June 2012

گناہ اور اس کو پھیلانے سے بچو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔




مندرجہ  بالا قول / نصیحت کی تشریح  کے لئے' "قبر سے ایک ایمیل " واقعہ بہت ہی موزوں ہے۔
برائے کرم درج  ذیل لنک پر تشریف لے جائیے  ۔ ۔ ۔ ۔

قبر سے ایک ایمیل : بشکریہ محمد سلیم صاحب  



بہن عائشہـ {بلوندر کور} سے ایک ملاقات

بہن عائشہـ {بلوندر کور} سے ایک ملاقات

اسماء   :  السلام علیکم و رحمۃ اللہ و بر کا تہ‘
عائشہ  :  وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ برکاتہ‘

  سوال  :   عائشہ دیدی، اب کی مرتبہ تو آپ بہت زمانہ کے بعد آئیں، کیا بات ہے؟
 جواب  :اسماء بہن میں تو تڑپ رہی تھی، مگر حضرت صاحب سے فون ہی نہیں مل پاتا، نہ جانے کس طرح اس مرتبہ فون پر بات ہوئی، تو میں نے وقت لیا اور آگئی،

  سوال  :   اصل میں ہمارے یہاں پھلت سے ایک اردو میگزین ارمغان نکلتاہے، ابی نے مجھے حکم دیا تھا کہ آپ آنے والی ہیں، میں آپ سے اس کے لئے ایک انٹرویو لوں،
 جواب  :  ارمغان، ہاں میں ارمغان کو خوب جانتی ہوں، میں تو کچھ کچھ اردو پڑ ھنے لگی ہوں اور ارمغان بھی اٹک اٹک کر پڑھ لیتی ہوں،

 سوال  :   آپ پہلے اپنا خاندانی پریچے کرائیے؟
 جواب  : میں ضلع فیروز پور پنجاب کے ایک قصبہ کے سکھ گھرانے میں ۳؍جون ۱۹۶۵؁ء میں پیدا ہوئی، میرے پتا جی شری فتح سنگھ تھے، وہ علاقے کے پڑھے لکھے اور زمین دار لو گوں میں تھے، میرا پرانا نام بلوندر کور تھامیں نے اپنے شہر کے گرو گووند سنگھ کا لج سے گریجویشن کیا میری شادی جالندھر کے ایک پڑھے لکھے خاندان میں ہو گئی، میرے شوہر اس وقت پو لیس میں ایس او( S.O ) تھے، ان کی بہادری اور اچھی کارکردگی کی وجہ سے ان کے پر موشن ہو تے رہے اور وہ ڈی ایس پی بن گئے،میرے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے اور تینوں پڑھ رہے ہیں۔

  سوال  : آپ اپنے قبول اسلام کے بارے میں بتائیے ؟
 جواب  :میری ایک چھوٹی بہن آشا کور تھی اس کی شادی بھی میرے پتا نے ایک پولیس تھانہ انچارج سے کر دی تھی وہ بہت خوبصورت تھی اس کا شوہر اس کو بہت چاہتا تھا، شادی کے بعد وہ اکثر بیمار رہنے لگی، روز روز اس کو کچھ نہ کچھ ہوتا رہتا تھا، علاج کراتے تو کچھ ٹھیک ہوجاتی پھر بیمار ہوجاتی، اس کے شوہر نے اس کا دہلی تک علاج کرایا اور لاکھوں روپئے خرچ کئے، مگر کوئی خا ص فائدہ نہیں ہوا، مجبوراًسیانوں اور جھاڑ پھونک والوں کو دکھایا، کسی نے بتایا کہ اس پر تو اوپری اثر ہے مگر علاج کوئی نہیں کرپاتا، کسی نے بتایا کہ مالیر کوئلہ میں ایک صاحبہ ہیں وہ علاج کرتی ہیں، ان کو وہاں بھیجا گیا انھوں نے جھاڑا پھونکا، اس سے اس کو بڑی راحت ہوئی، لیکن انھوں نے آشاسے کہا جب تم کو دو چار روز کی تکلیف برداشت نہیں ہوتی تو تم دوذخ کی ہمیشہ کی تکلیف کو کیسے برداشت کرسکتی ہو ؟اس لئے اس تکلیف کی فکر کرو اور اس کا علاج یہ ہے کہ تم مسلمان ہوجائو اور اگر تم مسلمان ہوجائوگی تو مجھے امید ہے کہ تم یہاں بھی ٹھیک ہوجائوگی، پھر میں تمہیں اپنے حضرت صاحب کے پاس بھیجوں گی وہ دعا کریں گے،مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ تمھیں ضرورٹھیک کردے گا، آشا نے ان سے کہا کہ میں اپنے شوہر سے مشورہ کروں گی، انھوں نے آشاسے کہا کہ ایمان لانا اتنا ضروری ہے کہ اس میں شوہر سے اجازت کی بھی ضرورت نہیں، بلکہ اگر شوہر مخالفت کرے، بلکہ وہ اگر اس بات پر مارے یا چھوڑدے تو بھی انسان کی بھلائی اسی میں ہے کہ ایمان قبول کرلے تاکہ اپنے پیدا کرنے والے مالک کو راضی کرکے ہمیشہ کی جنت حاصل کرلے، آشانے کہا کہ پھر بھی گھر والوں سے مشورہ کرنا اور سوچنا سمجھنا تو ضروری ہے، انھوں نے کہا تم جلدی مشورہ کرکے آجائو تو میں تمھیں کلمہ پڑھا کر اپنے حضرت کے پا س بھیج دو ں گی، وہ وہاں سے بھٹنڈ ہ آئی اپنے شوہر سے کہا، مجھے بہت آرام ملا ہے مگر باجی کہتی  ہیں کہ اگر تومسلمان ہوجائے تو بالکل ٹھیک ہوجائے گی، اس کے شوہر اس سے بہت محبت کرتے تھے بولے تو کچھ بھی کرلے اور کچھ بھی بن جا، مگر تو ٹھیک ہوجائے، مجھے خوشی ہی خوشی ہے، اس نے فون پرباجی سے بات کی کہ مجھے حضرت صاحب کے یہاں جانے کا پتہ بتادیں میں ان کے پاس جاکر ہی مسلمان ہوناچاہتی ہوں، انھوں نے حضرت کا فون نمبر دیا، ۲۵؍مئی ۲۰۰۴ئ؁کو صبح صبح آشا نے حضرت صاحب (مولانا محمد کلیم صاحب )کو فون کیا آشا نے مجھے بتایا کہ میں نے حضرت صاحب سے کہا کہ میں اسلام لینے کے لئے آنا چاہتی ہوں، میرے شوہر میرے بچے اور گھر کابندہ مسلمان نہیںہوگا، بس اکیلے میں مسلما ن ہو ں گی مولانا صاحب کے معلوم کرنے پر آشا نے اس کو مالیر کوٹلہ کی باجی سے جو باتیں ہوئی تھیں بتائیں، حضرت صاحب نے آشا سے کہا تم نے ان سے ہی کلمہ کیوں نہ پڑھ لیا؟آشا نے اصرار کیا کہ مجھے کلمہ آپ ہی کے پاس پڑھنا ہے،مولانا صاحب نے کہا مجھ سے پڑھنا ہے تو ابھی فون پر پڑھ لو، آشا نے کہا نہیں، آپ کے پا س آکر ہی کلمہ پڑھوں گی، مولانا صاحب نے کہا بہن موت زندگی کا کوئی اطمینان نہیں، تم تو بیمار بھی ہو تندرست آدمی کے بھی ایک سانس کا اطمینان نہیں کہ اگلا سانس آئے گا بھی کہ نہیں، اس لئے کلمہ فون پر پڑھ لو، جب یہاں آئو گی تو دوبارہ نیا کر لینا، مولانا صاحب کے کہنے پر آشا نے کہا کہ پڑھوادیجئے مگر اصل تو میں آکر ہی پڑھوں گی، مولانا صاحب نے کہا اصل تو اسی وقت پڑھ لو نقل یہاں آکر کر لینا، وہ تیار ہوگئی مولانا صاحب نے اس کو کلمہ پڑھوایا، اس کی موٹی موٹی باتیں سمجھائیں اور کہا کہ اب تمھیں نماز یاد کرنی ہے اور کسی بھی غیر اسلامی تہوار، پوجا یا رسم سے بچنا ہے، نام معلوم کرکے مولانا صاحب نے اس سے کہا تمہارااسلامی نام آشا سے بدل کر عائشہ ہوگیا ہے، یہ ہمارے رسول ﷺکی بیوی صاحبہ کا نام بھی ہے، فون پر بات کرکے اس نے خوشی خوشی سارے گھر کو بتایا، اپنے شوہر کو بھی بتایا، میں بھی جالندھر سے اس سے ملنے آئی ہوئی تھی، مجھے بھی بتایا مجھے ذرابرا بھی لگا کہ دھرم بدل کریہ کیسے خوش ہورہی ہے،مولانا صاحب سے فون پر بات کر کے اور کلمہ پڑھ کر نہ جانے اس کو کیا مل گیا تھا، میں بار باراس کے منھ کو د یکھتی تھی، جیسے پھول کھل رہا ہو، عجیب سی چمک اس کے چہرے سے پھوٹ رہی تھی میں نے اس سے کہا بھی کہ آشا آج تیرا چہرہ کیسا دمک رہا ہے، بولی میرے چہرے پر ایمان کا نورچمک رہا ہے، سارے دن اس قدر خوش تھی کہ شاید دس سال میں پہلی بار گھر والوں نے اسے ایسا خوش اور تندرست دیکھا، کئی سال کے بعد اس نے اپنے ہاتھوںسے کھانا بنایا، خوب ضد کرکے سب کو کھلایا، سونے سے پہلے وہ نہائی اور کلمہ پڑھنا شروع کیا، ایک کاغذ پر اس نے وہ لکھ رکھا تھا، پہلے اس نے اسے خوب یاد کیا اور پھر زورزور سے پڑھتی رہی، اچانک وہ بہکی بہکی باتیں کرنے لگی، کہنے لگی یہ محل سونے کا کتنا اچھا ہے ؟یہ کس کا ہے ؟جیسے کسی سے بات کررہی تھی، بہت خوش ہوکر بولی کہ یہ میراہے، یہ میراہے ، یہ جنت کا محل ہے، بہت خوش ہوئی، اچھا ہم جنت میں جارہے ہیں، تھوڑی دیر میں کہنے لگی پھولوں کے اتنے حسین گلدستے کس کے لئے لائے ہو؟ْکتنے پیارے پھول ہیں یہ!اچھا تم لوگ ہمیں لینے آئے ہو، تھوڑی دیر میں ہنس کر بولی، اچھا ہم تو اپنی جنت میں چلے تمھاری جیل سے چھوٹ کر اور زورزور سے پھر تین بارکلمہ پڑھا اور بیٹھی بیٹھی بیڈپر ایک طرف کو لڑھک گئی، ہم سبھی لوگ گھبرا گئے، اس کو لٹایا، بھائی صاحب ڈاکٹر کو بلانے چلے گئے، ڈاکٹر صاحب آئے تو انہوں نے کہا کہ یہ تو مر چکی ہے، مگر وہ جیسے ہنستے ہوئے سو گئی ہو، گھر میں کہرام مچ گیا، گھر میں مشورہ ہوا کہ یہ مسلمان ہو کر مری ہے، اگر ہم لوگوں نے اس کو اپنے مذہب کے مطابق جلایا تو کبھی ہم پر کوئی بلا آجائے، صبح کو جیجا نے مالیر کوٹلہ باجی کو فون کیا کہ آشا کا رات میں انتقال ہو گیا ہے، ہمارے یہاں تو مسلمان نہیں ہیں ان کے کریا کرم کے لئے مالیر کوٹلہ سے کچھ لوگ آجائیں، دس بجے تک ایک گاڑی بھر کے مالیر کوٹلہ سے مرد عورتیں آگئیں اور ان کو دفن کیا،  ۱۹۴۷؁ء کے بعد پہلی مرتبہ اس شہر میں کوئی آدمی دفن ہوا تھا قبرستان ابھی تک موجود تھا۔

