2011

دعائے خیالؔ

دعائے خیالؔ

اے خدا تیرے سوا کوئی مددگار نہیں
تو مددگار توپھر  غیر کی درکا ر نہیں

تیرے محتاج خداہم  ہیں سبھی شاہ و گدا
کون ایسا ترا جگ میں یہاں طلبگار نہیں؟

زندگی بخش دے یا موت بخشدے مجھے
تیرے ہر کار سے مجھ کو کبھی انکار نہیں

خیالؔ گرداب الم میں جو پھنسا ہے لیکن
پار بیڑا تو کریگا ' تو پھر کچھ دشوار نہیں !!




بروز جمعرات : 3 جمادی الاوّل سنہ 1388 ھ مطابق  15 اگست سنہء 1968

دوسروں کو نصیحت ۔ ۔ ۔

حضرت حسن بصری رح سے عرض کیا گیا کہ بعض افراد کا یہ خیال ہے کہ دوسروں کو نصیحت اس وقت کرنی چاہیے جب خود بھی تمام برائيوں سے پاک ہو جاۓ ۔
فرمایا کہ ابلیس تو یہی چاہتا ہے کہ اوامر نواہی کا سدباب ہو جاۓ۔
(تذکرۃالاولیاء صفحہ 19)

سہراب گوٹھ میں مدرسے پر چھاپہ ۔ حقیقت کیا ہے؟

ایک خبر


تصویر کا ایک رخ
کراچی  :  کراچی میں سہراب گوٹھ کے علاقے میں گڈاپ پولیس نے ایک مسجد سے متصل مدرسے پرچھاپہ مارکر وہاں سے زنجیروں میں جکڑے 50سے زیادہ بچوں کو بازیاب کرایاہے، معلوم ہوا ہے کہ ان بچوں کو پشاور کے نواحی علاقوں سے یہاں لایا گیا تھا۔ ایس پی گڈاپ راؤانوار کا کہنا ہے کہ زیادہ تر بچوں کا تعلق صوبہ خیبر پختوانخوا سے ہے۔ادھر گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان نے اس واقعے کا نوٹس لے لیا ہے۔پولیس ذرائع نے بتایا کہ ان معصوم بچوں کو مدرسے کے تہہ خانے میں مبحوس رکھا گیا تھا۔


اس خبر کو بنیاد بنا کر  پورے پاکستان اور ہندوستان  کا میڈیا مدارس دینیہ کے خلاف زہر اگلنا شروع کر دیتا ہے ۔ اور مدارس کو بدنام کرنے کے لئے کمر بستہ ہوتا ہے۔۔۔

اب دیکھتے ہیں  حقیقت کیا ہے


تصویر کا دوسرا رخ



 پہلی خبر کو دیکھئے ہمارے آزاد میڈیا کا کارنامہ ۔ ۔ ۔ ۔ جب بھی موقعہ ملا اس آزاد میڈیا نے رشد و ہدایت کے مراکز کو بدنام کرنے میں پورا زور لگا دیا ۔ ۔ ۔

مگر ۔ ۔ ۔  جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے



فانوس بن کے جس کی حفاظت ہوا کرے
وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے


بشکریہ :جناب سیفی خان صاحب ' روزنامہ امت کراچی '  الغزالی اردو فورم


تسلّئ خیال سومیشوری

مقدر ہوبُری اپنی ' تو کب ہوگا بھلا اپنا
ہمارے ہی مقدر سے ہو گر روٹھا خدا اپنا

ہم اپنے رنج و غم کا حال اب' جا کر کسے کہہ دیں
نظر آیا نہ کوئی بھی ' اس دنیا میں بھلا اپنا

کوئی گر نا سنے ' پھر تُو ہی بتلا دے ہمیں یارب
بجُز  تیرے جہاں میں جا کروں کس سے گلہ اپنا

خیال ؔ اس دارِفانی میں'نہ جینے کا مزہ اب ہے
بھلائی کرنا چاہتے ہیں' مگر ہوتا بُرا اپنا

تیری دنیا ' تیری دنیا - خیال حسن

خ          خوشی  مجھ سے بھگاتی ہے ' تیری دنیا ' تیری دنیا
وجہ مجھ کو نہ  بھاتی ہے  ' تیری دنیا ' تیری دنیا

ی          یہ نالے رنج و غم' ہردم  بنا کر اے میرے ہمدم
سدا کیوں کر ستاتی ہے ' تیری دنیا ' تیری دنیا

