March 2016

واٹس ایپ، دار العلوم دیوبند اور نصاب تعلیم ✒ راہی حجازی

واٹس ایپ، دار العلوم دیوبند اور نصاب تعلیم

راہی حجازی


آجکل پورے زور و شور کے ساتھ مدارس کے نصاب پر بالعموم، اور دار العلوم دیوبند کے نصاب پر بالخصوص،گرما گرم بیانات اور تبصرے جاری ہیں، تاثر یہ دیا جارہا ہے کہ مسلمانوں کی ہزار سالہ زبوں حالی کے پیچھے انہی مدارس کے نصاب کا ہاتھ ہے،اور یہ تاثر دینے والے کوئی غیر نہیں اپنے ہی ہیں،ان خیر اندیشان و بہی خوانِ ملت اسلامیہ سے یہ سوال کرنا جائز بنتا ہے کہ کیا نونہالانِ توحید اور مسلمان بچے صرف مدرسوں میں پڑھتے ہیں؟؟ مدرسوں میں تو زیادہ سے زیادہ پانچ فیصد پڑھتے ہونگے،باقی جتنے بھی فیصد بچتے ہیں وہ سارے اسکولوں،کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ہیں، اب اِسے کہاں کی دانشمندی و ہوش مندی قرار دیا جائے کہ اسی نوے فیصد کو چھوڑ چھاڑ کر دو یا پانچ فیصد کے ہی بہی خواہ و ہمدرد بنے ہوئے ہیں۔ ملت اسلامیہ کا اصل سرمایہ تو اسکولوں،کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ہے،براہ کرم انکو بھی بنائیے جامع بین العلوم الشرعیة و العصریة۔ آپ یہ تو چاہتے ہیں کہ مدارس سے جہاں ایک طرف علما و صلحا و ارباب افتاء نکلیں، وہیں دوسری طرف سائنسدانوں و اطباء و انجینئرز بھی نکلیں۔ اچھی بات ہے،اس میں کوئی قباحت نہیں، مگر اس زاویے کو کبھی کبھار ایک سو اسی درجے(متوازی سمت )پر بھی لے جایا کریں،لے جاکر کبھی تو ایک اجلاس اس عنوان پر بھی بلائیے کہ دینی و دنیاوی علوم کی اسلام میں کوئی تقسیم نہیں کی گئی،پس جب تقسیم نہیں ہے تو اے اسکولوں،کالجوں،یونیورسٹیوں کے سیاہ و سفید کے مالکو!! تمہارے اداروں سے صرف دنیاوی علوم کے ماہرین ہی کیوں نکل رہے ہیں؟؟محدثین و مفسرین و فقہاء کی کھیپ ان سے نکلتی ہوئی ہمیں نظر کیوں نہیں آتی جبکہ علوم کے درمیان تفریق و تقسیم نہ ہونے کی گردان بھی آپ اہل دانش ہی کرتے ہیں،یہ تفریق نہ ہونے کا پہاڑا بھی روزانہ کی بنیادوں پر تمہارے ہی اداروں میں رٹایا اور حرز جان بنایا جاتا ہے۔ معلوم یہ ہوا کہ تمہارے اداروں کے نصاب میں بھاری گڑبڑ جھالا ہے،فرسودہ نظام تعلیم ہے۔ تبھی یہ الخوارزمی،ابن اسحاق کندی اور ابن فرناس ایسے نابغے،عباقرہ اور یگانہ روزگار افراد پیدا نہیں کرپا رہا۔ وقت آگیا ہے کہ اس نصاب میں بڑی تبدیلی کی جائے اور اسے جامع بین العلوم الشرعیة و العصریة بنایا جائے،سائنس و ٹیکنالوجی کے ساتھ عربی زبان اور قرآن و حدیث و فقہ اپنے تمام متعلقات کے ساتھ لازمی مضمون بناکر،قدیم و جدید کے حسین امتزاج کا حامل نصاب تعلیم ان اداروں میں نافذ کیا جائے تاکہ ان کالجوں اور یونیورسٹیوں سے جہاں ایک طرف سائنسدان و اطباء و انجینئرز نکلیں،وہیں دوسری طرف ماہرین شریعت: علماء و فقہاء و اصحاب افتاء بھی نکلیں، جن سے اگر کوئی سورہ اخلاص سنانے کو کہے تو وہ اس سوال کو ذاتی زندگی میں مداخلت کا نام دیکر ہوا میں نہ اڑائیں بلکہ آگے بڑھ کر سائل سے کہیں کہ آپکو میں سورہ اخلاص ضرور سناؤں گا، مگر وہ تو بہت چھوٹی سورت ہے، تشنگی بجائے ختم ہونے کے اور بڑھ جائے گی، میرا من کرتا ہے کہ سورہ اخلاص سے پہلے آپکو سورہ بقرہ سناؤں،بس اتنا کہے اور شروع ہوجائے بسم اللہ الرحمن الرحیم،الم،ذالک الکتاب لاریب فیه،ھدی للمتقین .......... فاصرنا علی القوم الکافرین (ترتیل میں اگر سنائیں تو اور بھی اچھا رہے گا)سائل بس کرنے کو کہے تو بھی اسکی نہ سنے اپنی ہی سناتے رہے،فجر تک اسکو کھڑا رکھے،تاکہ پھر ایسے سوال کی کسی کو جرأت نہ ہو۔۔۔۔ حضرات خیر اندیشان و بہی خوان!!کبھی اس دوسرے زاویئے کیلئے بھی تو اجلاس بلائیے، اجلاس نہ بلا سکتے ہوں تو کبھی ان کالجوں اور یونیورسٹیوں میں تقریر کرکے دیکھئے،پھر دیکھئے کیسے آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہوتا ہے،دوسروں پر جمود و تعطل کا الزام لگانے والوں کو بذات خود اس جمود کی دلدل میں گلے گلے دھنسے دیکھیے گا۔اور اگر آپکو وہاں کچھ مجبوریاں اور پا شکستگیاں نظر آئیں تو براہ کرم یہاں بھی مجبوریاں دیکھ لیں،یہاں مجبوریاں دیکھنے کیلئے ناسا کی کسی طاقتور ترین دوربین کی ضرورت نہیں ہے،بس یہ جو سر اوپر کو الل رہا ہے اسکو نیچا کرکے ایک نظر پاؤں کی طرف ڈال لیں
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