  سوال  :   یہ تو آپ نے اپنی بہن کے مسلمان ہونے کی بات بتائی بات تو واقعی حیرت ناک ہے، موت بھی کس قدر قابل رشک، زندگی میں نہ کوئی نماز پڑھی نہ کوئی روزہ رکھا، نہ کوئی اسلامی عمل کیا اور کیسی پاک صاف، گناہوں سے پاک، دنیا سے گئی، کیساقابل رشک انتقال ہوا، مگر آپ سے میں نے اپنے اسلام قبول کرنے کا واقعہ ذکر کرنے کی درخواست کی تھی، وہ سنائیے؟
 جواب  : اصل میں میرا اسلام عائشہ کے اسلام سے جڑا ہواہے،آشا اور مجھ میں حد درجہ محبت تھی، اس کی اچانک موت نے مجھے توڑ کر رکھ دیا تھا مگر اس کی موت اور اسلام قبول کرنے کے بعد ایک دن کی زندگی مجھے بار بار سوچنے پر مجبور کرتی تھیکہاس دنیا کی جیل سے وہ جنت کے محل کی طرف صرف ایک کلمہ کی برکت سے پہنچ گئی وہ کس طرح ہنستے ہوئے دنیا سے گئی، میں نے اپنے میکے اور سسرال میں کئی لوگوں کو مرتے دیکھا، کس طرح تڑپ تڑپ کر کتنی مشکل سے جان نکلی، میں سوچتی کہ آشا کو کیا مل گیا جس کی وجہ سے اتنا مشکل مرحلہ آسان ہوگیا، ایک رات میں نے خواب دیکھا آشا بہت خوبصورت ہیرے اور موتی ٹنکے کپڑے پہنے تخت پر خوبصورت تکیہ لگائے بیٹھی ہے، تاج سر پر لگا ہے، جیسے کوئی رانی یا شہزادی ہو، میں نے اس سے سوال کیا کہ آشا تجھے اتنی آسان موت کیوں کر مل گئی؟بولی ایمان کی وجہ سے،اور دیدی میں تجھے سچ بتاتی ہوں کہ مجھے ایمان کے ساتھ صرف ایک دن ہی تو ملا ہے، ایمان کے ساتھ ایک دن جینے میں جو مزہ ہے سیکڑوں سال بغیر ایمان رہ کر جینے میں وہ مزہ نہیں، یقین نہ آئے تو کچھ وقت کے لئے مسلمان بن کر دیکھ لے، میری آنکھ کھل گئی اورمیرے دل میں یہ شوق پیدا ہوا کہ کچھ روز کے لئے مجھے بھی مسلمان ہو کر دیکھنا چاہئے، میں نے اپنے شوہر سے اپنی خواہش کا ذکر کیامیں ہفتہ دو ہفتہ کے لئے مسلمان ہونا چاہتی ہوں اور دیکھنا چاہتی ہوں کہ ایمان کیا چیز ہے، آشا کی موت کے بعدمیں چوں کہ ہر وقت غمگین رہتی اور چپکے چپکے کمرہ بند کرکے روتی رہتی، تو میرے شوہر نے مجھے اجازت دیدی کہ تجھے تسلی ہوجائے گی، تو کرکے دیکھ لے مگر یہ سوچ لے کہ کبھی تو بھی آشا کی طرح ایک دن بعد مرجائے، میں نے کہا، اگر میں مرگئی تو شاید میں بھی جنت میںچلی جائوں اور آپ کوئی اچھی دوسری بیوی کر لیجئے،مگر دیکھئے میرے بچوں کووہ نہ ستائے۔
                 دوروز بعد میں نے اپنے  بہنوئی سے مالیرکوٹلہ والی باجی کا فون نمبر لیا اور ان سے حضرت  صاحب (مولانا محمد کلیم صاحب ) کا فون نمبر لیا اورمیںنے ان سے فون پر کہا کہ میں حضرت صاحب کے پاس جانا چاہتی ہوں اور مقصدیہ ہے کہ میںایک ہفتہ کے لئے مسلمان ہونا چاہتی ہوں، وہ بہت ہنسی کے مسلمان ہونا کوئی ناٹک یا ڈرامہ تو نہیں ہے کہ تھوڑی دیر کے لئے اپنا روپ بدل لیں، پھر بھی انھوں نے خوشی کا اظہار کیا آپ ہمارے حضرت صاحب کے پاس جائیں گی تو وہ آپ کو بہت اچھی طرح سمجھادیں گے،میں نے فون حضرت صاحب کو ملایا، کئی روز کی کوشش کے بعد ان سے بات ہوپائی، میں نے ان سے ملنے آنے کی خواہش کا ذکر کیا، وہ مجھ سے ملنے آنے کی وجہ معلوم کرتے رہے اور بولے آپ مجھے خدمت بتائیے، کیا  معلوم فون پر ہی وہ مسئلہ حل ہوجائے مجھے خیال آیا کہ کہیں مجھے بھی فون پر ہی کلمہ پڑھوادیں اور مسلمان ہونے کو کہیں، اس لئے میں نے بتانا نہیں چاہا، مولانا صاحب نے مجھ سے کہا، بہن میں بالکل بیکار آدمی ہوں اگر آپ ہاتھ دکھانا چاہتی ہیں یا جادو وغیرہ کا علاج کرانا چاہتی ہیں یا کوئی تعویذ گنڈہ  وغیرہ بنوانا چاہتی ہیں تو ہمارے باپ دادائوں کو بھی یہ کام نہیں آتا،آپ مجھے ملنے کا مقصد بتائیں اگر وہ مقصد یہاں آکر حل ہوسکتا ہے تو سفر کرنا مناسب ہے، ورنہ اتنا لمبا سفر کر کے پریشان ہونے سے کیا فائدہ ہوگا،مولانا صاحب نے جب بہت زور دیا تو مجھے بتانا پڑا کہ میں ایک ہفتہ کے لئے مسلمان ہونا چاہتی ہوں اور میں اس آشا کی بڑی بہن ہوں جس کو آپ نے فون پر کلمہ پڑھوایا تھا اور اس کا اسی رات میں انتقال ہوگیا تھا، آشا کا نام سن کر مولانا صاحب نے بڑی محبت سے کہا، اچھا اچھا آپ ضرور آئیے اور جب آپ کو سہولت ہوآپ آجائیے، مجھے آج بتادیجئے، میں آپ کے لئے اپنا سفر ملتوی کردوں گا مولانا صاحب نے مجھے جالندھر سے آنے کا راستہ بتایا کہ شالیماراکسپریس سے سیدھے کھتولی اتریں اور اسٹیشن سے آپ کو کوئی لینے آجائے گا، سفر کی تاریخ طے ہوگئی کوئی مناسب آدمی میرے ساتھ جانے والا نہیں تھا، میں نے اپنی نن سُس (شوہر کے رشتے کی نانی) کو تیار کیا، گھر میں کام کرنے والی بھی اورنانی بھی تینوں ہم لوگ ۱۴ ؍نومبر کی صبح کو نو بجے کھتولی پہنچے کھتولی حضرت صاحب کی گاڑی لینے کے لئے آگئی تھی، پھلت آرام سے پہنچ گئے مولانا صاحب پھلت میں موجود نہیں تھے، مگر آپ کی امی نے مجھے بتایا کہ حضرت صاحب ابھی دو پہر تک پھلت پہنچ جائیں گے انشاء اللہ،ہم لوگوں نے نہاکر ناشتہ کیا اور تھوڑی دیر آرام کیا اور اس کے بعد گھر کی عورتوں سے ملاقات ہوگئی اور میں اپنے آنے کی غرض بتائی، منیرہ دیدی اور امی جان نے مجھے سمجھایا کہ ایک ہفتہ کے لئے کوئی مسلمان نہیں ہوسکتا یہ تو موت تک کے لئے فیصلہ کر نا ہوتاہے میں پریشان ہوگئی کہ مجھے اپنا مذہب اور سب کچھ بالکل چھوڑنا  ہوگا یہ کس طرح ہوسکتا ہے، دو پہر دوبجے مولانا صاحب آگئے، باہر بہت سے مہمان آئے ہوئے تھے، مولانا صاحب دو منٹ کے لئے ہمارے پاس آئے، ہمیں تسلی دی، بہت خوشی ہوئی، آپ آئیں عائشہ مرحومہ کی وجہ سے آپ کے پورے خاندان سے مجھے بہت تعلق ہوگیا ہے، میراواپسی کا نظام معلوم کیا جب میں نے بتایا کہ میں تین روز کے لئے آئی ہوں تو کہا اصل میں باہر بہت سے مہمان آئے ہوئے ہیں جن میں کئی ایسے ہیں جو دو تین روز سے پڑے ہوئے ہیں، رات کو انشاء اللہ اطمینان سے آپ سے ملیں گے،اسماء بہن آپ کو یاد ہوگا آپ نے مجھے حضرت صاحب کی کتاب ’’آپ کی امانت ‘ آپ کی سیوا میں ‘‘ لاکردی، میں نے شام تک اس کو تین دفعہ پڑھا  میرا دل ایمان کوہمیشہ کے لئے قبول کرنے کے سلسلہ میں صاف ہوگیا، مغرب کی نماز پڑھ کر مولانا صاحب ہما رے پاس آئے، مجھے ایمان کی ضرورت کے بارے میں بتایا مرنے کی بعد کی زندگی میں جنت دوذخ اور اپنے پیداکرنے والے کو راضی کرنے کے بارے میں بتایا آپ کی امانت پڑھ کر میرے ذہن سے ایک ہفتہ کے لئے اسلام قبول کرنے کا خیال ختم ہوگیا تھا، میں نے اپنے اسلام قبول کرنے کے سلسلہ میں آمادگی کا اظہار کیا تو مجھے اسلام کا کلمہ پڑھوایا، گھر کی سب عورتیں جمع تھیں،میں نے کہا آپ میرا نام، جو آشا کا نام رکھا تھا رکھ سکتے ہیں ؟انھوں نے کہا کیوں نہیں،  آپ کا نام بھی عائشہ ہی رکھتے ہیں اور عائشہ ہمارے نبی ﷺکی بہت ہی لاڈلی اہلیہ محترمہ ہیں۔
                اسماء تمہیں یاد ہوگا کہ میں نے مولانا صاحب سے دو سوال کیے تھے، میں نے دیکھا مولانا صاحب بات تو ہم سے کررہے تھے، مگر رخ ان کا آپ کے گھر والوں کی طرف تھا، میں نے سوال کیا کہ آپ ہم سے منھ پھیر کر کیوں بات کررہے ہیں، تو مولانا صاحب نے کہا، اسلام عورتوں اور مردوں کے درمیان پردہ کا حکم دیتا ہے،وہ سب عورتیں جن سے اسلام کے قاعدہ کے مطابق مسلمان کی شادی ہوسکتی ہو، سب عورتیں ایک مرد کے لئے نا محرم ہیں ان سے پردہ کر نے کا اسلام حکم دیتا ہے،سچی بات یہ ہے کہ مجھے پردہ کے پیچھے سے آپ سے بات کرنی چاہئے تھی مگر مجھے خیال ہوا کہ آپ کو بڑی اجنبیت سی لگے گی اس لئے میں نے سامنے آکراپنے رخ کو دوسری طرف کرکے نا محر م پر نگاہ نہ ڈالنے کے اسلام کے حکم پر عمل کیا، ایمان کی دعوت جیسی سب سے محبوب عبادت میں، کسی نا محرم پر نگاہ پڑنے کے گناہ کے ساتھ اثر نہیں رہتا، میں نے کہا: میری بہن آشا نے جب آپ سے ایمان لے آنے کی بات کہی تو اتنا ان کار کرنے پر بھی آپ نے ان کو فون پرکلمہ پڑھوایا، میں اس لئے آپ سے آنے کی غرض نہیں بتارہی تھی کہ کہیں آپ مجھے بھی فون پر کلمہ پڑھوایا کر ٹال دیں، مگر آپ نے مجھے فون پر کلمہ پڑھنے کے لئے نہیں کہا اس کی کیا وجہ ہے؟حضرت صاحب نے جواب دیا، فون پر کلمہ پڑھواناٹالنا نہیںہے، بلکہ ناپائیدار، پانی کے بلبلے کی طرح کی فانی زندگی کا خیال اور سچی ہمدردی ہے، واقعی نہ جانے مجھے کیوں خیال نہیں آیا، میں نے غلطی کی، خدا نہ کریں آپ کا راستہ میں یا اس دورا ن انتقال ہو جاتا توکیا ہوتا یا میرا نتقال ہو جاتا خود میرے لئے بڑی محرومی تھی، نہ جانے کس خیال میں مجھ سے بھول ہوئی اور پھر آپ چار پانچ روزاسلام سے محروم رہ گئیں اور اتنی بڑی ضرورت اور خیر میں تاخیر ہو گئی، اللہ تعالی مجھے معاف فرمائے، واقعی میں نے بڑی غلطی کی، اصل میں اللہ تعالی کام کرنے والوں کے دلوں میں خود ہی تقاضے ڈالتے ہیں، آپ ایک ہفتے کے لئے اسلام قبول کرنا چاہتی تھیں، ظاہر ہے یہ کوئی کھیل تھوڑی ہے، اقبال ایک شاعر ہیں انہوں نے کہا ہے   ؎
یہ شہادت گہِ الفت میں قدم رکھنا ہے
 لوگ آسان سمجھتے ہیں  مسلماں ہونا
                اسلام قبول کرنا تو اپنی چاہت کو، اپنی اناکو قربان کردینا ہے، اس کے لئے آپ کے ساتھ فون پر بات کرنا کافی نہیں تھا، اس لئے اللہ نے دل میں فون پر کلمہ پڑھوانے کی بات نہیں ڈالی، آشا سے بات کرکے تو مجھے خود اندر سے لگ رہاتھا کہ اگر اس نے اسی وقت کلمہ نہ پڑھا تو شاید اس کی موت ایک دو روز میں ہوجائے، حضرت صاحب نے سمجھایا کہ اب ہر قربانی دے کر اس ایمان کو قبر تک ساتھ لے جانا ہے، اس کے لئے آپ پر مشکلیں بھی پڑسکتی ہیں، قربانیاں دینی پڑسکتی ہیں، ایک مٹی کا برتن بھی کمہار سے کوئی خریدتا ہے تو ٹھونک ٹھونک کر دیکھتا ہے، اتنا قیمتی ایمان لانے والے کو آزمایا بھی جاسکتا ہے، اگر آپ ایمان پر جمی رہیں تو موت کے بعد کی زندگی میں یہ محسوس ہوگا کہ کتنے سستے داموں میں یہ نعمت ملی ہے، حضرت صاحب نے گھر کے لوگوں کو مجھے نماز اور کھانے وغیرہ کے طریقے سکھانے کو کہا، میری نانی اور کام کرنے والی کے بارے میں معلوم کیا، امی جان اور منیرہ دیدی ان لوگوں کو سمجھاتی رہیں، اگلے روز حضرت صاحب سفر پر چلے گئے،ہمار ی وا پسی سے دو گھنٹہ پہلے لوٹے، ہماری بوا اور نانی کوسمجھایا،آ پ ا س دولت سے محروم کیوںجارہی ہیں، کافی حد تک تو وہ پہلے سے ہی تیار ہوگئی تھیں، حضرت صاحب کے سمجھانے سے وہ کلمہ پڑھنے پر تیار ہوگئیں، ان کو کلمہ پڑھوایا اور بوا کا نام حضرت نے ماریہ اور نانی کا نام حضر ت نے آمنہ رکھا، خوشی خوشی ہم بامرادہوکر رخصت ہوئے، گھر کے سبھی لوگوں نے ہمیں ایسی محبت سے رخصت کیا جیسے میں اسی گھر میں پیدا ہوئی ہوں، اسی گھر کی ایک فرد ہوں، نہ جانے کیوں آج تک میںجب پھلت یا دہلی آتی ہوں تو مجھے ایسا لگتا ہے، جیسے میں اپنے میکے آتی ہوں۔