ا            اگر میں لاکھ یوں ' کہتے رہا اپنی مصیبت کو
مگر نہ کام آتی ہے  ' تیری دنیا ' تیری دنیا

ل         لگا کر آگ سرتاپا محبت کی میرے تن کو
یہ کیوں مجھ کو جلاتی ہے ' تیری دنیا ' تیری دنیا

ح         حقیقت لاکھ یوں کہتے رہا  اپنی مگر ہرگز
نہیں بگڑی بناتی ہے  ' تیری دنیا ' تیری دنیا

س        سہارا زندگی کا میں نے  چاہا ہر گھڑی لیکن
ستم ہر دم یہ ڈھاتی ہے ' تیری دنیا ' تیری دنیا

ن       نہ رکھتی  ہے خیالؔ میرا ' مصیبت نے ہے یوں گھیرا
بھنور میں پھر پھنساتی ہے  ' تیری دنیا ' تیری دنیا

بقلم : خیالؔ حسن سومیشوری 

دیر آید درست آید

روز مرہ کی طرح آج بھی صبح صبح گھر سے  جلد بازی میں دفتر کے لئے نکلا- پارکنگ میں بائیک لگانے کے بعد  اسٹیشن کی جانب جاتے ہوئے قریب کے بک اسٹال پر نظر پڑی جس میں کئی قسم کے اخبار تروتازہ دکھائی دے رہے تھے۔ ایک نظر ان پر ڈالی تو ایک اخبار کی شہ سرخی " پاکستان فوج کو نیٹو کے خلاف کاروائی کی کھلی چھوٹ " پڑھ کر بڑی خوشی ہوئی کہ کم از کم ایک عرصے کے بعد تو پاک کی غیرت جاگ گئی ۔

اب تک کی جو خبریں ہم کو سننے مل رہی تھیں ان سب سے تو یہی لگ رہا تھا کہ پاک پر امریکی فوج ہی قابض ہے ۔ جہاں دیکھو امریکی فوج اپنی من مانی کر رہی ہے۔ پاک عوام ان کے لئے  تو بس ایک کھلونہ ہیں۔ جب چاہیں' جس وقت چاہیں، جس جگہ چاہیں ان کو اپنی گولیوں اور بموں کا نشانہ بنا لیں ۔

آج ایک مدت کے بعد پاکستان کی جانب سے یہ خبر سن کر بہت مسرت ہوئی- 26 نومبر کے 24 فوجیوں کی شہادت کے بعد آخر کار کچھ تو غیرت جاگ ہی گئی ۔۔ ۔۔ کاش کہ یہ غیرت ہزاروں بے گناہ عوام کے جان گنوانے سے قبل جاگ جاتی ۔۔۔ مگر کہتے ہیں نا کہ ۔ ۔ ۔ دیر آید درست آید ۔ ۔ ۔

امید ہے کہ جلد ہی وہ دن بھی آئے گا جب ارض پاک ان گوروں کے تسلط سے مکمل  پاک ہو جائے گی ۔

 دعا ہے کہ ہمیں  وہ دن جلد از جلد دیکھنا نصیب ہو ۔ آمین

انکار . . . . کے ڈرسے - - - -


بہت ہی دور وادیوں سے یہ صدا آئی
کہ جب تم پیار کرنا' تو کبھی انکار کے ڈر سے
کسی کی جیت کے ڈر سے' یا اپنی ہار کے ڈر سے
کبھی بھی دل کی آوازوں کو تم دل میں نہیں رکھنا
انہیں ہونٹوں کے زندانوں کے پھر آزاد کر دینا
کہ جو ایسا نہیں کرتا' اسے افسوس ہوتا ہے

اسے پھر زندگی میں ہر لمحہ افسوس رہتا ہے
کہ اس نے زندگی کے بے بہا انمول تحفہ کو
فقط اندیشہ و افکار پر قربان کر ڈالا
کہ اس نے چند برسوں کی فقط تکلیف کے بدلے
زندگی بھر کے پچھتاوے کا یہ عذاب کیوں پالا

کہ جو ایسا نہیں کرتا
وہ پھر تنہائی کے وسیع و بے رحم صحرا میں
محبت کی فقط دو چار بوندوں کو ترستا ہے
زندگی کے کسی بھی موڑ سے جب وہ گذرتا ہے
کسی اپنے سے دل کی بات کرنے کو مچھلتا ہے

وہ جب بیمار ہوتا ہے
کسی ہمدرد' کسی ہمنوا کو یاد کرتا ہے
وہ پھر یہ سوچا کرتا ہے
کوئی ہو جو مجھے' پرہیز کی تاکید کرتا ہو

کوئی ہو جو میری تکلیف میں خود بھی تڑپتا ہو
دوا نہ لوں کبھی جو میں تو پھر ڈانٹا بھی کرتا ہو
کوئی تو ہو . . . . کوئی تو ہو . . جو مجھ سے پیار کرتا ہو.

