے ساتھ ہسپتال میں داخل ہوئی۔ ہال میں ایوانِ صدر کے نمائندے نے مریض کو فوری طور پر داخل کرنے اور اس کا بہترین علاج کرنے کا صدارتی حکم سنایا۔ اب میرے لیے اسے داخل کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔
ڈاکٹرمحمدسمیر نے لکھا کہ مریض کا علاج پوری توجہ سے ہونے لگا تو ایک روز اس کے والد نے اس مصری صدر سے ملاقات کی پوری کہانی سنائی، جس کو ایک بیٹے نے مخاطب کرکے کہا تھا ’’اگر آپ نے عوامی اُمنگوں کے مطابق کام نہ کیا تو آپ کے خلاف ’’میدان التحریر‘‘ میں سب سے پہلے میں احتجاج کروں گا۔‘‘وہی صدر جس کی اہلیہ نجلا علی محمود نے میڈیا کو ہدایت کی کہ کوئی اسے خاتونِ اوّل نہ کہے۔ کوئی اور راہ نہ پا کر میں اپنے جلے ہوئے بیٹے کو گاڑی میں لے کر ایوانِ صدر پہنچا اور متعلقہ عملے سے درخواست کی کہ میں صدر سے ملنا چاہتا ہوں۔ پھر اچانک صدر کے احکامات کے باعث حکام نے مجھے اندر جانے کی اجازت دے دی۔ میں نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ میں مصری صدر سے یوں مل سکوں گا۔ ڈاکٹرمحمدمُرسی کے صدر کا عہدہ سنبھالنے کے لمحے سے دُنیا کی نگاہیں ان پر گڑی ہوئی ہیں۔ حسنی مبارک کے
۳۰ سالہ طویل دورِآمریت کے بعد عوامی صدر کا انتخاب اور انتقال اقتدار آسان نہیں تھا۔ذاتی زندگی میں انتہائی درویشی کی حد تک سادہ رہنے والے محمدمرسی جو اب بھی اپنے پرانے گھر میں مقیم ہیں اور گھر کے قریب پہنچ کر سرکاری محکموں کا حصار توڑ کر سرکاری گاڑی سے اترجاتے ہیں تاکہ اپنے لوگوں سے مل سکیں، سیاسی طور پر اتنے سادہ ثابت نہیں ہوئے۔ صدر منتخب ہونے کے فوراً بعد جب وہ آئینی عدالت کے سامنے حلف اٹھا چکے تو صدارتی محل جانے کے بجائے انھوں نے پہلے قاہرہ یونیورسٹی جانے کا فیصلہ کیا جہاں پڑھنے والے ہزاروں طلبہ ان کا ہراوّل دستہ تھے اور جنھیں اب محمدمرسی کا دست و بازو بننا ہے کہ سوشل میڈیا پر وہ سارے لڑکے اور لڑکیاں جنھوں نے التحریر کو التحریراسکوائر بنایا، بہت فکرمندی کے ساتھ اس عوامی تبدیلی اور بیداری کے نتیجے میں بننے والے صدر کے ہر ہر اقدام پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بیوروکریسی اور بہت سے سرکاری اداروں کے کارکنان جن کی برسوں سے حسنی مبارک کے ساتھ وابستگی اور وفاداری ہے، بار بار محمدمرسی کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے سے باز نہیں آرہے۔ ان کے اقدامات پر تنقید اور اکثر غلط تشریح کرکے غلط فہمیاں اور مایوسیاں پھیلانے کی مسلسل کوشش میں ہیں۔انھیں یہ بھی خبر ہے کہ جامع ازہر کی شاہراہ پر واقع دکانوں کے مالک اس بات پر بے حد خوش ہیں کہ صدر کی آمدورفت سے ان کے بزنس پر منفی اثر نہیں پڑتا اور مارکیٹیں بند نہیں کرائی جاتیں۔ملک میں لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے تو اُن کے اپنے صدر کے گھر کو بھی اِس سے استثنا حاصل نہیں ہے۔ صدرمرسی نے اپنے حلف کے پہلے ہی روز جامع ازہر جانے کا فیصلہ کیا تو سیکورٹی حکام نے مسجد کے دروازوں پر برقی دروازے نصب کر دیے تاکہ نمازی ان میں سے گزر کر اندر جاسکیں اور ان کی تلاشی لی جا سکے تاکہ اسلحہ اندر نہ جائے۔ صدر کو جونہی پتا چلا یہ ساری کارروائی روک دی گئی۔جامع ازہر کے خطیب نے اپنے صدر کو سامنے پایا تو اسلامی تاریخ کی درخشاں روایت کے مطابق ’’دین تو نصیحت ہے‘‘ کے مصداق امیرالمومنین حضرت عمرؓبن خطاب کے طرزِعمل اور خدمات کے ذکر کے ساتھ ساتھ محمدمرسی سے بندھی توقعات کا اس دل سوزی سے بیان کیا کہ محمدمرسی زاروقطار رو پڑے۔ انھیں اپنی ذات سے وابستہ توقعات کا بخوبی احساس ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ میدانِ جنگ میں اترے سورما کی ایک ایک حرکت سے قوم کو کیا کیا امیدیں وابستہ ہوتی ہیں۔
محمد مرسی کا پہلا خطاب
صدارتی انتخابات میں کامیابی کے صبرآزما اعلان کے فوراً بعد، جس میں اُنھیں ایک کروڑ
۳۲ لاکھ ۱۲۱  (۷۳ئ۵۱ فیصد) ووٹ ملے۔ انھوں نے التحریر اسکوائر میں جو خطاب کیا وہ بہت دلچسپ نکات کا حامل تھا۔ اس لحاظ سے بھی کہ کامیابی کے نشے کی خوشی میں چور ہو کر بڑے بڑے لوگ اپنے ارادے، پروگرام اور دعوے سب بھول کراقتدار کی خواب نگری کا حصہ بن جاتے ہیں۔ صدر مرسی نے کہا
میں پارٹی کا نہیں مصریوں کا صدر ہوں۔ جسٹس اینڈ فریڈم پارٹی کے عہدے اور بنیادی رکنیت سے استعفا دے رہا ہوں۔ مصر تمام مصریوں کا ہے۔حقوق کے معاملے میں سب برابر ہیں۔ میرا کوئی حق نہیں، صرف فرائض ہیں۔ مصری عیسائیوں اور مسلمانوں، سب کو مصر کی تہذیب و تعمیر کے لیے کام کرنا ہے۔ انسانی اقدار، آزادی، انسانی حقوق کے احترام، خواتین اور بچوں کے لیے کام کرنا ہے۔ (مصر کے قبطی عیسائیوں نے الیکشن کے دوران محمدمرسی کا بھرپور ساتھ دیا جبکہ میڈیا نے انھیں متنفر کرنے کے لیے ایکمن گھڑت بیان کی خوب تشہیر کی جس کے الفاظ تھے
’’عیسائیوں کو جان لینا چاہیے کہ فتح قریب ہے۔ مصر اسلامی ہوگا۔ عیسائیوں کو جزیہ دینا ہوگا یا پھر نقل مکانی کرنا ہوگی۔‘‘ مصری الیکٹرونک میڈیا نے آخری وقت تک محمدمرسی کو اقلیت دشمن اور انتہاپسند ثابت کرنے کی پوری کوشش کی۔ یہاں تک کہ ایک ٹی وی چینل نے تو اپنی