 سوال  :   گھر جانے کے بعد آپ کے شوہر کا انتقال ہوگیا تھا اس وقت آپ کو کیسا لگا ؟انتقال کس طرح ہوا ذرابتائیں ؟
 جواب  :   حضرت صاحب نے مجھے بتایا تھا کہ اب اپنے رشتہ داروں سے محبت کا حق یہ ہے کہ آپ سب کو دوزخ کی آگ سے بچانے کی فکر کریں اور اپنے شوہر کو بھی اسلام کی طرف لائیں، بچوں کو بھی مسلمان کریں، مجھے یہ بھی بتایا تھا کہ اسلام کے لئے تمہیں آزمائشیں سہنی پڑیں گی، مجھے ایسا لگا جیسے حضرت صاحب دیکھ کر کہہ رہے تھے، مجھے سخت امتحان سے گذرنا پڑا، میں نے جاکر اپنے شوہر سے اپنا پورا حال بتایا کہ اب میں ہمیشہ کے لئے مسلمان ہوگئی ہوں اور ان پر زور دیا آپ بھی مسلمان بن جائیں، وہ مجھ سے بہت والہانہ محبت کرتے تھے، پہلے تو سرسری طور پر لیتے رہے، جب میں نے زور دینا شروع کیا تو انھوں نے مخالفت کرنا شروع کی اور مجھے اسلام پر رہنے سے روکا، میں اپنے اللہ سے دعا کرتی، میں نے حضرت صاحب سے فون پر بات کی ایک مسلمان اور ایک سکھ میاںبیوی کس طرح رہ سکتے ہیں؟تو حضرت نے بتایا کہ سچی بات یہ ہے کہ مسلمان ہونے کے بعد آپ سے ان کا شوہر بیوی کا رشتہ نہیں رہا اور شادی (نکاح) ٹوٹ گیا مگر اس امید پر آپ احتیاط کے ساتھ ان کے ساتھ رہئے کہ ان کوایمان نصیب ہوجائے اور بچوں کی زندگی اور ایمان اورمستقبل کا مسئلہ بھی حل ہوجائے، یہ معلوم کرکے مجھے ان کے ساتھ رہنے میں بڑی گھٹن محسوس ہونے لگی، روز رات کو ہم میں لڑائی ہوتی، آدھی آدھی رات گزر جاتی مجھے حضرت صاحب نے اللہ سے دعا کے لئے کہا اور بتایا کہ تہجد کی نماز میں دعاکروں، ایک رات سار ی ر ات ہی نماز پڑھتی رہی اورروتی رہی، میرے اللہ آپ کے خزانے میں کس چیز کی کمی ہے آپ میرے شوہر کو ہدایت کیوں نہیں دے سکتے، میرے اللہ نے میری دعا سن لی، اگلی رات جب میں نے ان سے مسلمان ہونے کو زور ڈالا تو انھوں نے مخالفت نہیں کی اور بولے روزروزکے جھگڑوں سے میں بھی عا جز آگیااگر تو اس میں خوش ہے تو چل میں بھی مسلمان ہوجاتا ہوں، کرلے مجھے مسلمان، میں نے کہا میری خوشی کے لئے مسلمان ہونا کوئی مسلمان ہونا نہیں، بلکہ پیدا کرنے والے، دلوں کا بھید جاننے والے مالک کوراضی کرنے کے لئے مسلمان ہونا ہے، میںنے ان کو حضرت صاحب کی کتابــ’’آپ کی امانت آپ کی سیوا میں ‘‘ دی، پہلے بھی میںنے ان کو یہ کتاب پڑھواناچاہی تو وہ پھینک دیتے مگر اس  روز انھوںنے وہ کتاب لے لی اور پڑھنا شروع کی، پوری کتاب بڑے غورسے پڑھی جیسے جیسے وہ کتاب پڑھتے رہے میںنے محسوس کیاان کاچہرہ بدل رہا ہے اور پھر اس کتاب میں سے زور زور سے تین بار کلمہ شہادت پڑھا  بولے یہ کلمہ اب میں تیری خوشی کے لئے نہیں بلکہ اپنی خوشی اور اپنے رب کی خوشی کے لئے پڑھ رہا ہوں، میںبے اختیاران سے چمٹ گئی، میں بیان نہیں کرسکتی دو مہینے کے مسلسل کہرام کے بعد میرے گھر میںخوشی آئی تھی، اگلے روز معلوم ہواکہ ان کا روپڑ ٹرانسفر ہوگیا ہے وہاںگئے ایک ہفتہ گزرا تھا کہ وہاں چیف منسڑکا دورہ ہوا، ان کے پروگرام میں وہ مصروف تھے ایک جگہ سیکورٹی کا معائنہ کر نے لئے وہ گئے اور کالج کی بائونڈری کے نیچے کھڑے تھے تیزہوا چلی اور ہواکا ایک بگولہ ایسا آیا کہ بائونڈری کا وہ حصہ جس کے نیچے وہ کھڑے تھے ان کے اوپر گرگیا اور اس دیوار کے نیچے دب کر اسی وقت ان کا انتقال ہوگیا۔
                اسماء بہن میں بیان نہیں کرسکتی کہ یہ حادثہ میرے لئے کتناسخت تھا مگر میرے اللہ کا کرم ہے اس نے مجھے ہمت دی ایمان پر اس کا الٹا اثر نہیں ہوا، مجھے اندر سے اس بات کا احساس دل کو تھامے رہا کہ انھوں نے اسلا م قبو ل کرلیا تھا اور وہ جنت میں چلے گئے،جہاں چند دن کے بعد مجھے بھی انشاء اللہ جانا ہے، ان کے گھر ان کے کریا کرم (تجہیزو تدفین)  پر بڑا ہنگامہ ہوا میں نے کہا میں ہرگز ان کو جلنے نہیں دوں گی میں اس لاش کی وارث ہوں، مجھے اس کا قانونی حق ہے مگر گھر کے سب لوگ ضدکررہے تھے کہ یہ ہمارے خاندان کا فرد ہے، ڈی جی پی، ا ے ڈی جی پی، آئی جی، ڈی آئی جی، سب موجود تھے بہت محنت کے بعد یہ طے ہوا کہ ان کی سمادھی بنادی جائے، ان کی سمادھی بنا دی گئی اور میں نے ایک مولانا صاحب کو بلاکر ان کی جنازہ کی نماز سمادھی بنانے کے بعد پڑھوائی۔