انہی سوچوں سے گبھرا کر وہ پھر خود ہی سے لڑتا ہے
میں اس بے رحم دنیا میں اکیلے جی بھی سکتا ہوں!!!
مقدر میں ہیں جو لکھے' وہ آنسو پی بھی سکتا ہوں!!!

مگر وہ ہار جاتا ہے .
اور جب وہ ہار جاتا ہے
تو اس کی آنکھ سے چپکے سے اک آنسو لڑھکتا ہے
اسے پچھتانا پڑتا ہے

سو جب تم پیار کرنا تو کھی انکار کے ڈر سے
کسی کی جیت کے ڈر سے' یا اپنی ہار کے ڈر سے
کبھی بھی دل کی آوازوں کو تم دل میں نہیں رکھنا
انہیں ہونٹوں کے زندانوں سے بھر آذاد کر دینا

کہ جو ایسا نہیں کرتا اسے افسوس ہوتا ہے
کہ جو ایسا نہیں کرتا اسے پچھتانا پڑتا ہے
 
- - - - - - - - - - - - - - - - - - - - 
 ( شاعر : نامعلوم  )

۔ ۔ ۔ ۔ ۔میں اپنی اچھی عادت کیوں چھوڑ دوں؟

دریا کے کنارے وضو کیلئے بیٹھ کر انہوں نے دریا کی طرف پانی کیلئے ہاتھ بڑھایا تو حضرت خواجہ خواجگان حضرت گیسودراز رحمة اللہ علیہ نے دیکھا ایک بچھو دریا کے بہاؤ سے باہر نکلنے کی کوشش کررہا ہے مگر دریا کا تیز بہاؤاس کو کامیاب نہیں ہونے دیتا‘ ان کے دل میں خیال آیا یہ بچھو اللہ کی مخلوق ہے مجھے اس کی مدد کرنی چاہیے۔
یہ سوچ کر انہوں نے بچھو کو پانی سے نکالنے کیلئے پانی میں ہاتھ ڈالا‘ بچھو ہاتھ میں اٹھا کر جیسے ہی باہر نکالنا چاہا وہ تو بچھو تھا‘ اس نے فوراً ہاتھ میں ڈنک مارا‘ ڈنک مارنے سے تکلیف ہوئی اور بچھو ہاتھ سے چھوٹ گیا‘ خواجہؒ نے ہاتھ کو دبایا ڈنک نکالنے کی کوشش کی اور پھر وضو کیلئے ہاتھ بڑھایا تو انہوں نے دیکھا وہ بچھو الٹے پلٹے لے کر پھر دریا سے نکلنے کی کوشش کررہا ہے۔ خواجہؒ نے اپنا فرض سمجھ کر پھر اس کو نکالنے کیلئے ہاتھ بڑھایا جیسے ہی بچھو کو ہاتھ میں اٹھایا اس نے ڈنک مارا بچھو ہاتھ سے چھوٹ گیا دوسری بار پہلے سے بھی زیادہ تکلیف دی۔ کچھ دیر کے بعد پھر وضو کیلئے ہاتھ بڑھایا اور بچھو کو پھر اسی حالت میںپایا اور پھر ازراہ رحمت نکالنے کیلئے ہاتھ میں اٹھایا‘ بچھو نے تیسری بار بھی ڈنک مار دیا اور چھوٹ کر دریا میں گرگیا۔
ایک نوجوان دور بیٹھا یہ تماشہ دیکھ رہا تھا اس سے رہا نہ گیا اور وہ خواجہ گیسو دراز رحمة اللہ علیہ کے پاس آیا اور بولا آپ مجنون ہیں یا دیوانے؟ جواب دیا آپ کو کیوں غم ہے؟ نوجوان بولا یہ بچھو بار بار آپ کے ہاتھ میں ڈنک مار رہا ہے اور آپ بار بار اس کو دریا سے نکالنے کی کوشش کررہے ہیں۔ خواجہ گیسودراز رحمة اللہ علیہ نے جواب دیا‘ بیٹا تم ٹھیک ہی کہتے ہو مگر مجھے یہ خیال آرہا ہے کہ ۔ ۔ ۔ ۔  یہ بچھو ہے‘ اللہ نے اس کی فطرت اورسرشت میں ڈنک مارنا رکھا ہے میں نبی رحمة اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کا غلام ہوں‘ میری فطرت میں اللہ کی مخلوق کی خدمت اور مدد کرنا ہے‘ مجھے یہ خیال آرہا ہے کہ جب یہ اپنی بری عادت نہیں چھوڑ رہا ہے تو میں اپنی اچھی عادت کیوں چھوڑ دوں؟