۳ گھنٹے کی براہِ راست نشریات میں اخوان المسلمون اور محمدمرسی کی خوب خبر لی۔ ایک خود ساختہ ویڈیو دکھائی جیسی ہمارے ہاں سوات میں لڑکی کو کوڑے لگنے کی بنائی اور دکھائی گئی تھی کہ ایک عیسائی کو مسلمانوں نے مارا۔ ویڈیو دکھانے کے بعد پوچھا گیا یہ لوگ کس طرح کی حکومت کریں گے۔ کہا گیا کہ شراب نوشی اور بکنی پہننے پر پابندی ہو گی تو مصر میں سیاحت تباہ ہو جائے گی۔ خواتین، بچوں اور عیسائیوں کے حقوق غصب ہو جائیں گے۔ ’’گھٹیا‘‘ کا لفظ ہم نے تو صرف سنا ہے وہاں کے میڈیا نے عملاً اس کا مظاہرہ کیا۔ہم دنیا کو امن کا پیغام دینا چاہتے ہیں۔ ہم ان تمام معاہدوں کی پابندی کریں گے جو مصر نے دنیا سے کیے ہیں۔ ہم دیگر ملکوں کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کریں گے اور نہ ہم کسی کو اپنے معاملات میں مداخلت کرنے دیں گے۔ اگر اللہ تعالیٰ کی مدد شاملِ حال نہ ہوتی، ہمارے قابلِ احترام شہداء اور زخمیوں نے قربانی دے کر قیمتی خون نہ بہایا ہوتا تو میں مصر کے پہلے منتخب صدر کے طور پر کبھی خطاب نہ کر پاتا۔ تمام شہداء کو سلام، ان شہداء کے وارثوں کو بھی سلام کہ ان کے پیاروں نے اپنی جانوں کو قربان کیا۔ تمام اعلیٰ مقاصد جن کے لیے قربانیاں دی گئیں، ان کے حصول تک انقلاب کا سفر جاری رہے گا۔مصر کے تمام ججوں کو سراہا جاناچاہیے۔ میری ذمہ داری ہے کہ آنے والے کُل عدالتیں اور ایگزیکٹو اپنے قانون سازی کے اختیارات سے الگ ہو کر آزادانہ کام کریں۔ میں اپنے فوجیوں سے محبت کرتا ہوں۔ جمہوریت کو مضبوط کرنے کے لیے ان کے کردار اور خلوص کی تعریف کرتا ہوں۔‘‘’’نحن آل فرعون‘‘
مصر کی مسلح افواج کے بارے میں محمدمرسی نے بہت نپی تلی بات کی۔ یہ وہ نازک مقام ہے جہاں تمام ترقی پذیر ممالک کی سیاسی لیڈرشپ کے پَر جلتے ہیں۔ مصر کی فوج کئی عشروں سے سیاسی فوائد سمیٹ رہی ہے۔ مصری تاریخ کے طویل ترین صدر بننے والے انورالسادات اور اس کے قتل کے بعد بننے والے صدر حسنی مبارک کا تعلق بھی فوج سے تھا حتیٰ کہ حسنی مبارک کے آخری وزیراعظم، احمد محمد شفیق جسے شدید عوامی دبائو پر صرف
۳۳ دن کی وزارتِ عظمیٰ کے بعد مستعفی ہونا پڑا تھا، فوج کے سینئر کمانڈر اور ائیرمارشل کے عہدے تک پہنچے تھے۔ نومبر۲۰۱۱ء کو ہونے والے الیکشن میں وہ فوج ہی کے نمائندے تھے۔ اسی لیے پوری قوم کی رائے کے برعکس بہت کھل کر حسنی مبارک کو اپنا رول ماڈل کہتے تھے۔یہ الگ بات ہے کہ حسنی مبارک کی باقیات ہونے کی وجہ سے ملک کی غالب اکثریت اس سے انتہا درجے کی نفرت کرتی تھی۔ نہ صرف فوج بلکہ فوج کی پشت پر موجود امریکی اور برطانوی حکومت بھی اسی کی سرپرستی کر رہی تھیں۔ احمدشفیق کو لبرل، روشن خیال اور سیکولر قوتوں کے ترجمان اور فوج کے فرنٹ مین کے طورپر ابھارا اور سامنے لایا گیا۔ جہاں مصر کے قبطی عیسائیوں نے اس کی الیکشن مہم میں جان ڈالے رکھی وہاں مصری وزارتِ داخلہ نے فوج کو ۹ لاکھ شناختی کارڈ فراہم کیے تاکہ احمدشفیق کے بیلٹ باکس بھرے جاسکیں۔الیکشن مہم کے دوران ہوا کے رُخ کو مرسی کے حق میں دیکھ کر ۱۴ جون کو آئینی عدالت کے ذریعے شدید وار کیا گیا اور ایوانِ زیریں کے ان انتخابات کو ہی کالعدم قرار دے دیا گیا جن میں اخوان المسلمین کی واضح اکثریت تھی۔ الزام یہ لگایا گیا کہ انتخابی قواعد کی رو سے ۱۶۶ سیٹوں پر پارٹی لسٹ کے فعال امیدوار نہیں ہونے چاہئیں، جبکہ منتخب ہونے والوں کی اکثریت فعال پارٹی ورکرز کی تھی۔ عدالت نے کہا اس سے آزاد امیدواروں کی حق تلفی ہوئی ہے۔ یہ فیصلہ عین اس موقع پر کیا گیا جب رائے عامہ ایک واضح فیصلہ کرنے والی تھی۔ اسی پر بس نہیں کیا گیا۔ء۲۰ جرنیلوں پر مشتمل سپریم کونسل آف آرمڈفورسز نے ۱۵ جون کو ایوانِ زیریں ہی کو تحلیل کردیا۔ ۱۰۰ رکنی دستورساز کمیٹی بھی ختم کر دی گئی جس میں اراکین پارلیمنٹ کے علاوہ ۶ جج، ۹ وکیل، آرمی، پولیس اور وزارت انصاف کے نمائندے شامل تھے۔ سپریم کونسل نے نہ صرف صدر کے اختیارات سلب کر لیے بلکہ خود ہی دستور سازی کے اختیارات بھی سنبھال لیے۔ قوم کو یہ بہت واضح پیغام تھا کہ فوجی جنتا کیا چاہتی ہے۔ صدارتی انتخاب کے پہلے رائونڈ میں ٹرن آئوٹ ۴ئ۴۳ فیصد تھا۔ ان فیصلوں کا الٹا اثر ہوا اور رن آف میں ٹرن آئوٹ ۸۵ئ۵۱ فیصد تک پہنچ گیا۔ ۲۱ جون کو سرکاری نتیجہ کا اعلان ہونا تھا اسے روک دیا گیا۔ محمدمرسی ۵۲ فیصد ووٹ لے کر کامیاب ہو چکے تھے جو فوج کو کسی حالت میں قبول نہ تھے۔ نتائج کا اعلان رُکتے ہی پورے ملک میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ مبصرین کا خیال تھا کہ الجزائر کی تاریخ دہرائی جا سکتی ہے۔ء۱۹۹۰ میں وہاں یہ تماشا ہو چکا تھا کہ جمہوری طور پر منتخب ہونے والی پارٹی کو اقتدار سونپنے سے انکار کر دیا گیا تھا۔ ۱۹ جون کو تحریر اسکوائر پر انسانوں کا ایک بار پھر ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر جمع تھا۔ یہ تعداد لمحہ بہ لمحہ بڑھتی جا رہی تھی۔ یہاں تک کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کو اپنا فیصلہ بدلنا پڑا۔ تب تک احمدشفیق کو دوبارہ گنتی میں بھی کامیاب کرانے کے تمام حربے ناکام ہو چکے تھے۔لوگوں کے متوقع ردِعمل سے بچنے کے لیے ۲۳ جون کو اعلان کر دیا گیا کہ الیکشن کمیشن ۲۴ جون کو صدارتی الیکشن کے نتائج کا اعلان کر دے گا۔ محمدمرسی ۱۰ لاکھ سے زائد ووٹوں کے فرق سے کامیاب قرار دے دیے گئے۔ یہ جیت کوئی معمولی جیت نہیں تھی۔ یہاں پاکستان میں بیٹھ کر آپ الیکشن مہم کی شدت اور جذبات کی حدت کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ محمدمرسی کے مقابلے پر جو نعرہ لگتا ہے وہ ’’نحن آل فرعون‘‘ کا دعویٰ تھا۔ اس بلندآہنگ نعرے کی ایک پوری تاریخ ہے۔ ’’ہم آل فرعون سے تعلق رکھتے ہیں‘‘ کہنے والے فرعونِ مصر کی طرح جو موسیٰ ؑکے خدا کے ہاتھوں بحیرۂ احمر میں ڈوب گیا تھا، اس بار خدا کے بندوں کے ووٹوں کے ڈھیر میں دفن ہوگئے۔جس لمحے الیکشن کمیشن محمدمرسی عیسیٰ العیاط کے مصر کا پہلا عوامی صدر منتخب ہونے کا اعلان کر رہا تھا۔ ۱۹ جون سے تحریراسکوائر پر دھرنا دینے والے لاکھوں فرزندانِ توحید اللہ اکبر کے نعروں سے شکرانہ بجا لا رہے تھے۔ تکبیر کے نعرے مصر سے ہوتے ہوئے غزہ کی پٹی تک جا پہنچے تھے اور وہاں سے ٹویٹر، فیس بک پر اہلِ ایمان نے ایک دوسرے کو مبارک بادیں پوسٹ کرنا شروع کر دیں۔ مصر کے لاکھوں لوگ کسی نماز کے اوقات کے بنا ہی رب اعلیٰ کے حضور جھکے آنسوئوں سے سجدہ شکر کے کلمات ادا کر رہے تھے۔ سوشل میڈیا پر محمد مرسی اور جشن فتح کی تصاویر کا سیلاب آگیا۔ء۸۴ سال سے خوشی تبدیلی اورکامیابی کو ترسے لوگ ۸۴ سال سے خوشی کامیابی اور تبدیلی کو ترسے ہوئے لوگ اس اعلان کو ٹھنڈی ہوا کے جھونکے سے بہت زیادہ سمجھ رہے تھے۔ وہ جانتے تھے ان بیتے ۸۴ سالوں میں جیلیں ان سے آباد رہیں۔ جہاں ان کے بھائی، بیٹے اور والدین قیدوبند کی صعوبتوںکو برسوں برداشت کرتے رہے، اذیت کدوں کے عذابوں کو بھگتتے رہے۔ ان کی کئی نسلوں کی پھانسیوں، جان و مال اور عصمتوں کی قربانیوں کی داستانیں ہرطرف بکھری تھیں۔مرسی میٹر
التحریر اور سوشل میڈیا کے رضاکاروں نے اپنے طور پر محمدمرسی کی حکومت کو
۱۰۰ دن دیے ہیں اور ہر دن، ہر پہر کا حساب رکھ رہے ہیں۔ انھوں نے انٹرنیٹ پر ایک ’’مُرسی میٹر‘‘ متعارف کرایا ہے جو صدر کے کاموں اور فیصلوں پر روز ٹِک ٹِک کرتا ہے۔ ایک ایسے بوسیدہ اور بدبودار سیاسی نظام میں جو ۶۰ سال سے شخصی آمریتوں کو دوام بخشنے کے لیے کام کر رہا تھا، عوام کی فلاح و بہبود کے فیصلے کرنے کے راستے تلاش کرنا کوئی آسان کام نہیں۔ مُرسی کے پاس وقت ہی نہیں ہے کہ میٹر بہت تیز چل رہا ہے۔ ورنہ ترکی ماڈل ان کے بہت کام آ سکتا ہے۔ مُرسی کا سب سے بڑا ہتھیار نوجوان ہیں جو اس کے فیصلوں کے ناقد بھی ہیں اور مداح بھی۔ مخالفین کے پاس بھی نوجوان ہی ہراول دستہ ہیں۔ اس کو اس وقت جتنے محاذوں پر لڑنا پڑ رہا ہے کوئی اندازہ نہیں کر سکتا۔آئی ایم ایف کے بورڈ کی چھٹیاں
مصر کی تباہ حال معیشت کی بحالی کوئی آسان کام نہیں ہے۔ ملک بجلی کی شدید کمی کا شکار ہے۔ قاہرہ کے نواحی شہروں اور بستیوں میں بجلی آٹھ آٹھ گھنٹوں کے لیے چلی جاتی ہے۔ ہمارا ریکارڈ تو
۲۲ گھنٹوں سے زیادہ کا ہے۔ اس لیے ۸  گھنٹے بہت تھوڑے لگ رہے ہیں۔ مصر میں ان دنوں ایک دلچسپ کیس کا بھی چرچا ہے۔ ایک خاتون نے عدالت میں طلاق کے لیے درخواست دی اور ایک انوکھی وجہ لکھی کہ میرا شوہر اپنا قصبہ چھوڑ کر قاہرہ جانے کو تیار نہیں۔ قصبے میں آٹھ آٹھ گھنٹے بجلی نہیں آتی۔ میری زندگی گرمی نے عذاب بنا دی ہے۔ میں اس آدمی کے ساتھ رہنے کے بجائے بجلی کی تلاش میں شہر جانا چاہتی ہوں۔مصر نے آئی ایم ایف سے ۴ ارب ۸۰ کروڑ کے قرضہ کے لیے فنڈ کے سربراہ کرسٹین لاگاردے سے رابطہ کیا ہے۔ قرضے کی منظوری دینے والا آئی ایم ایف کا بورڈ ان دنوں گرمیوں کی چھٹیوں پر ہے اور وہ اکتوبر میں اجلاس کر سکے گا۔ تب تک قرضہ ملنے کا امکان نہیں۔ حالانکہ آئی ایم ایف ۳ ارب ۲۰ کروڑ کا قرضہ پہلے بھی منظور کر چکا ہے، مگر صرف منظوری تو عوام کے مسائل کا حل نہیں۔ جب تک پیسے حکومتی خزانے میں آ نہ جائیں کسی عوامی فلاح کے کام پر لگنے کا امکان نہیں۔مُرسی ۲۳ ستمبر کو امریکاجا رہے ہیں۔ وہ مصر کے پہلے سول حکمران ہیں اور وہ بھی اخوان المسلمون سے تعلق رکھنے والے، جن سے امریکا کی کبھی نہیں بنی۔ صدر اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں شرکت کریں گے۔ اوباما سے ملاقات ابھی تک تو طے نہیں۔ بہرحال ہیلری کلنٹن مصر کے دورے کے دوران ۲ ارب کے قرضے کی معافی کا اعلان کر چکی ہیں۔ عملاً اس اعلان کا بھی کوئی فائدہ نہیں کیونکہ پیسے تو آ نہیں رہے۔ کانگریس نے حسنی مبارک کے دورِحکومت میں ۳ئ۱ بلین کی امداد کی منظوری دی ہوئی ہے اور یہ امداد بھی ابھی آنی باقی ہے۔اب تک صرف سعودی عرب نے مصر کی اس مشکل کو پہچانا ہے اور محمد مُرسی کے سعودی دورے کے موقع پر ۴۳۰ ملین ڈالر کی امداد کا اعلان ہی نہیں کیا بلکہ رقم بھجوا بھی دی ہے۔ ایسی صورت میں جب آپ کے پاس ترقیاتی کاموں کے علاوہ انقلابی اعلانات کے لیے بھی فنڈز کی شدید کمی ہو، لیڈرشپ کا اصل امتحان ہوتا ہے۔ محمدمُرسی نوجوانوں کو قوم کی خدمت اور اصلاح کے کاموں میں مصروف کرچکے ہیں تاکہ اخوان کی خدمت کا امیج اور بہتر ہو۔ روزمرہ کے حالات میں تبدیلی محسوس ہو۔ اخوان کے ہسپتالوں، فلاحی اداروں اور بزنس انٹرپرائز سبھی جگہوں پر زیادہ سرگرمی سے خدمت کی جا رہی ہے کہ اس بے لوث اور مخلصانہ طرزِزندگی نے ان کو مصری عوام کی پہلی ترجیح بنانا ہے۔(عدلیہ ( ماضی کے آکٹوپس کا طاقتور بازو
مصر کی عدلیہ،ماضی کے دونوں آمرانہ حکومتوں کے آکٹوپس، کا فوج کے بعد دوسرا طاقتور بازو رہی ہے۔ حد یہ ہے کہ