 سوال  :  اس کے بعدآپ پھر جالندھر آگئیں ؟
 جواب  : رو پڑچھوڑ کر میں جالندھر آگئی حضرت صاحب کے بتانے کے بعد میں نے اپنی عدت پوری کی میرے بھائی لندن میں رہتے ہیں انھوں نے مجھ سے کہا آپ انگلینڈ آجائیں، میں نے پاسپورٹ بنوایا، ایک روز میں نے کعبہ کوخواب میں دیکھا، اٹھ کر میں نے فون پرحضرت صاحب کوبتایاحضرت نے بتایا کہ آپ پر حج فرض ہوگا، مگر کوئی محرم ہونا ضروری ہے اور آپ کا کوئی محرم نہیں ہے، اس کے لئے آپ کسی سے شادی کریں میں اپنے بچوں کے مستقبل کے وجہ سے لاکھ کوشش کے باوجود اپنے کو راضی نہیں کرپائی، مگر نہ جا نے کیوں مجھے حج کوجانے کی، جنون کی حد تک دھن لگ گئی، اس کے لئے بار بار پھلت اور دہلی کا سفر کیا، مگر ایجنٹوں کے پاس بار بار کوشش کے باوجود کوئی صورت نہ بن سکی، آپ اور گھر کے سب لوگ حج کوچلے گئے اور میں تڑپتی رہ گئی، یہ حج سے محرومی خود میرے لئے بڑا امتحان تھا، میں بہت رویا کرتی تھی، اپنے اللہ سے فریاد کیا کرتی تھی، مجھے ایسا لگتا تھا کہ شاید اب بھی میں حج کو چلی جائوں بقر عید سے تین دن پہلے جب مجھے خیال آیا کہ اب حج کے تین دن باقی ہیں، اس لئے کہ مجھے یہ معلوم تھا کہ حج بقرعید کے دنوں میں ہوتا ہے، میں صبح تہجد میں روتے روتے بے ہوش ہوگئی، میں نے نیم بیداری میں دیکھا میرے سر پر احرام کا اسکاف بندھا ہے اور میں ہوں اور پھر منیٰ کے لئے چلے، غرض مکمل حج کیا، میری آنکھ کھلی اور ہوش آیا تو میں بیان نہیں کرسکتی کہ مجھے کتنی خوشی تھی، میں نے کسی طرح حضرت صاحب کا مکہ مکرمہ کا فون لیا اور خوشی خوشی تقریباًپچیس منٹ تک پورے حج کی یہ تفصیل بتائی، حضرت صاحب خود حیرت میں رہ گئے۔