نبی ؑ کا لباس ۔ ۔ ۔


 حال کی بقر عید گاؤں میں گذری – ایک لمبے عرصے کے بعد   دوست اور عزیز و اقارب سے ملاقاتیں ہوئیں – ایک عجب سا احساس ہوتا ہے جب  بڑی مدت کے بعد اپنے عزیز واقارب  اور دوست و احباب کا ملاپ ہوتا ہے ' جو ناقابل بیاں ہے- ان ہی دنوں میں ایک دوست کے ہمراہ چہل قدمی کے دوران  ہم دونوں ایک دوسرے سے اپنے خیالات شیئر کر رہے تھے کہ  اچانک میرے دوست نے  ایک  اعتراض کے بارے میں بحث کی  جو کہ اس سے ایک جان پہچان والے شخص نے ( جن کا نام لینا مناسب نہ ہوگا ) کیا تھا  "   کہ ہمارے نبی  صل اللہ علیہ و سلم    کی ولادت  اگر یورپ  میں  ہوتی تو کیا وہ ( یورپی تہذیب  کے مطابق) پینٹ شرٹ اور سوٹ بوٹ کو نہ استعمال کرتے اور آیا یہ کہ  کیا وہی لباس  سنت نہ کہلاتا ؟؟؟ "

اب مجھ سا جاہل شخص تو اس کا جواب کیا دیتا ۔ بس علماء اکرام سے سنی سنائی  کچھ باتیں ' جو اس عنوان کے تحت مجھے یاد تھیں وہی اس کے سامنے بیان کی – اب تھوڑا سا وقت فرصت کا ہے اس لئے خیا ل آیا کہ تھوڑا س بارے میں کچھ لکھ ہی دہ  ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میرے بات ۔

ہائے ! میرے عزیز  - بات یہ ہے کہ جس کو جس سے جتنا تعلق ہوتا ہے  ' اس کو اس کی اداؤں سے اتنی ہی محبت ہوتی ہے ۔  دنیا کی ہی بات لیجئے ۔ کو جس کا فین ہوتا ہے بس اس کا حال چال' اس کی چال چلن' اس کا اسٹائل  ویسا  بن جاتا ہے جسے وہ پسند کرتا ہے ۔  کوئی  شاہ رخ کو عزیز رکھتا ہے تو وہ اس کی ا داؤں کا دیوانہ ہو جاتا ہے ' کوئی سلمان  کو پسند کرتا ہے تو اس کی اسٹائیل کو اپنا  نصب العین  بنا لیتا ہے – وہ خود کو  اپنے محبوب کے اسٹائیل میں ڈھالنے کی کوشش کرتا ہے ۔  کالج میں میرا ایک دوست جو اب  بھی نئی ممبئی میں مقیم ہے' اسے  شاہ رخ  خان سے لگاؤ تھا۔ بس  ۔۔۔۔ اب جس  طرح کی ہیر اسٹائیل شاہ رخ کی ' اسی طرز  پر بال وہ بھی سنوارے' جس طرح کے کپڑے شاہ رخ پسند کرے ، اس کے کپڑے بھی اسی سے ملتے جلتے' جس طرح  کا چشمہ شاہ رخ کا' اسی طرح کا وہ بھی خریدے' غرض یہ کہ ہر وہ چیز جو شاہ رخ  کرے ' یہ بندہ  اس کی ہر ادا کی نقل کرے ۔ اب بتاؤ کہ ایک بے وقوف کی نقل کرنے والے کی تو ہم واہ واہی کریں اور اس  بنی ؑ  کی نقل کرنے  اور اس کی سنتوں پر عمل کرنے ' اور اس کی زندگی کو اپنانے  ہم  تنقیدوں اور اعراضات کی بوچھار کریں  ؟ ؟ ؟  جس کو رب کائنات نے سارے عالم کے لئے نمونہ یا ہیرو  بنا کر بھیجا ہے  '