۲۰۰۵ء کے الیکشن میں ججز نے بالعموم دھاندلی کی حوصلہ افزائی، نگرانی اور پشتی بانی کی۔ ابھی حال ہی میں انصاف کے وزیر کے طور پر شامل کیے جانے والے سابق جج احمدمکی اس سلسلے کے زندہ گواہ ہیں وہ ججز کی ملک گیر ایسوسی ایشن (ججزکلب) کے سربراہ رہے، انھوں نے ججز کی طرف سے ووٹوں میں دھاندلی اور قانون کی تمام خلاف ورزیوں جو تب کی نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے لیے روا رکھی گئیں پر خوب کام کیا تھا۔ (خاص طور پر ۲۰۱۲ء کے الیکشن میں ہاشم الباسواسی کے ساتھ مل کر ووٹوں میں ہیراپھیری کرنے والے ججز کی ایک پوری فہرست تیار کی تھی)۔نتیجے کے طور پر احمدمکی اور ہاشم الباسواسی دونوں کو اپنے ہی جج بھائیوں کی شکایت پر قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑا تھا کہ انھوں نے ججز کی لسٹیں کیوں بنائیں؟ ۱۹۹۲ء میں جج احمدمکی نے اس ہڑتال کی بھی قیادت کی تھی جب ان کے ۲ ساتھی، ججز تو گرفتار کر لیے گئے تھے۔ ہڑتال کے نتیجے میں ۳  ہفتے کے اندر ججز رہا ہوگئے اور انھیں فیئر تحقیقات کا حق مل گیا۔ جج احمدمکی کے بڑے بھائی محمودمکی جو پولیس میں خدمات سرانجام دینے کے بعد جج منتخب ہوئے تھے، ۱۹۸۰ء میں چلنے والی آزاد عدلیہ کی مہم کے بڑے مؤثر رہنما تھے۔ یہ تحریک ۰۶۔۲۰۰۵ء میں اپنے عروج پر پہنچی۔ محمودمکی ان ججوں میں شامل تھے جنھوں نے ووٹوں کی ہیراپھیری کا حصہ بننے سے ہی انکار نہیں کیا تھا بلکہ ان کے خلاف آواز بھی بلند کی تھی۔ انہی محمود مکی کو صدرمُرسی نے ۱۹۵۲ء کے بعد پہلی بار ملک کا سول نائب صدر بنا دیا ہے۔ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ مُرسی کے خلاف اپوزیشن کا سب سے مؤثر ہتھیار ہو سکتے تھے مگر مُرسی نے ان کو اپنی ٹیم کا حصہ بنا لیا ہے۔ اسے آپ بصیرت کہیے، وژن کہیے یا سیاسی سوجھ بوجھ، مرسی نے اپنی ٹیم میں اخوان کے ممتاز اور معروف لوگوں کو شامل نہیں کیا بلکہ مؤثر طبقات کے مؤثر لوگوں کا انتخاب کیا ہے۔ عملی طور پر نائب صدر ملک کے صدر کا دایاں بازو اور سیکنڈان کمانڈ ہوتا ہے۔ فوج کے ہاتھوں زخم خوردہ نظام میں ایسے متحرک اور بہادر ساتھی سے صدرمُرسی کو بے حد تقویت ملے گی اور آنے والے دنوں میں وہ اس عدلیہ کے مقابل ہوں گے جس میں بہت سے ججز سیاسی تبدیلی کو اب تک ہضم نہیں کر پا رہے۔یہ ایک عجب ستم ظریفی ہے کہ تیسری دنیا میں سرکار کے لیے کام کرنے والے، آمرانہ حکومتوں کے کُل پرزے بن کر خدمات انجام دینے کے اس قدر عادی ہو جاتے ہیں کہ کسی دوسرے عوامی دور میں ان کو سانس لینا مشکل ہو جاتا ہے اور وہ پھر سے پرانے آقائوں کے دور کی واپسی کی کوششوں میں لگ جاتے ہیں۔ ایسے لوگ نت نئی افواہوں کا بازار ہی گرم نہیں کرتے نظام کے چلنے میں بار بار رکاوٹیں بھی کھڑی کرتے ہیں۔ محمدمُرسی نے پیش بندی کے لیے نامور قبطی مسیحی دانشور سمیرمرقص، ماہرتعلیم باکینام الشرقاوی اور ادینہ سکینہ فاد کو بھی اپنا خصوصی مشیر بنا کر بہت مضبوط پیغام دیا ہے کہ وہ ماضی کے آکٹوپس کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہے۔(مصری سونامی (کانٹوں اور توقعات کا تاج
اپنے سیاسی عروج کی پہلی سیڑھی پر قدم رکھنے سے پہلے ہی بے دست و پا ہو جانے والے محمدمُرسی نے پہلے
۵۰ دنوں میں جس رفتار سے مختلف محاذوں پر اپنے جھنڈے گاڑے ہیں مصری سونامی کے ان طوفانی فیصلوں نے دنیا کو فی الواقع حیران کر دیا ہے۔ پُرعزم مُرسی نے اپنے ۵۰ دنوں میں یہ ضرور ثابت کردیا ہے کہ مسلسل لگن اور محنت ہی نہیں قلب و نظر کی وسعت اور سوچ کی گہرائی ہی سیاسی معاملات میں کامیابی سے ہمکنار کرتی ہے۔مصر اس وقت اپنی پارلیمان کے بغیر ہے۔ دستورسازی جاری ہے اور نوجوان ایک ایک پل اس بے چینی اور بے قراری سے تبدیلی کے منتظر ہیں جو ان کی زندگیاں بدل دے۔ وہ التحریراسکوائر میں ہفتوں اپنی زندگی دائو پر لگا کر، اپنے کتنے ہی ساتھیوں کی جانوں کی قربانی دے کر جس تبدیلی اور قیادت کو لے کر آئے ہیں وہ توقعات اور مشکلات کے کانٹوں سے سجا تاج پہنے اس عالم میں آگے بڑھ رہی ہے کہ انہی کے ملک کے ہوشیار لوگ ان کے قدموں تلے سے اس سیڑھی کو ہی نکالنے اور انھیں گرانے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔فوجی بالا دستی کی اندھیری رات کا خاتمہء۳ جون ۲۰۱۲ء کا دن ایک لحاظ سے بہت تاریخی تھا کہ ۷۶ سالہ فیلڈمارشل طنطناوی اور فوج کے سپہ سالاروں نے مصر کی تاریخ میں پہلی بار کسی سویلین کو فوجی سیلوٹ کیا۔ یہ اعزاز محمدمُرسی کے حصے میں آیا۔ محمدمُرسی کو اپنی صدارت کے پہلے روز سے ہی فوج اور آئینی عدالت کے ڈیزائن کردہ تنے ہوئے رسے پر چلنا تھا۔ اختیارات کے بنا، ملٹری کونسل کے ماتحت، جس نے پارلیمنٹ کو صرف اس لیے تحلیل کر دیا تھا کہ اس میں محمدمرُسی کی پارٹی کے اراکین کی اکثریت تھی۔ صدر کے اختیارات سلب کر لیے گئے تھے اور اسے ’’مجبورِ محض‘‘ بنا کر رکھ دیا تھا۔ محمدمُرسی ایسا تابعِ فرماں صدر بن کر کیسے جی سکیں گے۔ یہی سب سے بڑا سوال تھا جو ملک کے اندر اور باہر موضوع بحث تھا۔اپنے پس منظر اور شخصیت کی باڈی لینگویج کے حوالے سے محمدمُرسی کسی طور پر ’’عقاب‘‘  نہیں لگتے۔ اس لیے فوج کی بالادستی لمبی اندھیری رات کی طرح چلتی نظر آ رہی تھی۔ ایسے میں لوگوں کی توقعات کے برعکس محمدمرسی حقیقی تبدیلی کا نشان ہی نہیں اصل راہنما بھی بن کر سامنے آئے انھوں نے آتے ہی پارلیمنٹ کی بحالی کا اعلان کرکے تہلکہ مچا دیا۔
٭ فوج اور آئینی عدالت نے شدید مخالفت کی مگر انھوں نے پارلیمنٹ کا مختصر اجلاس بلوا لیا پھر فوجی کونسل کے سلب کردہ اختیارات ایک صدارتی حکم کے ذریعے واپس لے لیے۔
٭ اسی دوران اچانک ایک ایسا فیصلہ سامنے آیا جس نے مصر کی ہی نہیں پوری دنیا کے تجزیہ نگاروں، کالم نگاروں، سیاسی صورتِ حال پر نظر رکھنے والوں کو حیران کر دیا۔