  سوال  :   ابی بتارہے تھے کہ پچھلے سال آپ حج کو گئی تھیں، امسال تو ہم حج میں بار بار آپ کا ذکر اور افسوس کرتے رہے۔
 جواب  :  میں اپنے اللہ کے قربان جائوں کہ اس نے میری حج کی دعا سن لی،پہلے سال تو مجھے بغیر جائے حج کرادیا، اگلے سال میں نے اپنے ایک بھائی پر کوشش کی اوراس کو باہر کا سفر کرانے یعنی حج کا لالچ دے کر مسلمان ہونے پر زور دیا اور بتایا کہ گرونانک جی بھی حج کو گئے تھے، کوشش کے بعد وہ مسلمان ہو گئے اور ہم دونوں کو پچھلے سال حج کی سعادت نصیب ہو گئی۔

  سوال  :   ارمغان کے حوالے سے آپ مسلمانوں کو کوئی پیغام دینا چا ہیں گی؟
 جواب  :  بس میں اپنی بہن عائشہ کی بات دہراتی ہوںکہ ایمان کی نعمت کی قدر کریں اور ایمان کے ساتھ ایک دن سینکڑوں سال کے بغیر ایمان کی زندگی سے افضل ہے اور پھر سارے جہانوں کے لئے رحمت والا نبیﷺ کے امتی ہونے کی حیثیت سے سارے انسانوں کو اس دنیا کی قید سے جنت میں لے جانے کی فکر کریں، میرے اور میرے گھر والوں کے لئے دعا کریںکہ سب کا خاتمہ ایمان پرہو۔
        
         آمین بہت بہت شکریہ               
                                                                     مستفادازما ہ نا مہ ارمغان، ستمبر ۲۰۰۶ء

ڈاکٹرصفیہ {سروج شالنی }سے ایک ملاقات

ڈاکٹرصفیہ {سروج شالنی }سے ایک ملاقات

اسما ء ذات الفوزین : السلام علیکم ورحمۃ اللہ
ڈاکٹر صفیہ : و علیکم السلام ورحمۃ اللہ

  سوال  : ڈاکٹر صاحبہ، ابی کا ا جمیر سے فون آیا تھا، انھوں نے بتایا کہ آپ کا فون آیا تھا، میں آپ کو بلالوں اور آپ سے کچھ باتیں کروں، آپ کے علم میںہوگا کہ ہمارے یہاں پھلت سے اپنے خونی رشتہ کے بھائی بہنوں خصوصاً برادرانِ وطن تک ان کا دعوتی حق پہونچانے اور ان کو دوزخ سے بچانے کی فکر اور ذمہ داری پیداکرنے اور مسلمانوں کو بیدارکر نے کے لئے ایک اردو میگزین نکلتی ہے اس میں اسلام کے دستر خوان پر آنے والے نئے خو ش قسمت بھا ئیوں کی آپ بیتی ہر ماہ شائع کی جا رہی ہے ابی کی خواہش تھی کہ ۲۰۰۵؁ ء کے شمارے میں آپ کا انٹر ویو شائع ہوجائے ۔
 جواب  :اصل میں میں پندرہ روز سے مولانا صاحب کو فون کرنے کی کو شش کررہی تھی میرے پاس ان کا یوپی اور دہلی کے موبائل تھے مگر مل نہیں رہے تھے، کل اتفا ق سے فون مل گیا انہوں نے مجھے دہلی گھر کا نمبر دیا اور بہت تاکید کی کہ آپ فون کرکے ضرور چلی جائیں اس لیے کہ میگزین پریس میں جانا ہے اور بالکل آخری تاریخ ہے مجھے مولانا صاحب نے بتایا کہ یہ انٹرویو زدعوت  کا ماحول بنانے میں بڑا رول ادا کر رہے ہیں تو مجھے خیال ہوا کہ میرا بھی اس میں کچھ حصہ (شیرَ) ہوجائے آپ مجھ سے جو چاہیں معلوم کریں،