میرے دوست ! اصل بات یہ کہ ۔ ۔ ۔
  •   ہم نے اس نبیؑ  سے محبت ہی نہ کی۔
  • ہم نے اس کو اپنا ہی  نہ سمجھا۔
  •  ہم نے اس کو دل میں جگہ ہی نہ دی۔
  • ہم نے اس کو دل میں ہی نہ بسایا۔
  •  ہم نے اس کو پہچانا  ہی نہیں۔  ۔ ۔

لوگ تو یہ کہتے ہیں کہ ہمارے اس سے  محبت کے دعوے تو صرف زبانی ہیں' مگر مجھے تو یہ ڈر ہے کہ ہمارے یہ دعوے زبانی بھی ہیں یا نہیں ۔

آخر میں یہ کہوں گا کہ ہاں  ۔ ۔ ۔   میرا نبیؑ جس لباس کو پسند کرتا وہی ہماری پسند ہوتی  ۔ پھر چاہے وہ کرتا  پاجامہ  ہو یا سوٹ اور کوٹ ۔  

علامہ اقبال رح نے بھی کیا خوب فرمایا تھا  ۔ ۔ ۔

بھجی عشق کی آگ' اندھیر ہے 
مسلمان نہیں' خاک کا ڈھیر ہے

شکوہ خیال سومیشوری ۔ ۔ ۔

اے خدا دنیا میں کیا تجھ کو نہ میری یاد ہے
یاد ہے پھر زندگی کیوں کر میری ناشاد ہے

کیا ہوئی مجھسے خطا جسکی وجہ میرے خدا
مجھ پہ ہوں لاکھوں ستم اور سمجھوں نہ بیداد ہے

ذندگی بخشی تونے یارب مجھے یوں زندگی
جس کے باعث آج تک میرا نہیں دل شاد ہے

زندہ رہوں یا کہ مروں تو ہی بتا دے کیا کروں 
میرے مولا سر پہ میرے غم کی گھٹا آباد ہے

کوئی نہیںسنتا یہاں تیرے بنا میرے خدا
سارا جہاں میرے لئے اب بن گیا جلاد ہے

کیا تجھے احوال اپنی زندگی کا میں کہوں ؟ ؟ ؟
سب تجھے معلوم کیوں ناشاد ہے برباد ہے

خیال کو گرداب الم سے بچا دینا ابھی
ایخدا تجھ سے  یہی ہر دم میرے فریاد ہے -

بقلم : خیال حسن سومیشوری : اتوار - 13 فروری سنہ 1955 

ازدواجی محبت کے لیے آزمودہ عمل ...

...............................غالباً 1992ءمیں میری تبدیلی پشاور ہوگئی‘ گھر سے دور جاکر پریشان رہتا۔ دفترمیں میرے ساتھی بڑے ہمدرد قسم کے تھے ہر مسئلہ میں بڑا تعاون کرتے۔ میں برانچ کا انچارج تھا۔ میرے ہم رینک روحانی علوم کے ماہر سمجھے جاتے تھے۔ ان کو بہت شوق تھا۔ دوسرے ایک ساتھی کو حکمت کا بڑا شوق تھا۔ احقر کو ہر علم حاصل کرنے کا شوق سوار تھا جو اپنے لیے یا مخلوق خدا کی بہتری کیلئے ہو۔ سرکاری کام سے فراغت کے وقت ہم چائے پیتے اور گپ شپ لگاتے۔ میرے دوست کلام الٰہی کی برکات کی باتیں اور جڑی بوٹیوں کے فوائد کا ذکر کرتے رہتے۔ جو میری سمجھ میں آتا بغیر بخل کے بیان کردیتا۔ وہ بڑے متاثر ہوتے۔ ہمارے دوست نے روحانی اعمال بتائے اپنے مشاہدے پیش کیے۔ میں سنتا رہتا۔ بہت محنت طلب اور پابندیوں کا ذکر تھا اس لیے نہ میں نے لکھا اور نہ عمل کیا۔ ان کا ایک عمل جو بہت ہی آسان تھا آج بھی مجھے اچھی طرح یاد ہے۔ وہ جب عمل کا طریقہ بتارہے تھے ہمارا ایک ساتھی بڑے غور سے سن رہا تھا۔ اس نے اسی دن عمل شروع کردیا۔ چند دن بعد کہنے لگا کہ سوفیصد کامیابی ہوئی اور میں شادی کرنے والا ہوں۔ اس کے بعد کئی بھائیوں نے آزمایا اور خوشگوار گھریلو زندگی گزار رہے ہیں۔ وہ عمل یہ ہے:۔