اس فیصلے کے اعلان کے ساتھ ہی لگتا تھا مصری عوام خوشی سے بے قابو ہوگئے۔ وہ سڑکوں پر نکل آئے تھے۔ ان کے صدر نے وہ کام کر دکھایا تھا جو ان کے تصور سے بھی زیادہ تھا۔ حسنی مبارک کی سبکدوشی کے بعد جس طرح فوجی کونسل نے جبری طور پر اختیار سنبھال کر پورے ملک کو اپنی مرضی کے تابع کرلیا تھا اس سے نجات کا دور دور تک امکان نظر نہ آتا تھا۔ دنیا دم سادھے فوج کے ردعمل کی منتظر تھی۔ عام گمان یہی تھا کہ کوئی دم جاتا ہے محمدمرسی صدارتی محل سے باہر ہوں گے اور فوج پوری قوت کے ساتھ حکمرانی کے سارے اداروں پر قابض ہو جائے گی۔صدارتی ترجمان یاسرعلی کی طرف سے جاری کردہ اعلامیہ میں بتایا گیا تھا کہ جنرل عبدالفتاح السیسی کو نیا فوجی سربراہ اور ملک کا وزیردفاع مقرر کیا گیا ہے۔ فوجی کونسل میں یہ سب سے کم عمر جرنیل تھے۔ صرف
۵۷ سال کے۔ اس موقع پر صدرنے مسلح افواج کی تعریف کرتے ہوئے کہا ’’اس فیصلے کے بعد فوج قوم کے دفاع کے مقدس فریضے پر پوری طرح توجہ دے سکے گی۔‘‘ اس کے ساتھ ہی صدر کے اختیارات کم کرنے والے آئینی حکم کو بھی منسوخ کردیا۔ دنیا حیران رہ گئی جب فوج کی طرف سے فیلڈمارشل طنطناوی، فوج کے چیف آف سٹاف جنرل سمیع عنان کی معزولی کے علاوہ فضائیہ اور بحریہ کے سربراہوں اور کمانڈروں کی تبدیلی پر فوج نے اجتماعی طور پر چُپ سادھ لی اور اسے نئی تقدیر کا لکھا سمجھ کر قبول کرلیا۔
سی این این اور امریکی مبصرین کا پہلا تبصرہ تھا محمدمُرسی نے شیر کی سواری کر لی ہے۔ اب کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ ہر طرف تبصرے بکھرے ہوئے تھے جیسے
٭ فوج صدمے کی حالت میں ہے۔
٭ فوج کیسے برداشت کرے گی؟
٭ یہ بہت بڑا جوأ ہے۔
٭ یہ پاگل پن ہے جو مرسی نے کیا ہے۔
٭ طنطناوی
۲۰ سال سے وزیردفاع اور فوج کا سربراہ تھا۔مبصرین اس بات کو بھولے ہوئے تھے کہ ۲۰ سال سے فوج میں پروموشنیں رکی ہوئی تھیں۔ ٹاپ پر جگہ خالی نہیں ہوگی تو نیچے سے لوگ کیسے اوپر آسکتے ہیں۔ طنطناوی کی عمر ۷۶ سال ہو چکی تھی۔ وہ سرکاری نوکری کی عمر کی حد کو کب سے عبور کر چکے تھے مگر ان کو کوئی معزول کیسے کرتا؟ یہ جرات تو حسنی مبارک بھی نہ کرسکے۔ ۲۰ رکنی فوجی کونسل کے جرنیلوں کی عمروں کا اندازہ اس بات سے کریں کہ سب سے کم عمر جرنیل کی عمر ۵۷ سال تھی جسے اب فوج کی سربراہی کا تاج پہنایا گیا ہے۔ ۶۰ سال بعد ایک غیرفوجی صدر نے ملکی سیاست اور اقتدار پر مسلط فوجی غلبے کے نشان کو ہٹا دیا تھا۔چندروز پہلے جب ایک سرحدی قصبے میں دہشت پسندوں کے حملے میں ۷ فوجی جوان مارے گئے تو محمدمرسی نے فوری طور پر ملک کے انٹیلی جنس کے چیف کو برطرف کردیا اور ساتھ ہی صوبے کے گورنر کو بھی۔ فوج کے لیے یہ بہت شدید جھٹکا تھا مگر بظاہر انہی کی دلداری اور حفاظت کے لیے تھا۔ مُرسی نے فوج کو حکم دیا کہ دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو تہس نہس کردیا جائے۔ جو حملہ آور بچ کر نکلے تھے انھیں اسرائیلی فوج نے بھون کررکھ دیا۔ یہ سرحدی شہر دہشت گردوں کا بہت مضبوط گڑھ سمجھا جاتا تھا۔ کریک ڈائون کے نتیجے میں بے شمار دہشت گرد مار دیے گئے اور ان کا گڑھ تباہ کردیا گیا۔ مضبوط فیصلے کرنے والے صدر کا نیا امیج بن رہا ہے۔مرسی کی پھونک کام کر گئی
محمدمرسی نے ایک بار پھر قوم کو سرپرائز دے دیا تھا۔ مسلم دنیا اور بالخصوص عرب ممالک کے فوجی جرنیلوں کی روایت یہ رہی ہے کہ اقتدار پر گرفت مکمل کرنے کے بعد وہ اپنے آس پاس ایسے مضبوط حصار قائم کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں کہ جسے برسوں بلکہ عشروں چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ مصری فوج کے جرنیلوں کی برطرفی پر بی بی سی کا دلچسپ تبصرہ تھا ’’فوجی جرنیلوں کا چراغ پھونکوں سے بجھایا نہ جائے گا۔‘‘
۲۴ گھنٹے تک جب فوج نے ردِعمل نہ دیا تو کہا گیا، ’’لگتا ہے صدرمُرسی کی پھونک کام دکھا گئی ہے۔‘‘
فوجی جرنیلوں کی بظاہر ریٹائرمنٹ عملاً برطرفی تھی جسے فوج نے اپنے نئے چیف آف سٹاف جنرل عبدالفتاح ایسیسی کے ساتھ ہی قبول کر لیا تھا۔ حسنی مبارک کی رخصتی کے بعد جنرل طنطناوی نے فوجی کونسل کے سربراہ کی حیثیت سے عملاً ملک کے صدر کا منصب سنبھال لیا تھا۔ عالمی اور عوامی دبائو کے باعث وہ انتخابات پر تو مجبور ہوئے مگر اخوان سے ازلی دشمنی کے باعث انھوں نے ہر ہر قدم پر روڑے اٹکائے بلکہ بی بی سی کے ایک مبصر کی رائے میں صاف سیاسی دودھ میں مینگنیاں ڈالنا ہرگز نہیں بھولے۔ انھوں نے صدارتی انتخابات کے مرحلے پر اس پارلیمان کو ہی تحلیل کردیا جس میں اخوان اور اسلام پسندوں کی پہلی بار اکثریت منتخب ہو کر آئی تھی۔پھر صدارتی انتخاب کے دوسرے مرحلے سے پہلے صدر کے تمام اختیارات ہی سلب کر لیے اور عملاً صدر کو صرف نمائشی عہدہ بنا دیا۔ تجزیہ نگاروں کی رائے تب بھی یہی تھی کہ فوج اخوان کو اپنے اقدامات کے ذریعے مشتعل کررہی ہے تاکہ وہ الیکشن کا ہی بائیکاٹ کردیں مگر اخوان کے راہنمائوں نے فوج کے ساتھ محاذآرائی اور بیان بازی سے مسلسل گریز کیا اور کسی بھی مرحلے پر فوجی اقدامات کو چیلنج کرنے کا تکلف بھی نہیں کیا۔وہ اِتنا سادہ نہیں ، جس قدر لگتا ہے