  سوال  :  شکریہ آپ پہلے اپنا تعارف ( پریچئے ) کرائیں ۔
 جواب  :میرا پرانا نام سروج شالنی ہے میں ۲۴؍ ستمبر ۱۹۷۸ ؁ ء میں لکھنو کے پاس موہن لال گنج میں ایک برہمن خاندان میں پیدا ہوئی میرے والد ڈاکٹر کے  اے شرما، پروفیسر تھے اورکارڈیا لوجی میں ڈی ایم کیا تھا ‘اس کے بعد کافی زمانہ تک وہ پنتھ ہوسپٹل میں رہے‘ دس سال سے لکھنوَ میں گھر کے قریب کوشش کرکے ٹرانسفر کرالیا ِ، میری ( ماتا ) والدہ گھریلو خاتون ہیں، میرے والد مزاج کے لحاظ سے بالکل ہندوستانی ہیں وہ صرف مشرقی تہذیب سے اتفاق رکھتے ہیں اس لئے انہوںنے اپنے گھر والوں پر دبائو دیکربہت سے ڈاکٹروں کو چھوڑ کر میری والدہ کو پسند کیا اور شادی کی، میرے دو بھائی ہیں، ایک بنارس یونیورسٹی میں ریڈر ہیں اور دوسرے بی ایچ ایل میں انجینئر ہیں دونوں مجھ سے بڑے ہیں، میں نے انٹر سا ئنس بایولوجی میں فرسٹ ڈویژن سے پاس کیا اور پھر PMT مقابلہ پاس کیا، لکھنؤ میڈیکل کالج سے ایم، بی، بی ایس کیا اور مولانا آزاد میڈیکل دہلی سے ایم ڈی کیا،اپنے والد کی خواہش پر کارڈیالوجی (امراض قلب )کو منتخب کیا اب میں AIMS میں D.M. بھی کر رہی ہوں اور آجکل AIMS میں ڈپارٹمنٹ آف کارڈیالوجی میں ملازمت بھی کرتی ہوں، میں نے اب سے ایک سال چھ ماہ چارروز دوگھنٹے پہلے، بیس مئی ۲۰۰۴ء کو برہسپتوار (بروز جمعرات ) گیارہ بجے، گرین پارک کی مسجد میں جاکر آپ کے والد صاحب کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا۔
  سوال  : ا پنے اسلام قبول کرنے کے واقعہ اور اس کے اسباب کو آپ ذراتفصیل سے بتایئے ؟
 جواب  :جون  ۲۰۰۳ ؁ء میں I.C.C.U بچوں کے وارڈ میں ڈیوٹی پر تھی میں نے دیکھا کہ ایک مولاناصاحب ہریانہ کے ایک بچہ کو دیکھنے آئے،بچہ کے پاس صرف ایک (Attandent) تیماردار کیسے اپنے بچے کو پھونکنے کے لئے کہا ‘ بچے کی ماں ہریانہ والے بچے کے پاس کھڑی ہوگئی، مولانا صاحب نے دوسرے بچے پر بھی دم کیا اس کو دیکھ کر برابر والی ماں نے بھی اپنے بچے کو پھونکنے کے لئے کہا، ایک کے بعد ایک چھ بچوں کے پاس مولانا صاحب آکر کھڑے ہوئے اور پھونکتے رہے، ڈاکٹر تیاگی جو ڈپارٹمنٹ کے ہیڈ تھے، ان کے راؤنڈ کا ٹا ئم تھا میں سامنے سے دیکھ کروارڈمیں آئی اور مولانا صاحب سے پوچھا : آپ کا مریض کون ہے ؟ آپ کبھی اس مریض کے پاس، کبھی اس مریض کے پاس آرہے ہیں اور پھونک رہے ہیں، یہ I.C.C.U ہے یہاں پر انفکشن(Infection) کا خطرہ رہتا ہے، مولانا صاحب نے کہا یہ سارے مریض میرے ہیں اس لئے کہ ہمیں ہمارے بڑوں نے یہ بتایا  ہے کہ سارے انسان ایک ماں باپ کی اولاد ہیں، اس لئے یہاں پر ایڈ مٹ ہر مریض سے میراخونی رشتہ ہے، جس مالک نے آپ کو اور ہمیں پیدا کیا ہے اس کو یہ تیرا میرا بالکل پسند نہیں اور جو چیز ہم پڑھ کر پھونک رہے ہیں وہ اسی مالک کا کلام ہے جس نے اپنے کلام میں یہ بات کہی ہے، اپنے سچے سندیش واہک حضرت ابراہیم کی زبان سے یہ بات کہلوائی اور حضرت ابراہیم وہ ہیں جن کے نام پر بھارت کے لوگ اپنے کو براہمن (براہیمی) کہلاتے ہیں کہ جب میں بیمار ہوتا ہے تو وہ مالک شفا دیتا ہے یعنی ٹھیک کرتا ہے، آپ روز دیکھتی ہوںگی آپ اپنی سوچ سے اچھی اچھی دوا مریض کو دیتی ہیں اور مریض ٹھیک ہونے کے بعد مرجاتا ہے اوربعض مرتبہ علاج میں غلطی ہوتی ہے اور مریض ٹھیک ہوجاتا ہے، ایسی بات میں نے پہلی بار سنی تھی  پچھلے ہفتہ ہمارے وارڈ کے چھ بچے ایکسپائر (مر گئے ) ہوگئے تھے، ان میں سے چار بچے تو بہت سندر تھے اور دو ہفتہ تک وارڈ میں رہنے کی وجہ سے مجھے بھی ان سے بہت تعلق ہوگیا تھا، ان کی موت سے دل پر بہت صدمہ تھا، مولانا صاحب کی محبت بھری باتیں سن کر مجھے ایسا لگا کہ مجھے ان کی کچھ اور باتیں سننی چاہیے میں نے مولانا صاحب سے اپنے کیبن میں آنے کو کہا، مولانا صاحب نے میری درخواست قبول کی مولانا صاحب نے مجھ سے کہا آپ میری چھوٹی بہن یامیری اولاد کی طرح ہیں اور محبت سے مجھے بلاکر لائی ہیں تو میری آپ سے درخواست ہے کہ اپنے وارڈ میں آنے والے مریض کو اپنا بچہ یا اپنا بھائی سمجھیں اور ان کے درد اور تکلیف کو اس طرح لیں، مالک نے آپ کو کیسا اچھا موقع دیا کہ آپ کو پریشان حال لوگوں کے درد میں شریک کیا، آپ کو خوب اندازہ ہوگا کہ جس ماں کا بچہ ہو اور وہ اتنا بیمار ہو کہ ICCU میں ایڈمٹ  ہو اور سرکاری اسپتال میں ایسے مریض آتے ہیںجن کا کوئی سہارا نہیں ہو ان کے ساتھ ذراسی ہمدردی آپ کریں تو ان کے روئیں روئیں، بلکہ انتر آتما سے آپ کے لئے دعائیں نکلیں گی، آ خر میں مولانا صاحب نے بڑے درد سے میرا نام پوچھا اور بولے، ڈاکٹر شالنی ! آپ میری خونی رشتہ کی بہن ہیں، اس لئے میں آپ کو یہ نصیحت کرتا ہوں بلکہ وصیت کرتا ہوں اور وصیت اس کو کہتے ہیں جو کوئی مرنے والا اپنے بچے سے مرنے کے وقت اپنی آخری بات کے طور پر کہتا ہے کہ آپ وارڈ میں آنے والے کا علاج سب سے بڑی پوجا سمجھ کر کریں آپ کو سینکڑوں سال کی تپسیا اور کٹھن پوجا (مشکل عبادت ) میں مالک کے یہاں وہ جگہ نہیں ملے گی جو کسی پریشان حال مریض اور اس کے مصیبت زدہ ماتاپتا کو تسلی دینے میں ملے گی۔
                 میں نے مولانا صاحب کا بہت شکریہ ادا کیا اور وعدہ کیا کہ میں کوشش کروںگی، مولانا صاحب چلے گئے، ڈ اکٹر صاحب کے رائونڈ کے بعد میں نے پانی پت ہریانہ کے اس بچے کے باپ سے معلوم کیا کہ یہ مولانا صاحب کون ہیں، اس نے بتایا کہ یہ ہما رے حضرت جی ہیں، یہ بہت اچھے آدمی ہیں، ان کے ہاتھوں پر ہزاروں ہندو مسلمان ہوگئے، کافی دنوں تک مجھے مولانا صاحب کی باتوں کا دل پر اثررہا، خاص طور پر یہ بات کہ یہ سارے مریض میرے ہیں، جس مالک نے ہمیں پیدا کیا اس کو یہ تیرا میرا پسند نہیں، میں نے یہ بھی محسوس کیا کہ مولانا صاحب کے پھونکنے سے مریضوں کی حالت میں عجیب فرق آیا ہے اور سارے مریض ٹھیک ہوکر وارڈ سے گئے، لیکن کچھ دن گذرنے کے بعد ذہن سے بات نکلتی گئی، مولانا آزاد میڈیکل کالج میں میری ایک روم پاٹنر ڈاکٹر رینا سہگل تھی وہ گائنی میں ایم، ایس کررہیں تھی اور بعد میں وہ صفدر جنگ اسپتال میں گائنی ڈپا ر ٹمنٹ میں ملازم ہوگئی ہم لوگوں میں خاصی دوستی ہے، ایک دن انہوں نے مجھے کھا نے پر بلایا کھا نے کے بعد با تیں ہو رہی تھیں، ان کے یہا ں مسلمان کا م کر نے والی آتی تھی، وہی کھانا وغیرہ بناتی تھیمیں نے ان سے کہا تم نے مسلمان کھانا بنانے والی کیوں رکھ رکھی ہے ؟ تمہیں کوئی ہندو نہیں ملی ؟ وہ کہنے لگیں یہ بڑی اچھی لڑکی ہے بہت ایماندار ہے، کئی بار میرا پرس گر گیا جوں کاتوں مجھے لاکر دیا، باتوں باتوں میں مسلمانوں کے بارے میں باتیں ہونے لگیں، ڈاکٹر رینا کہنے لگیں جیسے جیسے ہمارے دیش بلکہ پورے سنسار میں مسلمانوں کے خلاف میڈیا میں باتیں آرہی ہیں لوگ مسلمان ہوتے جارہے ہیں، کیسے کیسے بڑے لوگ مسلمان ہورہے ہیں، مائیکل جیکسن کے با رے میں تمہیں معلوم ہوگا وہ بھی مسلمان ہوگیا، ہمارے ہوسپٹل میں کارڈیالوجی میں ایک نوجوان ڈاکٹر بلبیر نام کے ہیں وہ بھی دو ایک سال پہلے مسلمان ہوگئے ہیں اور وہ تو بس یہ چاہتے ہیں کہ پورے اسپتال کے لوگ مسلمان ہوجائیں، ایک مریض کے سلسلہ میں ان کو چیک اپ کے لئے بلایا بس مجھ سے کہنے لگے اگر مرنے کے بعد نرک سے بچنا ہے تو مسلمان ہوجائو، مجھے یہ سن کر اپنے وارڈ میں آئے مولانا صاحب یاد آگئے اور ان کی ساری باتیں تازہ ہوگئیں، میں نے ڈاکٹر رینا سے کہا آپ مجھے ڈاکٹر بلبیر سے ضرور ملائیں  انہوں نے اگلے روز فون کرنے کو کہا اور بتایا کہ اتوار کو ڈاکٹر بلبیر کو میں نے کمرے پر بلایا ہے، آپ دس بجے میرے کمرے پر آجائیں اتوار کے روز میں ڈاکٹر سہگل کے کمرے میں گئی، ڈاکٹر بلبیر بھی آگئے، سانولے رنگ کے بہت ہی سجن نوجوان، جیسے کسی گہری سوچ میں گم ہوں، میں نے ان سے معلوم کیا آپ نے کتنے دن پہلے اسلام قبول کیا، انہوں نے بتایا آٹھ نوسال پہلے، میں نے وجہ معلوم کی تو انہوں نے کہاصرف اور صرف اسلام  ہی سچا اور سب سے پہلا اور سب سے انتم دھرم ہے اور اسلام کے بغیر مرنے کے بعد کی زندگی میں نہ تو موکش ہے نہ مکتی  (نجات ) اور ہمیشہ ہمیشہ کی نرک ہے اور اسلام قبول کرنا آپ کے لئے بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا میرے لئے، میں نے معلوم کیا کہ آپ نے نام بھی بدل لیا ہے، انہوں نے بتایا کہ ہاں میرااسلامی نام ولی اللہ ہے، جس کا ارتھ (معنی ) ہے اللہ کا یعنی ایشورکا دوست، میں نے ان سے کہا کہ ایک ڈیڑھ سال پہلے میرے وارڈ میں ایک مولانا صاحب آئے تھے، انہوں نے مجھ سے کچھ باتیں کی تھیں وہ آج تک میرے دل کو لگی ہوئی ہیں وہ وارڈ کے ہر مریض کو پھونک رہے تھے، میرے معلوم کرنے پر کہ آپ کا مریض کونسا ہے انہوں نے کہا کہ سارے مریض میرے ہیں، ہم سب ایک ماں باپ کی اولاد، خونی رشتہ کے بھائی ہیںیہ’ تیرا میرا‘  پیدا کرنے  والے مالک کو بالکل پسند نہیں ڈاکٹربلبیر کہنے لگے، مولانا صاحب نے یہ باتیںبالکل سچی کہی  تھیں یہ تو اسلام کے اور ہم سب کے رسول حضرت محمدﷺنے اپنے آخری حج کے بھاشن میں کہی تھیں، میں نے کہا وہ بھاشن چھپا ہوا ملتا ہے انہوں نے کہا کہ ہاں ہمارے نبی کا ہر بول پوری طرح سورکشت ( محفوظ)  ہے اور چھپا ہو ملتا ہے میں کسی سے لے کر ڈاکٹر رینا کے ہاتھ آپ کو بھجوادوں گا۔
                دو چار روز کے بعد ڈاکٹر رینا سہگل نے مجھے وہ پمفلٹ جس میں انگریزی میں ہمارے نبیﷺ کے آ خر ی حج کا خطبہ انگلش ٹرانسلیشن کے ساتھ تھا لاکر دیا، اس کو پڑھ کر میں حیران رہ گئی  خاص طور پر عورتوں کے بارے میں بار بار ان کی چرچا میرے دل کو اور لگ گئی، مجھے مولانا صاحب کی یاد آئی اور خیال ہوا کیا اچھا ہوتا کہ میں مولانا صاحب کا پتہ لے لیتی، میں نے ہاسپٹل میں پرانے مریضوں کی فائلیں تلاش کیں کہ پانی  پت کے مریض کا پتہ مل جائے تو میں خود مریض کے گھر جاکر مولانا صاحب کا پتہ معلوم کروں، مگر مجھے پتہ نہیں مل سکا، مجھے اسلام کو پڑھنے اور اسلام کے بارے میں جاننے کا شوق ہوگیا تھا، میں نے ڈاکٹر بلبیر کا فون لیا اور ان سے ملنے کے لئے وقت طے کیا صفدر جنگ ہو سپٹل جا کر ان کے وارڈ میں ان سے ملی ان سے اسلام کو جاننے کے لئے لٹریچر دینے کو کہا، دوسرے روز وہ میرے ہوسپٹل آئے اور مجھے ایک چھوٹی سی کتاب ’’ آپ کی امانت‘ آپ کی سیوا میں ‘‘ ہندی میں دی اور انہوں نے کہا کہ اسلام کی ضرورت اور اس کے بارے میں جاننے کے لئے یہ چھوٹی سی کتاب سو کتابوں کی ایک کتاب ہے، بس یہ کتاب آپ کو یہ سوچ کر پڑھنی ہے کہ ایک سچا ہمدرد صرف مجھ سے یہ بات کہہ رہا ہے اور آپ کتاب پڑھیں گی تو آپ کو خود ایسا ہی لگے گا میں نے اس کتاب کے لیکھک کے ہاتھ پر ہی اسلام قبول کیا ہے کتاب کے دو شبد کتاب کی جان ہے ان کو پڑھ کر آپ کتاب اور کتاب لکھنے والے کو جان جائیگی، ڈاکٹر بلبیر نے مجھے بتایا کہ وہ دہلی کے پاس یوپی کے ایک شہر کے راجپوت خاندان سے تعلق رکھتے ہیں، کتاب دے کر اور کچھ دیر چائے وغیرہ پی کر وہ چلے گئے میں نے وارڈ میں بیٹھ کر وہ کتاب بس ایک بار میں پڑھ ڈالی، کتاب پڑھ کر مجھے مولانا صاحب کی بہت یاد آئی، کتاب نے میرے دل میں اپنی جگہ بنالی تھی، میں نے کتاب کو پڑھ کر ڈاکٹر بلبیر کو فون کیا اور ان سے کہا کہ کتاب کے لیکھک کی اور کوئی کتاب مجھے دیجئے اور اگر ان سے مجھے آپ ملا سکیں تو آپ کا مجھ پر بڑا آبھار (احسان ) ہوگا۔
                 چار روز بعد اٹھارہ مئی تھی، ڈاکٹر بلبیر کا میرے پاس فون آیا انہوںنے بتایا کہ اگر آپ چھٹی لے سکتی ہوں تو ’’آپ کی امانت ‘‘ کے لیکھک مولانا محمد کلیم صاحب  سے گرین پارک کی مسجد میں ملاقات ہوجائے گی میںفوراً تیار ہوگئی، ہم آٹو سے گرین پارک کی مسجد پہونچے، مولانا صاحب گیارہ بجے کے بجائے ساڑھے دس بجے وہاں پہنچ گئے تھے، ان کو آگے سفر کرنا تھا مولانا صاحب کو دیکھ کر مجھے اتنی خوشی ہوئی کہ میں اسے بھول نہیں سکتی جب میں نے دیکھا کہ آپ کی امانت کے لیکھک مولانا کلیم وہی مولانا صاحب ہیں، جو ڈیڑھ سال پہلے میرے وارڈ میں ہریانہ کے بچے کو دیکھنے آئے تھے اور جن کو میں اس قدر تلاش کررہی تھی، محبت اور عقیدت سے مولانا صاحب کے قدموں میں گر ی، مولانا صاحب نے بہت سختی سے منع کیا اور مجھ سے کہا اب کیا دیر ہے، آپ کی امانت پڑھنے کے بعد بھی آپ کو کوئی شک رہ گیاہے ؟میں حالانکہ مولانا صاحب سے ملنے ہی آئی تھی، مگر میں اپنے کو روک نہیں سکی اور میں نے مولانا صاحب سے کہا کہ میں مسلمان ہونے ہی آئی ہوں، مولانا صاحب بہت خوش ہوئے اور مجھے فوراً کلمہ پڑھایا اور میرا اسلامی نام سروج شالنی کی جگہ صفیہ شالنی (ایس شالنی) رکھا مولانا صاحب نے مجھے کچھ کتابیں لکھ کر دیں اور نماز یاد کرنے اور پڑھنے کی تاکید کی۔
  سوال  : اسلام قبول کرنے کے بعد آپ نے اس کا اعلان کیا یا نہیں؟
 جواب  :مولانا صاحب نے مجھے اعلان کرنے کے لئے سختی سے منع کردیا، مگر پھر بھی میں نے اپنے خاص خاص لوگوں سے ذکر کردیا کبھی کبھی مجھے بہت جوش سا بھی آتا ہے کہ اسلام جب حق ہے تو اسے چھپانا اور گھٹ گھٹ کر جینا کیسا؟ مگر مجھے یہ خیال آجاتا ہے کہ جب ایک ایسے آدمی کو جس کی وجہ سے بالکل تصور کے خالف اسلام کی روشنی ایک گندی کو ملی، رہبر مان لیا ہے تو اب اس کا کہا ماننا ہی اچھا ہے۔