عمل: ایک سفید کاغذ پر خوشخط اَللّٰہُ الصَّمَد لکھ کر کمرے کی دیوار پر لٹکا دیں جہاں آپ کی نظر پڑتی رہے۔ دن میں جب بھی فارغ ہوں اس اسم پر نظر جمالیں اور اپنے مقصد کا تصور رکھیں۔ روزانہ ایک بار یا دو بار دس پندرہ منٹ مشق کریں۔ دس دن کے اندر اندر مراد پوری ہوگی۔ کئی دوستوں نے آزمایا مجرب پایا۔ ویران گھر آباد ہوگئے‘ احقر نہ آزما سکا‘ نہ ضرورت تھی نہ مناسب سمجھا۔ اللہ کی کلام اور اسم الٰہی سے ناجائز کام کرنے والوں کا انجام دنیا اور آخرت میں ذلت اور رسوائی ہوتی ہے جس کا کئی دفعہ تجربہ ہوا۔ میں نے اپنے محسن حکیم صاحب کے فرمان کے مطابق سینہ کا راز لکھ دیا ہے جائز کام اور میاں بیوی کی محبت کیلئے عمل کریں۔ ناجائز سے پرہیز ضروری ہے ورنہ نقصان ہوگا۔
-----------------------------------------------------------------------------------------------
بشکریہ : ماہنامہ عبقری  /  اسداللہ شاہ صاحب
نوٹ: ناجائز محبت کیلئے اس عمل کی تاثیر باندھ دی ہے۔ جائز کیلئے اجازت بندہ کی طرف سے بھی ہے۔ ناجائز کرکے دیکھیں فائدہ نہ ہوگا۔ (ایڈیٹر)


موت ہو تو ایسی

موت ایک تلخ حقیقت ہے ہر وہ شخص جو ماں کے پیٹ سے آیا ہے اس کو زمین کے پیٹ میں ضرور جانا ہے اس کے باوجود بھی انسان موت سے ڈرتا اور اس سے بچاؤ کی تدابیر اختیار کرتاہے۔کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جواس دارِ فانی سے جب کوچ کرتے ہیں تو اپنے پیچھے والوں کے لیے ایک مثال بن جاتے ہیں اور بعض بد بخت ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنے بعد والے لوگوں کے لیے عبرت بن جاتے ہیں ۔یہی فرق ہے” مثال“ اور ”عبرت “میں کہ برے لوگوں سے عبرت حاصل کی جاتی ہے جبکہ اچھے لوگوں کی مثالیں سامنے رکھ کر ان سے سبق حاصل کیا جاتا ہے۔ ایک ایسا ہی سبق آموز واقعہ آپ کے سامنے ہے کہ جو ہمیں اپنی زندگیاں تبدیل کرنے پر اکسا رہا ہے ۔یہ واقعہ آج سے کچھ عرصہ قبل سعودی عرب کے شہر ریاض میں پیش آیا ۔ واقعہ کیا تھا؟ کس کے ساتھ پیش آیا ؟کیسے پیش آیا ؟ان سب کو جاننے کے لیے ہم بھائی محمد سویدکے پاس چلتے ہیں اور انہی کی زبانی یہ واقعہ سنتے ہیں ۔

میرا نام محمد سوید ہے اور ”ریاض“ کے محلہ ”شارع فوزان“ میں رہائش پذیر ہوں۔ میری والدہ محترمہ بہت پارسا اور پاکباز خاتون تھیں میں نے ساری زندگی ان کی زبان سے غیبت یا گالی نہیں سنی۔ نماز کی بہت پابند تھیں اور رات کا اکثر حصہ مصلیٰ پر گزارتی تھیں ۔اپنے ملنے جلنے والوں کو بھی نماز کی تاکید کرتی رہتی تھیں۔

والدہ محترمہ کی عمر تقریباً 80برس تھی اور کچھ عرصہ سے کافی علیل تھیں بیماری کے باوجود ان کے دینی معمولات خصوصاً نماز میں کوئی خلل نہیں پڑا۔پہلے کی طرح تہجد کے لیے اٹھتیں اور سردی کے موسم میں بھی خوب اچھے طریقے سے وضو کرتیں اور نماز ادا کرنے کے لیے کھڑی ہوجاتیں ۔ والدہ محترمہ اکثر کہا کرتی تھیں کہ نماز کے دوران سب سے زیادہ لطف سجدے میں آتا ہے، جب میں اپنی پیشانی اپنے مالک کے سامنے رکھ کر اسے پکارتی ہوں تو دل کی جو کیفیت ہوتی ہے اور جوسکون ملتا ہے میں اس کو بیان نہیں کرسکتی۔