یہ محمدمرسی ہی تھا جس نے حلف کے پہلے روز ہی کہا ’’فوج اب اپنا اصل کام سنبھالے گی جو کہ ملک کے عوام اور اس کی سرحدوں کی نگہبانی کرنا ہے۔‘‘ تب اسے محض سیاسی بیان سمجھا گیا۔ نئے صدر کی طرف سے ایک بے ضرر اصولی گفتگو۔ اسی روز صدر نے کہا جس پارلیمان کو تحلیل کیا گیا وہ ایک منصفانہ اور شفاف انتخابات کے نتیجے میں بنی تھی اور اس پر ایک نئے جمہوری آئین سازی کے کام کے لیے اعتماد کیا گیا تھا۔ مشرق وسطیٰ کے معاملات پر گہری نظر رکھنے والے مبصر مغدی عبدالبادی کا اس موقع پر کہنا تھا ’’محمدمرسی کو فوج سے ایک انتہائی پیچیدہ رشتہ نبھانا ہے۔‘‘اس کا کہنا تھا صدرحسنی مبارک کے عہد میں تعینات کئے گئے لوگ ہی تمام اہم حکومتی عہدوں پر فائز اور ان میں سے کئی صدر کے ساتھ کام کرنے پر تیار نہ ہوں گے مگر اُن کے تجزیے پر کئی سوالیہ نشان لگ گئے، جب صدر نے پچھلی کابینہ میں کام کرنے والے ایک وزیر ہشام قندیل کو مصر کا وزیراعظم مقرر کردیا۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ ہشام کا تعلق نہ تو اخوان المسلمون سے تھا اور نہ ہی وہ پارلیمان میں الیکشن جیتنے والی محمدمرسی کی فریڈم اینڈجسٹس پارٹی کا رکن تھا۔ ہشام کی شہرت بطور ایک ٹیکنوکریٹ کے تھی اور اس کا زیادہ وقت انجینئرنگ کے کاموں اور محکموں میں گزرا تھا۔ اسے حسنی مبارک کے بعد کمال المغنوزی کی عبوری حکومت میں پہلی بار وزیر بنایا گیا تھا۔ ہشام کی تقرری کے وقت مصری صدر نے کہا ’’ایک محب وطن اور غیر جانبدار شخصیت کا طویل مشاورت کے بعد تقرر عمل میں لایا جا رہا ہے۔ اس کا مقصد ایک ایسے شخص کا انتخاب تھا جو موجودہ حالات کو سنبھال سکے۔صدر کی توہین کا قانون
پُرعزم صدر کے دن کا آغاز روز ایک نئے چیلنج سے ہوتا ہے۔ تاریخی طور پر مصری صدر کا عہدہ بے حد حساس اور ’’پروٹیکٹڈ‘‘ ہے۔ ملک میں صدر پر تنقید پر سخت سزا کا قانون لاگو ہے۔ الدستور (لبرل وفد پارٹی کا ترجمان اخبار) کے مدیرِاعلیٰ اسلام عفیفی پر اِن دِنوں کورٹ میں مختلف الزامات کے تحت ایک کیس چل رہا ہے ان الزامات میں ’’صدر کی توہین کرنا‘‘ بھی شامل ہے۔عفیفی مُرسی کا ہی نہیں اخوان کا بھی شدید ناقد ہے۔ عدالت نے اسے
۱۶ستمبر یعنی اگلی پیشی تک تحویل میں رکھنے کا حکم دیا ہے۔ عدالتی رائے سامنے آنے کے فوراً بعد نائب صدر محمود مکی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا صدر اس قانون کو جو صحافیوں کو قید کرنے کے حوالے سے لاگو ہے۔پارلیمنٹ کی عدم موجودگی میں حاصل قانون سازی کی طاقت استعمال کرتے ہوئے ختم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
عفیفی پر افواہیں پھیلانے اور عوام کے مفاد کے خلاف کام کرنے کا بھی الزام ہے۔ کئی اور صحافیوں پر بھی ایسے ہی الزامات ہیں۔ ایک ٹی وی چینل کے اینکر پر تو پاکستانی اینکرز سے بھی دو ہاتھ آگے جا کر صدر مُرسی کو مارنے کی ترغیب دینے کا بھی الزام ہے۔ یہ گفتگو اس نے اپنے پروگرام میں براہِ راست کی۔ عفیفی کا کیس عملاً ’’پریس کی آزادی‘‘ کا کیس بن گیا ہے۔ صحافیوں کا کہنا یہ ہے کہ صحا فیوں کے لیے ایسا قانون ہونا ہی نہیں چاہیے کہ جس میں کیس کی سماعت کے دوران انھیں جیل بھجوانے کی بات ہو۔
عفیفی کے وکیل عادل رمضان نے کہا ’’ہمیں توقع ہی نہیں تھی کہ سفر کرنے سے یہ پہلے سے موجود پابندی کے بعد میرے موکل کو جیل بھی بھیج دیا جائے گا۔ یہ تو امتیازی سلوک ہوا۔
اخوان کے ایک رہنما محمود حیلمے نے جو پارلیمان کے رکن بھی رہے ہیں اس موقع پر خوب بات کہی۔ برسوں پرانے قوانین اب امتیازی لگنے لگے ہیں۔ ہم پر تو ہر قانون امتیازی بنا کر لاگو کیا گیا تھا اور ہم نے اس کو بھگتا۔ یہ موقع سکور کرنے کا نہیں ہے۔ ہم جمہوریت کی طرف جانے والے نازک دور سے گزر رہے ہیں تاکہ قانون کی ہر جگہ عمل داری ہو۔ ہم نے غیر معمولی اور امتیازی قوانین کی سزائیں دیکھی اور سہی ہیں، اس لیے اس تکلیف کو بھی سمجھتے ہیں چاہے وہ ہمارے مخالفین کو ہی کیوں نہ پہنچے۔ لوگوں کو بھی اپنی ذمے داریاں سمجھنی چاہئیں۔ وہ اچھا کریں یا بُرا، اس کی جواب دہی بھی انھیں کو کرنا ہوگی۔ زندگی تو قانون کی حدود کے اندر ہی رہنی چاہیے۔‘‘سازشوں اور نقادو ں سے بھرے ماحول میں مرُسی کا چھکا
اس مخالفانہ اور سازشوں بھرے ماحول میں
۳۰ جون ۲۰۱۲ء کو صدر بننے والے محمدمرُسی نے ایک اور چھکا مارا اور آزادیٔ صحافت کے نام پر بولنے والوں کو اس وقت لاجواب کردیا جب اپنے قانون سازی کے اختیارات استعمال کرتے ہوئے اس قانون کو ہی ختم کردیا جس کے مطابق پریس میڈیا سے متعلق شکایات پر سماعت کے دوران میڈیا سے متعلق لوگوں کو عارضی حراست میں رکھا جا سکتا ہے۔رائٹرز کے نمائندے نے حیرت سے کہا ’’صدرمُرسی نے اپنے مخالفین کا منہ بند کردیا ہے جو یہ کہتے تھے کہ صدر میڈیا میں اپنے مخالفین کا کریک ڈائون کرنے والے ہیں۔‘‘ جس قانون کے خاتمے کا پچھلے ۳۰ برسوں میں مطالبہ نہ کیا گیا اور نہ توقع رکھی گئی، مُرسی نے اپنے پہلے ۵۰ دنوں میں ہی آرڈی نینس سے اسے فنا کے گھاٹ اتار دیا۔ حالانکہ اس کا سب سے زیادہ فائدہ مُرسی کے نقادوں اور مخالفین کو ہونے والا ہے کیونکہ مرسی اور اس کی پارٹی بیٹنگ کریز پر ہے اور افواہوں، الزاموں، توقعات کے ٹوٹنے، ناکامی کے خدشوں کی ہر بال انہی کو کھیلنی ہے اور اب نوبال کہنے والا یا مسلسل بائونسر پھینک کر دل و نگاہ کو زخمی کرنے سے روکنے والا کوئی آمرانہ قانون بھی موجود نہیں ہے۔التحریر اسکوائر اور پاکستانی یوتھ
قاہرہ کے التحریر اسکوائر نے ایک لحاظ سے مصر کے ہائیڈپارک کی شکل اختیار کر لی ہے۔ آئے دن مختلف الخیال نوجوانوں کی چھوٹی چھوٹی ٹکڑیاں وہاں جمع ہوتی ہیں۔ اپنا اظہارِخیال کرتی ہیں، نعرے لگاتی ہیں اور چلی جاتی ہیں۔ کسی بھی حکومت کے لیے یہ سب دیکھنا، سہنا آسان نہیں ہوتا۔ پہلے حسنی مبارک ہدف تھے تو ابھی