طور کی مٹی سے تخلیقِ ید بیضا کر


یہ خبر آپ نے یقینا پڑھی ہوگی اور ریکارڈ پر یہ موجود بھی ہے کہ واٹس ایپ کو معرض وجود پر لانے والے جین کوم اور ان کے ساتھی برائن ایکٹن نے واٹس ایپ کو تشکیل دئے جانے سے پہلے فیس بک میں ملازمت کیلئے درخواست گذاری تھی جو شرف قبولیت نہ پاسکی اور یوں انکو ملازمت نہ مل سکی،بعد ازاں انہوں نے دیار عشق میں اپنا مقام،نیا زمانہ اور نئے صبح و شام پیدا کرنے کیلئے اپنی تمام صلاحتیوں کو بروئے کار لاکر نجی بنیادوں پر واٹس ایپ تشکیل دیا،پھر اسکو پروموٹ کیا،مشتہر کیا، لوگوں کے درمیان یہ ایپلیکیشن پہنچی تو انکے دلوں میں گھر کر گئی،آج صورت حال یہ ہے کہ واٹس ایپ کی ہم جنس و ہم مشرب،کہیں زیادہ فیچرز اور خصوصیات و مزایا کے ساتھ، بیسیوں ایپلیکیشنز ایپ اسٹور پر موجود ہیں مگر کم فیچرز کے باوجود ہمہ گیر مقبولیت و محبوبیت کا جو کلاہِ افتخار واٹس ایپ کے سر سجا ہوا ہے وہ کسی اور کے سر کا مقدر نہ بن سکا، ایک دن وہ بھی آیا جب دنیا نے دیکھا کہ فیس بک
ــــــ جس نے نوکری بھی نہیں دی تھی ــــــ خود چل کر واٹس ایپ کے دروازے پر آیا اور اس شرط کے ساتھ انیس ارب ڈالر کی بڑی ڈیل میں اسے خریدا کہ واٹس ایپ کے ملازمین کو بھی فیس بک اپنے یہاں نوکری دینے کا پابند ہوگا۔ یہ خبر نما واقعہ بیان کرنے کا مقصد؟مقصد یہ ہے کہ چلئے ارباب مدارس اور دارالعلوم آپکی بات نہیں مان رہے، آپکے مطالبہ کو در خور اعتنا نہیں سمجھ رہے، نہیں مان رہے تو نہ مانیں، منوانے اور سمجھانے کیلئے اب آپکو اجلاس بلانے کی ضرورت نہیں،بانیانِ واٹس ایپ نے نوکری نہ ملنے کے بعد پریس کانفرنسیں بلا بلاکر رونے نہیں ڈالے تھے کہ دیکھو دنیا والو دیکھو! کیسا ظلم عظیم ہمارے ساتھ کیا جارہا ہے، کیسا غضب ٹیلینٹ اور صلاحیت ضائع کی جارہی ہے۔ نہیں نہیں،کچھ بھی نہیں۔ بجائے ان منفی باتوں پر اپنی توانائیاں خرچ کرنے کے،انہوں نے نجی بنیادوں پر پوری طرح یکسو ہوکر اپنی صلاحیتوں کو منوانے کیلئے اولا ذہن میں ایک ایپ کا خاکہ ترتیب دیا، پھر اسے کینوس پر اتارنے میں ہمہ تن مصروف ہوگئے،اترگیا تو اس میں رنگ بھرے،پھر مارکیٹ میں لائے، اور اسکو وہ رفعت و عروج عطا کیا کہ بانیان واٹس ایپ نے آم تو بیچے ہی،گٹھلیاں بھی آم کے دام بیچ دئے،انیس ارب ڈالر بھی لئے،ساتھ میں ان سے نوکری پر بھی عہد و پیمان و ایگریمنٹ لے لیا۔ آپ بھی مثبت کام کیجئے، بجائے اجلاس بلانے یا قریہ قریہ، شہر شہر اور کو بہ کو نصابِ مدارس میں ترمیم و تبدیلی پر تقاریر کرنے اور گلا بٹھانے کے آپ کے ذہن میں جو نصابی خاکہ ہے اسے پیکر عطا کیجئے،اُس نصاب کا حامل کوئی ادارہ قائم کیجئے،اپنی توانائیاں اس پر صرف کیجئے، دن رات ایک کرنا چاہتے ہوں تو دن رات بھی ایک کیجئے، اپنی تمام ممکنہ مساعی کو مجتمع فرما کر اُس ادارے کی اور اسکے نصاب کی افادیت قوم پر ثابت کردیجئے اور بس،اگر آپ نے افادیت ثابت کردی تو راہی حجازی کو لکھ کر دینے کی ضرورت نہیں ہے کہ آپ بھی، آپ کا ادارہ بھی، آپ کا نصاب بھی اُسی طرح ہاتھوں ہاتھ لیا جائے گا جس طرح بانیان واٹس ایپ اور واٹس ایپ ہاتھوں ہاتھ لئے گئے تھے۔جادو وہی جو سر چڑھ کر بولے۔ اُس وقت آپکو لوگوں کے پاس جاکر اور تقاریر کر کے کچھ کہنے کی ضرورت نہ ہوگی، قوم تو قوم خود مخالفین چل کر آنے کو اور آپکے ادارے کی کنڈی کھٹاکھٹانے کو اپنی سعادت سمجھیں گے

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

کیا ٹھوک بجا کے تم نے حکم لگایا ہے؟؟؟


حضرات اہل علم یہ بات جانتے ہی ہونگے کہ مدارس ایک خاص ضرورت و مقصد کے تحت قائم کئے گئے تھے اور کئے جاتے ہیں۔ آئیے اس خاص مقصد کو تازہ کر لیتے ہیں:



‌‌"‌‌بانی دارالعلوم دیوبند حضرت مولانا قاسم نانوتوی رحمہ اللہ نے دارالعلوم کی بنیاد ڈالتے ہوئے زبان حال سے یہ صدا بلند کی کہ ہماری تعلیم کا مقصد ایسے نوجوان تیار کرنا ہے جو رنگ ونسل کے اعتبار سے ہندی وسندھی، ایرانی وافغانی، فراسانی وترکستانی ہو لیکن روح کے اعتبار سے اسلامی ہوں ‘‘ (مثالی شخصیات ومقدمہ سوانح قاسمی‌‌"

اور یہ ایک دوسرا اقتباس:

ہندوستان کی سابق ریاست حیدرآباد دکن کے تاجدار میر عثمان علی خاں معروف بہ ‌‌‌‌"‌‌نظام دکن" نے حضرت مولانا حافظ احمد صاحبؒ سابق مہتمم دارالعلوم دیوبند سے یہ خواہش کی تھی کہ اگر دارالعلوم دیوبند کے فارغ التحصیل علماء ہرسال سارے کے سارے ریاست حیدرآباد دکن کو بھیج دیے جائیں تو انھیں اعلیٰ قسم کی ملازمتیں دی جائیں گی، حضرت مہتمم حافظ احمد صاحبؒ نے یہ مسئلہ اُس وقت کے سرپرستِ دارالعلوم دیوبند حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہیؒ کے سامنے پیش کیا، حضرت گنگوہیؒ نے فرمایا: ’’بھئی! ہم طلبہ کو اچھی اور اونچی ملازمتوں کے لیے نہیں پڑھارہے ہیں ؛ بلکہ ہم اس لیے پڑھاتے ہیں کہ : مسجد اور قرآن کے مکاتب آباد رہیں اور مسلمانوں کو نمازیں اور قرآن پڑھانے والے ائمہ اور اساتذہ ملتے رہیں‘‘ (ماہ نامہ: اتحاد علماء دیوبند ص
۵۶)


سوال یہ ہے کہ مذکورہ بالا مقصد کے تحت یہ نصاب افراد تیار کررہا ہے یا نہیں؟؟ اگر کر رہا ہے تو پھر نصاب سے چھیڑ چھاڑ کیوں؟ اس نصاب نے پہلے بھی ضرورت کی تکمیل کی تھی آگے بھی ان شاء اللہ کرتا رہے گا،اور اگر مذکورہ بالا مقصد و ضرورت اب نہیں رہی ہے یا اس میں بڑی تبدیلی کی ضرورت آپ محسوس کرتے ہیں تو آپکو بالترتیب دوسرا مقصد یا بڑی تبدیلی کی ضرورت نہ صرف بالدلائل ثابت کرنی ہوگی بلکہ سامنے والے کے دلائل کا جواب بھی دینا ہوگا۔ ہم تھوڑی دیر کیلئے یہ فرض کرکے چلتے ہیں کہ آپ ثابت کرچکے ہیں،تو سوال کھڑا ہوگا کہ کیا اس دوسرے مقصد اور بڑی تبدیلی کا تجربہ سیدھا دار العلوم دیوبند یا اس کے قبیل کے اداروں پر کیا جائے گا؟؟ کیا تجربات کی دنیا میں ایسا ہی دیکھا جاتا ہے؟ دیکھا تو یہ جاتا ہے کہ جب سائنسدان کوئی مفیدِ انسانیت نئی دوا دریافت کرتے ہیں تو اولا چوہوں، مینڈکوں، خرگوشوں اور بندروں وغیرہ پر اسکا تجربہ کرتے ہیں، پہلے ان پر دوا کی افادیت چیک کی جاتی ہے، ایک بار نہیں ہزار بار چیک کی جاتی ہے، ہزاروں بار میں مطلوبہ نتائج و اثرات ملنے کے بعد ہی انسان کا نمبر آتا ہے اور انسانوں میں بھی یورپ و امریکہ کے انسان نہیں،کسی افریقی غریب ملک کے ‌‌"‌‌بے قدر و بے حیثیت ‌‌"‌انسان۔ لیکن یہاں دیوان گانِ ترمیمِ نصاب الٹی چال چلتے نظر آتے ہیں۔ اپنی ایک ‌‌"‌‌مفید" نئی دریافت(ترمیم و تبدیلی) کا بجائے جانوروں (شہری سطح کے چھوٹے مدارس)پر تجربات کرنے کے، یک مشت و یک قدم انسانوں کے جوہری خلاصے: آئن اسٹائن و اسٹیفن ہاکنگ (دار العلوم دیوبند) ایسے بڑے دماغوں پر تجربہ کے آرزومند و متمنی نظر آتے ہیں۔ اللھم یا للعجب۔۔۔ ‌‌انسانوں پر بعد میں تجربہ کیجئے گا، پہلے اپنی دوا کی افادیت چوہوں،بندروں اور خرگوشوں پر چیک کر لیجئے،کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ پہلے مرحلے میں ہی بیدار مغز و ہوش مند انسان پر اسکا تجربہ کرنے جائیں اور تجربہ یا دوا فیل ہوجائے تو نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم کی عملی تفسیر کے جملہ حقوق اپنے نام محفوظ کرا بیٹھیں

<<< پچھلا صفحہ اگلا صفحہ >>>

تعمیر نیوز

اس بلاگ کی مذید تحاریر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

Powered by Blogger.