ذو الحجہ کا مہینہ شروع ہوچکا تھا جمعہ کے دن کا سورج طلوع ہونے میں ابھی کافی سارا وقت باقی تھا والدہ محترمہ حسب سابق تہجد کے لیے اٹھیں ، وضو کیا نماز تہجد ادا فرمائی اور مصلیٰ پر بیٹھ کر دو جہاں کے مالک سے راز و نیاز کی باتیں کرنے لگیں۔ جب سے والدہ محترمہ کی طبیعت ناساز رہنے لگی تھی ، میرا معمول تھا کہ میں ان کے کمرے میں سو تا تھا تاکہ رات کو کسی بھی وقت انہیں کوئی ضرورت ہو تو فوراًان کی خدمت کرسکوں۔

اس رات بھی میں ان کے کمرے میں ہی محوِ خواب تھا کہ والدہ کے بلانے پر میری آنکھ کھل گئی ۔ کیا دیکھتا ہوں کہ والدہ مصلے پر سجدہ کی حالت میں ہیں اور کہہ رہی ہیں بیٹا میری زبان کے سوا میرا باقی تمام بدن بے حس و حرکت ہو چکا ہے ۔ میں نے بڑے آرام سے والدہ کو بازوؤں میں اٹھاکربستر پر پہنچادیا اور ان کو لٹانے کی کوشش کی مگر ان کا جسم تو گویاسجدہ کی حالت میں ہی منجمد ہو چکا تھا۔ میں نے ان کی خدمت میں عرض کیا کہ آپ کو ہسپتال لے چلتا ہوں۔ والدہ فرمانے لگیں؛ نہیں بیٹا! ہسپتال لے جانے کے بجائے مجھے میری نماز کی جگہ پر واپس پہنچادو۔

مگر میں ضد کرکے ان کو ہسپتال لے گیا اللہ کی قدرت دیکھیے کہ والدہ صاحبہ کا بدن بدستور سجدہ ہی کی شکل میں تھا اور مسلسل ان کی زبان سے ذکرکی آواز آ رہی تھی۔ڈاکٹرز بھی ان کی اس کیفیت کی وجہ معلوم کرنے میں ناکام ہوچکے تھے ۔ ادھر والدہ صاحبہ بار بار مجھ سے فرما رہی تھیں کہ بیٹا !مجھے واپس گھرلے چلو اور مجھے میری نماز کی جگہ پر پہنچا دو۔

میں چونکہ والدہ محترمہ کے شوقِ سجدہ سے اچھی طرح واقف تھا ان کی اس کیفیت اور ڈاکٹروں کی بے بسی نے میرے دل میں بڑی عجیب سی کیفیت پیدا کر رکھی تھی۔ میں نے والدہ صاحبہ کو اٹھایا اور گھر آکر انہیں ان کی جائے نماز پراسی حالت میں لٹا دیا جس حالت میں وہ پہلے تھیں یعنی سجدہ ہی کی حالت میں ۔

والدہ کی زبان سے زور زور سے اللہ اللہ کی صدائیں سنی جارہی تھیں اور تھوڑی تھوڑی دیر کے بعدقرآن کریم کے الفاظ بھی زبان سے ادا ہورہے تھے ۔ عزیز رشتہ دار وں کی بڑی تعداد جمع ہو چکی تھی اور سب کے سب اشکبار تھے ۔ والدہ ہماری طرف متوجہ ہوئیں اور فرمانے لگیں اٹھو!اٹھو! سب لوگ وضو کرکے نمازادا کرو۔ طلوع فجر میں چند منٹ باقی تھے کہ والدہ محترمہ نے تلاوت قرآن کرتے ہوئے آخری سانس لی اور سجدے کی حالت میں ہی اپنے پروردگار کی بارگاہ میں جا پہنچیں ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون ۔

والدہ کی وفات کے بعد ہم نے ان کے جسم کو سیدھا کرنے کی بہت کوشش کی مگر ان کا مبارک بدن اسی حالت میں رہا جس کے بارے میں وہ کہا کرتی تھیں کہ بیٹا سجدے میں بہت لطف آتاہے۔ ان کو کروٹ کے بل لٹایا گیا تب بھی ان کے بازو اور ٹانگیں اسی حالت میں رہیں جس طرح سجدہ کی حالت میں ہوتی ہیں۔ والدہ محترمہ کے بدن کو اسی حالت میں غسل دیا گیا اور اسی حالت میں ان کو قبرمیں دفن کیا گیا ۔ دلوں کی دنیا کو بدل دینے والے اس واقعہ نے بہت سی بے نماز خواتین کو پکا نمازی بنا دیا اور کئی مرد حضرات نے جب یہ واقعہ سنا تو رورو کر انہوں نے توبہ کی کہ ہم آئندہ اللہ کی نافرمانی نہیں کریں گے ۔