  سوال  : اپنی دوست ڈاکٹر رینا سہگل کو آپ نے بتادیا ؟
 جواب  : میں نے نہ صرف یہ کہ اس کو بتادیا بلکہ میں اور ڈاکڑ ولی اللہ دونوں اس پر لگے رہے اور الحمدللہ اس نے بھی کلمہ پڑھ لیا ہے مگر وہ شادی شدہ ہیں ان کے شوہر ڈاکٹر ۔بی ۔کے۔ سہگل اپنی کلینک کرتے ہیں، بڑے سخت مذہبی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں اور ادھر چند سالوں سے وہ رادھا سوامی ست سنگ سے جڑ گئے ہیں، اس لئے ان کی وجہ سے وہ دبی ہوئی ہیں۔

  سوال  : ڈاکڑ ولی اللہ سے آپ کا رابطہ ہے ؟
 جواب  :اصل میں کٹر ولی اللہ خوددل کے بیمار ہوگئے ان کو دل کی ایک ایسی بیماری ہو گئی جس سے رفتہ رفتہ دل کمزور ہوجاتاہے اور پھر اس میں ’پیس میکر ‘لگانا پڑتا ہے، و ہ اپنے علاج کے سلسلہ میں مجھ سے زیادہ رابطہ میں رہے، میں نے علاج میںبہت دلچسپی لی، ان کی شادی ایک سرکاری ملازمت پر لگی لڑکی سے ہوئی، انہوں نے اس کو شادی سے پہلے بتادیا تھا اور شرط بھی طے کر لی تھی کہ پہلے مسلمان ہوکر نکاح کرنا ہوگا پھر خاندانی رواج کے مطابق شادی ہوگی، انہوں اسے کلمہ پڑھو اکرنکاح بھی کیا مگر بعد میں وہ اسلام کی طرف زیادہ دلچسپی نہ رکھ سکیں، ان کی ملازمت بھی اس میں حائل رہی، اسلام سے ان کی بیوی کی دلچسپی نہ ہونا ان کو گھن کی طرح کھاتی رہی اوروہ دل  کے بیمار ہوگئے، ایلو پیتھک علاج کا ر گر نہ ہوا تو مولانا صاحب نے ان کو یونانی دوا اور کچھ خمیر ے وغیرہ بتائے، ا للہ کا کرم کہ وہ دو ماہ میں تقریباً بالکل ٹھیک ہوگئے، مولانا صاحب نے ان کو مشورہ دیا کہ وہ عرب ملکوں میں چلے جائیں اور اپنی بیوی کو وہیں بلالیں، ان کو ماحول مل جائے گا اللہ کا شکر ہے ان کو سعودی عرب میں ملازمت مل گئی اور اب گزشتہ ماہ انھوں نے اپنی بیوی کو بلالیاہے، ان کے جانے سے ان کا مسئلہ تو حل ہوگیا مگر میں اکیلی سی ہوگئی، ڈاکڑ رینا جس کا نام آپ کے ابی کے مشورہ سے فاطمہ رکھا گیا تھاان کے شوہر پرکٹر ولی اللہ کام کرررہے تھے اب اس میں کمی آئی ہے، میں ذراکھل کر ان سے بات نہیں کر سکتی۔

  سوال  : کیاآپ کے والد اور والدہ کو بھی آپ کے مسلمان ہونے کا علم ہوگیا ہے ؟
 جواب  :ہاں میں نے اپنے والد کو صاف صاف بتادیا ہے انہوں نے خوش دلی سے قبول نہیں کیا مگر اب رفتہ رفتہ ان کی کم از کم نا گواری کم ہوتی جارہی ہے۔