۵۰ روز بھی مکمل نہ کر پانے والے صدرمُرسی بھی ان مظاہرین کا نشانہ بننا شروع ہو گئے ہیں۔ ان کا نعرہ ہوتا ہے ’’چہرے نہیں نظام کو بدلو۔‘‘’’چارلس سیناٹ‘‘ دنیا کا ایک جانا مانا ٹی وی رپورٹر ہے۔ اس نے التحریر اسکوائر سے واپسی پر مصری انقلاب اور اس کے پسِ پردہ نوجوانوں کے اصل کردار سے پردہ اٹھایا ہے۔ یاد رہے، مصری سونامی نوجوانوں ہی کی وجہ سے برپا ہوا۔ بڑی عمر کے لوگ اور تجربہ کار سیاسی راہنما اور جماعتیں تو بہت بعد میں شامل ہوئیں۔ پاکستان کے معروضی حالات میں ایک ملین ڈالر کا سوال یہ ہے کہ کیا پاکستانی نوجوان مصر کی طرح تبدیلی اور انقلاب کے لیے فیصلہ کن کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہیں؟
التحریراسکوائر کے نوجوانوں کا تو بہت دنوں تک کوئی راہنما ہی نہیں تھا کہ جس کے اپنے کردار کی چھان بین شروع ہو جاتی اور ساری توجہ کا رخ تبدیلی کی بجائے تبدیلی کے نشان کی غلطیوں اور گناہوں کی نشان دہی کی طرف ہوجاتا۔التحریراسکوائر میں تبدیلی کے لیے جانیں ہتھیلی پر رکھ کر آنے والے نوجوانوں کی اوسط عمر
۲۰ سال تھی۔ یہ سوشل میڈیا کے دیوانے اور کالجوں میں پڑھنے والے طلبہ کے علاوہ عام یوتھ سے تعلق رکھتے تھے۔ غصے سے بھرے ہوئے، خوشی اور تبدیلی کو ترسے ہوئے۔ ان کو فوج کی گولیاں، پولیس کی گالیاں، لاٹھی چارج کی چوٹیں، پانی کی کاٹ دینے والی تیز دھاریں، کئی کئی پہروں کی بھوک، جلتی دھوپ، برستی بارشیں کچھ بھی ان کے عزم کی راہ میں کھڑی نہ ہو سکیں۔چارلس سیناٹ نے ایک دلچسپ اور حیران کن تجزیہ کیا۔ وہ کہتا ہے کہ اخوان المسلمون ایک سیاسی پارٹی نہیں ہے۔ وہ ایک سوشل موومنٹ کی طرح کام کرتے ہیں۔ ان کا حوصلہ دیکھیں کہ وہ انقلاب لانے اور اس کے پیچھے رہ کر اصل قوت متحرکہ ہونے کا کریڈٹ بھی نہیں لیتے حالانکہ التحریراسکوائر میں جب تک اخوان نہیں آئے تھے، اس کی کوئی شکل ہی نہیں نکل رہی تھی۔ انھوں نے آتے ہی زخمیوں کے لیے میڈیکل کیمپ قائم کر دیے۔ وہاں دھرنا دینے والوں کے لیے کھانے کے انتظامات کیے اور سب سے بڑھ کر حسنی مبارک کے حامیوں کے التحریر چوک میں آکر فساد کرنے اور لوگوں کو ڈسٹرب کرنے سے روکنے کا ایسا فول پروف انتظام کیا کہ کوئی دوسرا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ انھوں نے گیٹ نہیں باقاعدہ چوکیاں قائم کردیں۔اب اخوان صرف یہ کہتے ہیں کہ ہم مصر کو بدلنا چاہتے ہیں تاکہ ہم اچھے مسلمانوں کے طور پر جی سکیں۔ ہم شریعت کی حکمرانی اور عمل داری چاہتے ہیں تاکہ اچھے مسلمان بن کر جینے میں مدد مل سکے۔ اخوان کی یوتھ میں اتنا صبر کیسے آیا کہ وہ اتنی بڑی کامیابی کے بعد بھی انتقام پر نہیں اُترے۔ انھوں نے سسٹم اور اس کی خرابیوں اور اس کی مضبوطیوں کو سمجھنے میں بہت وقت لیا ہے۔ انھوں نے اپنے مخالفین کے دل جیتنے اور ان کو ساتھ لے کر چلنے کا گُر سیکھ لیا ہے جبھی تو انتہاپسند سلفی پارٹی سے لے کر قبطی عیسائیوں تک کی قیادت اخوان کے ساتھ چل رہی ہے۔پاکستانی یوتھ کے سوچنے اور سمجھنے والی بات یہ ہے کہ اخوان کے اپنے کل ۶  لاکھ ممبر ہیں مگر اسے ووٹ ایک کروڑ ۳۳ لاکھ ملے ہیں۔ یہ ووٹ پارٹی ممبرز کے نہیں بلکہ ان عام لوگوں کے ہیں جنھوں نے مصری سونامی کی قیادت، ان کی سوچ اور پروگرام پر اعتماد کیا۔ وہ ۶۰ سال سے موجود آمرانہ نظام کو جڑوں سے اُکھاڑ پھینکنے کے نعرے لگاتے ہیں۔ ہر پرانے چہرے سے نفرت کا اعلان اور اظہار کرتے ہیں۔ جلوسوں اور جلسوں میں ان کے نعرے لگانے کا منظربہت دیدنی ہوتا ہے۔ لگتا ہے وہ بے حال ہو کر ابھی تبدیلی کے لیے جان دے دیں گے۔ مگر ان کے قائدین سب لوگوں کو ساتھ لے کر چلنے کی پالیسی اپنا رہے ہیں۔ ان کا اپنا واضح ایجنڈا ہے مگر وہ لوگوں کو کاٹ کر پھینکنے کی پالیسی پر نہیں جوڑنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔پاکستانی یوتھ کو ابھی یہ سب سمجھنے میں بہت وقت لگے گا وہ اپنے آس پاس موجود سیاسی پارٹیوں سے نہیں بلکہ ان کے سربراہوں کی محبت اور نفرت میں گرفتار ہیں۔ ان کی تنقید کا نشانہ ابھی تک نظام نہیں شخصیات ہیں اور عجب بات یہ ہے کہ شخصیات بھی وہ جو اقتدار میں نہیں۔ صاحبانِ اقتدار یا وہ چہرے جو اس بوسیدہ نظام کے محافظ ہیں ابھی تک پاکستانی یوتھ کا ہدف ہی نہیں ٹھہرے۔ پاکستان میں تبدیلی کی دعوے دار ۳  جماعتیں اور ان کی یوتھ ہے۔ ایم کیو ایم، مگر وہ گزشتہ ۲۵ سال سے اقتدار کا حصہ ہے۔ صرف بیانات میں تبدیلی چاہتے ہیں ورنہ وہ ’’سٹیٹس کو‘‘ کے سب سے بڑے حامی ہیں۔ ان کی یوتھ صرف ٹیلی فونک خطاب سننے، بڑے بڑے جلسوں میں شریک ہونے کے علاوہ ووٹ ڈلوانے اور شہر کو کنٹرول کرنے کے لیے قائم سیکٹروں کے نظام کی دیکھ بھال میں مصروف رہتی ہے۔ ایم کیو ایم کے پاس یوتھ کی بہت بڑی تعداد ہے۔ اگر وہ اپنا پروگرام اور امیج بہتر بنا لیں تو آنے والے دنوں میں وہ بھی تبدیلی کا نشان بننے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔دوسرے نمبر پر تبدیلی کے شدید خواہش مند جماعت اسلامی کے نوجوان ہیں۔ مگر عوامی اور سیاسی سطح پر ان کی شنوائی نہیں ہے۔ وہ معمول کی چھوٹی چھوٹی میٹنگز، لٹریچر، پوسٹرز، سٹکرز کی تقسیم تک محدود ہیں۔ ان کی باتیں اگر عوام کی سمجھ میں آتی بھی ہیں تو عوامی پذیرائی نہیں ہے۔ وہ کسی بھی التحریراسکوائر کو کنٹرول کرنے کے لائق ہیں مگر سوال یہ ہے کہ التحریراسکوائر میں جمع ہونے والے وہ ہزاروں لاکھوں نوجوان آئیں گے کہاں سے؟ جماعت اسلامی کی پوری قیادت نیک دل بزرگوں کی قیادت ہے۔ عوام سے دور اور عوامی مسائل اور سوچ سے کافی دور۔وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی دعوت سچی ہے اس لیے سب کو ان کے ساتھ ہونا چاہیے، مگر عوام ان کو درست سمجھتے ہوئے ووٹ بھی دیں گے اور ان کے ساتھ کھڑے بھی ہوں گے، یہ کہنا بہت مشکل ہے کیونکہ عوام انھیں اپنی سیاسی قیادت کا حق دینے پر ابھی تیار نہیں۔ ممکن ہے آنے والے سالوں میں جماعت کی یوتھ کی سوچ غالب آجائے اور جماعت ایک سیاسی جماعت کے بجائے سوشل موومنٹ بن جائے۔ اپنی خدمت، مہارت، دیانت کے سحر سے عام لوگوں کو اپنے گرد جمع کرلیں تویقینا وہ تبدیلی کے لیے کسی مہم کے رہنما ہو سکتے ہیں۔ ابھی نہیں۔تبدیلی کی تیسری خواہش مندجماعت تحریک انصاف ہے جس کی یوتھ کو ابھی تک عوامی خدمت یا رابطوں کا موقع میسر نہیں آیا۔ ایک بہت بڑی تعداد میں سوشل میڈیا اور تعلیمی اداروں میں قائم نیٹ ورک سے یوتھ موٹی ویٹ ضرور ہوئی ہے مگر انھیں روزانہ اپنے قائد اور دیگر پارٹی قائدین کی صفائیاں دینے کے کام سے ہی فرصت نہیں مل رہی۔ اس یوتھ سے جلسے جلوسوں کے علاوہ بھی کوئی بڑا کام لینا ہوگا۔ خود عمران خان کے پاس بھی ابھی کوئی واضح پروگرام نہیں ہے جو اس یوتھ کو کام پر لگائے۔ نتیجتاً پریس کانفرنسوں، پروگراموں میں یوتھ آپس میں الجھ رہی ہے۔ عہدوں پر لڑ رہی ہے۔ نئے آنے والوں پر شدید اعتراضات اُٹھا رہی ہے۔ایک جلسہ کامیاب ہونے سے وہ بہت خوش تھے مگر سیاسی بصیرت کی کمی کے باعث نہیں جانتے کہ تبدیلی ایک جلسے سے نہیں آتی۔ انھیں خود بھی تبدیلی نظر نہیں آتی اس لیے اس یوتھ کا غصہ کالم نگاروں پر گالیوں اور سوشل میڈیا پر الزاموں کی صورت بہہ رہا ہے چونکہ ابھی تک ان کے سامنے کوئی واضح ہدف نہیں ہے۔ کوئی بڑا پروگرام نہیں ہے، اس لیے نئے آنے والوں کے لیے آمادگی تک نہیں ہے۔ اختلاف کرنے والوں کو ملیامیٹ کرنے کا جنونی جذبہ ان کی ابتدائی کامیابی کو بھی کھائے جا رہا ہے۔کیا یہ یوتھ کوئی التحریراسکوائر برپا کر سکتی ہے۔ ابھی تک کے مشاہدے کے نتیجے میں تو جواب ہاں میں نہیں ہے… تحریک انصاف کو اس طرف بہت سنجیدگی سے متوجہ ہونے کی ضرورت ہے کہ ان کے نوجوانوں میں ٹھہرائو، برداشت اور خدمت کا جذبہ پیدا ہو۔ لمحہ موجود میں تحریک انصاف کے نوجوان تحریک برپا کرنے کی صلاحیت ضرور رکھتے ہیں مگر اسے سنبھالنا،  اور نتیجہ خیز بنانا، بہت بڑا چیلنج ہے۔ انھیں اسے سمجھنا ہوگا۔ یہ کام ان سے اکیلے نہ ہو سکے گا۔ اب تو تجزیہ نگاروں نے کہنا شروع کردیا ہے کہ اگلے الیکشن میں تبدیلی اور کامیابی تو دوررہی اس شعر کا سا معاملہ ہونے والا ہے ؎لڑتے لڑتے ہو گئی گم
ایک کی چونچ اور ایک کی دُممصری سونامی کا قائد، امید اور توجہ کا مرکز
منصبِ صدارت پر فائز، مصری سونامی کے اس قائد کو سمجھنے میں ان کے مخالفوں نے بڑی بھول کی ہے، جیسے جیسے اس کی شخصیت کے پرت کھل رہے ہیں محمدمُرسی کے رنگ لوگوں کو اور بھا رہے ہیں۔ پچھلے دنوں وزارتِ داخلہ کے ہیڈکوارٹر کے دورے پر گئے تو بڑے بڑے افسران خیرمقدم کے لیے قطار بنا کر کھڑے تھے۔ وزیرِ داخلہ ایک ایک افسر سے صدر کو متعارف کرا رہے تھے۔ ایک افسر کے سامنے پہنچ کر وزیرِداخلہ نے کہا ’’یہ بریگیڈیئرابراہیم شربینی ہے۔‘‘ صدر یہ سن کر مسکرا دیے۔ بولے ’’میں انھیں اچھی طرح جانتا ہوں۔ رات
۲  بجے یہ میرے گھر سے مجھے گرفتار کرکے لائے تھے اور ان کے ساتھ کھڑے ۲  افسران اور بھی تھے۔‘‘ پھر صدر نے وقفہ دیا اور مسکرا کر بولے ’’وہ دونوں بھی تو ان کے ساتھ ہی کھڑے ہیں۔‘‘سب لوگ یہ بات سن کر بے اختیار ہنس دیے۔ وہ جان گئے تھے کہ یہ بات کہنے کے لیے معاف کرنے والا ایک بڑا دل چاہیے جو ہر کسی کے پاس نہیں ہوتا۔ عوامی طاقت کی پشت پناہی، بصیرت، تیزنگاہ اور اپنے اہداف پر پوری نگاہ رکھنے والے محمدمرسی تنقید کے پتھروں سے پیدا ہونے والی لہروں سے پریشان نہیں ہیں۔ وہ ہر چھوٹے بڑے امتحان میں کھرے ثابت ہو رہے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ان کے پاس اختیار و اقتدار کے علاوہ بھی کچھ ہے جس سے باقی حکمران محروم ہوتے ہیں۔تبھی تو گزشتہ دنوں جامع ازہر کے باہر جب ایک عورت نے ان کے قریب آ کر ایک تحفہ دینا چاہا تو پولیس افسر نے روکتے ہوئے پوچھا ’’اتنے بڑے صدر کو تم قرآن کا یہ نسخہ کیوں دینا چاہتی ہو؟‘‘ اس عورت نے معصومیت سے کہا ’’میرے ۲  بیٹوں کی شہادت کے بعد مایوسی سے بھری زندگی میں اس قرآن کے بعد تمھارا یہ صدر ہی میری واحد امید ہے۔ میں اپنی امید کو وہ کتاب دینا چاہتی ہوں جو دنیا کے سارے مایوس لوگوں کی رہنما اور قوت ہے۔ یہ کبھی تھکنے اور رُکنے نہیں دیتی۔ مُرسی میٹر چل رہا ہے۔ یہ آنے والا وقت ہی گواہی دے گا کہ صدر مرسی نوجوانوں کی توقعات پر کتنا پورا اُتر سکے گا۔ پُرعزم صدر کے فیصلوں میں تو ایک واضح مستقبل کے اشارے پنہاں ہیں۔



<<< پچھلا صفحہ اگلا صفحہ >>>

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


اپنی قیمتی رائے سے آگاہ کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ (بلاگ اسپاٹ کی دنیا میں) نئے ہیں اور درج بالا تحریر پر آپ کا قیمتی تبصرہ کرنے کا ارادہ ہے تو ۔ ۔ ۔ Comment as میں جا کر“ANONYMOUS" پر کلک کر کے اپنا تبصرہ لکھ دیں – ہاں آخر میں اپنا نام لکھنا نہ بھولیں -

تعمیر نیوز

اس بلاگ کی مذید تحاریر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

Powered by Blogger.