اتنی پیاری اور باکمال ماں کی ممتا جب مجھ سے بچھڑی تو مت پوچھیے کہ مجھے کس قدر صدمہ پہنچا۔ اس بات کو صرف وہی لوگ محسوس کرسکتے ہیں جواپنے والدین کو قبر کی دہلیز تک چھوڑ کر آئے ہوں ۔اس کے باوجود مجھے ایک گونہ حوصلہ بھی ملتا ہے جب میں ان کی مبارک موت کو دیکھتا ہوں کہ اللہ تعالی اپنے پیاروں سے کتنا عجیب معاملہ کرتے ہیں۔سچ ہے کہ جو اللہ کا ہوجاتا ہے تو پھر اللہ بھی اس کا ہوجاتا ہے موت نے تو ہر حال آنا ہے لیکن میں اکثر کہہ اٹھتاہوں کہ ....” موت ہوتو ایسی ہو“



بشکریہ :www.islahunnisa.com

سورج کی مدد سے صحیح سمت قبلہ معلوم کرنے کا طریقہ

سورج کی مدد سے صحیح سمت قبلہ معلوم کرنے کا طریقہ . . . . 
 
بسم اللہ الرحمن الرحیم

السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
 
ہر سال میں 2 تاریخیں ایسی ہیں جس میں سورج کی مدد سے قبلہ کی صحیح سمت معلوم کی جاتی ہے۔ سورج ان دو دنوں28مئی اور 16جولائی میں خانہ کعبہ کے بالکل اوپرعمودی زاوئیے پرہوتا ہے اور ہر مقام ہر ملک اور ہر جگہ سے جہاں دن ہو ہر چیز کا سایہ مکہ مکرمہ کی جانب ہوتا ہے۔ خواہ وہ مقام مکہ مکرمہ سے مشرق میں ہو یا مغرب میں شمال میں یا جنوب میں ہو۔اگر آپ ان مذکورہ تاریخوں میں کسی جگہ سمت قبلہ معلوم کرنا چاہیں تو مکہ مکرمہ کے نصف النہار کے وقت(خواہ آپ کے ملک میں کچھ بھی وقت ہو)
طریقہ
کسی کھلی جگہ دھوپ میں ایک بانس سیدھا کھڑا کردیں۔ اس بانس کی سیدھ میں جتنی لمبی لائن یا خط مناسب سمجھیں کھینچ لیں یہ خط قبلہ کا رخ ہے۔ اس لائن یا خط کے مطابق مسجد کی وہ دیوار بنے گی جو پاکستان میں مساجد میں مشرق سے مغرب کی جانب ہوتی ہےاور اس لائن یا خط سے زاوئیہ قائمہ پر مسجد کے سامنے کی دیوار (دیوار محراب مسجد) اور صفیں بنائی جائینگی۔
یہ عمل پاکستان میں 28مئی کو پرانے وقت کے مطابق 2بج کر 18منٹ پر اور 16جولائی کو 2 بج کر 26منٹ پر کرنا چاہئے۔ یہ عمل ان تاریخوں سے ایک دن پہلے یا بعد میں کیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں ہے کیونکہ اس تقدیم یا تا خیر سے زمین پر قائم کردہ خط پر نہایت معمولی فرق پڑتا ہے مگر مناسب یہی ہے کہ تاریخ اور وقت کا اہتمام کیا جائے۔

اگر آپ ان مذکورہ تاریخوں میں کسی بھی جگہ سے سمت قبلہ معلوم کرنا چاہیں تو مکہ مکرمہ کے نصف النہار کے وقت(خواہ آپ کے ملک میں کچھ بھی وقت ہو)۔  ہندوستان میں 28 مئی کو 2 بج کر 48 منٹ پر اور 16 جولائی کو 2 بج کر 56 منٹ پر یہ عمل کیا جائے ...

بشکریہ : اسد اللہ شاہ صاحب




جسٹس مفتی تقی عثمانی کی زندگی کے اوراق زیست


بشکریہ : محترم جناب اعجاز الحسینی صاحب ' روزنامہ امت کراچی

<<< پچھلا صفحہ اگلا صفحہ >>>

تعمیر نیوز

اس بلاگ کی مذید تحاریر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

Powered by Blogger.