 سوال  : آپ کی شا دی ہوگئی یانہیں ؟
 جواب  :میرے والد میری شادی کے سلسلہ میں چھہ سات سال سے فکر مند ہیں، بہت اچھے اچھے رشتے خود ان کے شاگردوں کے آئے، مگر شاید میرے اللہ کو کچھ اور منظور تھا اس لئے میں اپنے کو تیار نہ کرسکی اور DM کرنے کا بہانہ کرکے منع کردیا، میں نے مولانا سے کئی بار اپنے اسلام کے اعلان کی اجازت مانگی مگر انہوں نے ابھی خاموشی سے گھر والوںپر کام کرنے کو کہا، جب میں نے اپنی نماز، روزہ کی تکلیف کا ذکر کیا تو مولانا صاحب نے ڈاکٹرولی اللہ کے جانے کے بعد مجھے بھی کسی عرب ملک میں ملازمت کے بہا نے جا نے کو کہا اور ڈاکٹر ولی اللہ صاحب سے بھی انہوں نے فون پر کسی جگہ کے لئے بات کی، الحمدللہ جدہ میں کنگ عبدالعزیزاسپتال میں میرا تقرر ہوگیا ہے اور مجھے دو سال کے لئے چھٹی مل گئی ہے، تین ماہ سے میں تیاری میں چھٹی پر ہوں،۔
                اسماء  بہن ! آپ نے شادی کا ایسا سوال کیا ہے کہ یہ سوال خود آپ کے لئے لطیفہ ہے کہ شاید آپ کے علم میں ہوکہ پی جی آئی چندی گڑھ کے ایک سرجن ڈاکٹر اسعد فریدی سے آپ کا رشتہ آیاتھا اور وہ بہت کوشش میں تھے کہ آپ سے ان کا رشتہ ہوجائے وہ اپنے ہسپتال کی تاریخ میں شیروانی اور داڑھی والے اکیلے ڈاکٹر تھے، مگر مقدر سے آپ کا رشتہ علی گڑھ میں ہوگیا تھا مولانا صاحب نے ایک بار مجھ سے معلوم کیا کہ اگر آپ راضی ہوں تو میں کو شش کروں، میں نے مولانا صاحب سے کہا کہ میرے لئے تو اس سے زیادہ خوشی کی کوئی بات نہیں ہوسکتی، مگر ایک طرف تو آپ کا اسلام کا اعلان کرنے کی اجازت نہیں دیتے دوسری طرف یہ فیصلہ کس طرح ہوسکتا ہے انہوں نے مجھ سے کہا ہے کہ آپ پہلے راضی ہوں تو میں مسئلہ حل کرتا ہوں میں نے منظوری دیدی، انہوں نے ڈاکٹر اسعد اور ان کے والد اور والدہ سے مجھے ملایا، دونوں طرف لوگ بہت مطمئن اور خوش ہوئے، انہوں نے چند لوگوں کو بلاکر میرا نکاح کر دیا، اللہ کا کرنا ڈاکٹر اسعد کی پوسٹنگ بھی جدہ کنگ عبدالعزیزاسپتال میں ہوگئی انہوں نے بھی اپلائی کر رکھا تھا، وہ جدہ ۶؍ستمبر کو چلے بھی گئے میرا ویزہ وغیرہ آنے والا ہے، خداکرے جلدی آجائے، میری خواہش ہے کہ اللہ تعالیٰ اسی سال ہی حج کرادیں۔

  سوال  : ایک داڑھی شیروانی والے مسلمان سے شادی آپ کو اپنے ماحول کے لحاظ سے عجیب سی نہیں لگی؟
 جواب  :الحمدللہ بالکل نہیں، میرے اللہ کا شکر ہے کہ اسلام کی ہر بات مجھے اندر سے پسند ہے سچی بات یہ ہے کہ اسلام میرے اندرکا فطری مذہب ہے، جب میں نے سنا کہ میرے شوہر ڈاکٹراسعد پی جی آئی کی تاریخ میں شیروانی داڑھی والے اکیلے ڈاکٹر ہیں، تو میرا دل چاہا کہ میں اسلام کا اعلان کرکے برقعہ اوڑھ لوں اور آل انڈیا میڈکل انسٹی ٹیوٹ آف میڈکل سائنس میں اکیلی برقع والی ڈاکٹر بنوں، مگر مولانا صاحب نے میرے اس جذبہ کی بہت حوصلہ افزائی کرتے ہوئے ابھی دو چار سال سعودی رہ آنے کو کہا، میرا خیال ہے اور مجھے اس خیال سے بھی مزا آتا ہے کہ پورے اسپتال  میں اکیلی برقعہ والی نومسلم ڈاکٹر ِ، پورے اسپتال کے لوگوں کے اسلام کے جاننے کی طرف ایک قدم ضرور ہوگا۔

  سوال  : آپ نے اپنے والدین کی اجازت کے بغیر شادی کرلی، اس سے آپ کے والدین کو تکلیف نہیں ہوگی؟
 جواب  : میرا نکاح تو اچانک ہی ہوگیا، مگر مولانا صاحب نے میرے والد، والدہ کو جب لڑکے کو دکھایا اور بتایا کہ ایک پیسہ یا انگوٹھی جہیز کے بغیر یہ شادی ہوگئی اور سماج کے جھگڑے سے بچنے کے لئے یہ کریں گے کہ پہلے ڈاکٹر اسعد صاحب جائیں گے اور بعد میں ڈاکٹر شالنی جائیں گی، کسی کو پتہ بھی نہ لگے گا اور بعد میں یہ خیال رہے گا کہ سعودی عرب جاکر یہ شادی ہوئی ہوگی، تو برادری اور عزیزوں کو زیادہ برا نہیں لگے گا، وہ راضی ہوگئے خصوصاًڈاکٹر اسعد کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے، بار بار مجھ سے میرے والد  کہتے کہ شالنی تیری قسمت ہے !چاند سا دولہا تجھے مل گیا، واقعی وہ مجھ سے بہت خوبصورت ہیں، وہ ڈاکٹر اسعد کو دہلی ائیر پورٹ تک چھوڑنے آئے اور بہت پیار بھی کیا۔

  سوال  :   واقعی آپ بہت خوش قسمت ہیں اللہ نے غیب سے آپ کا ایسا اچھا انتظام کیا؟
 جواب  :  بلا شبہ میرے اللہ کا بہت کرم ہے میں جب بھی خیال کرتی ہوں، اپنے اللہ کے حضور سجدہ میں دیر تک پڑ جاتی ہوں واقعی میں اس لائق کہاں تھی، کفر وشرک کے اندھیرے میں مجھے اسلام نصیب ہوا، یہ اس گندی پر میرے مالک کا کرم ہے۔

  سوال  :  آپ نے اپنے گھر والوں کو اسلام کی دعوت نہیں دی؟
 جواب  :  اللہ کا شکر ہے میں رفتہ رفتہ کام کررہی ہوںاور اب اسلام سے ان سبھی کا فاصلہ بہت کم ہوتاجارہاہے۔

  سوال  :  ارمغان کے واسطے سے مسلمانوں کو آپ کوئی پیغام دیناچاہیںگی؟
 جواب  : میرے دل میں یہ بات آتی ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی اس ترقی یافتہ دنیا کو صرف اسلام کی ضرورت ہے اور اسلام کے بغیر یہ دنیا بالکل کنگال ہے، اسماء بہن یہ میں کوئی شاعری نہیں کررہی ہوں، بلکہ اس ترقی یافتہ دنیا کو بہت قریب سے دیکھ کر یہ بات کہتی ہوں، اس کنگال دنیا کو صرف اسلام بنا سکتا ہے ورنہ یہ دنیا دیوالیہ ہوگئی ہے، اس کے دیوالیہ پن اور اندھیرے کا علاج صرف اور صرف اسلام ہے اور یہ دولت صرف اور صرف مسلمان کے پاس ہے پھر بھی اس کنگال دنیا سے ہم مرعوب کیوں ہیں ؟مجھے افسوس اور حیرت ہوتی ہے جب میں یہ محسوس کرتی ہوں کہ اس دیوالیہ اور اندھیری دنیا میں اپنے پاس دیوالیہ پن کا علاج اور سب سے بڑی دولت رکھنے کے باوجود ہم احساس کمتری میں مبتلا کیوں ہیں؟ہمیں اس پر شکر ہوناچاہئے بلکہ فخر ہونا چاہئے اور اس دیوالیہ دنیا پر ترس کھانا چاہئے، ہمیں اس معنی میں اپنے کو سخی اور دنیا کو حقیر سمجھناچاہئے بس۔ 

  سوال  : بہت بہت شکریہ ڈاکٹر صفیہ!  السلام علیکم و رحمۃ اللہ ، فی امان اللہ،
 جواب  :  آپ کا شکریہ اسماء بہن ! وعلیکم السلام و رحمۃ و بر کا تہ


                                                                   مستفادازما ہ نا مہ ارمغان، ڈسمبر  ۲۰۰۵؁ء   

<<< پچھلا صفحہ اگلا صفحہ >>>

تعمیر نیوز

اس بلاگ کی مذید تحاریر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

Powered by Blogger.