April 2016

بلبلِ محراب نبوی؛ شیخ محمد ایوب برمیؒ ...... راہی حجازی

بلبلِ محراب نبوی؛ شیخ محمد ایوب برمیؒ

.......... راہی حجازی
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
  
اسّی کی دہائی کا سورج غروب ہورہا تھا اور نوے کی دہائی کا خورشید مطلع پر نمودار ہونے کیلئے پا برکاب تھا ۔ بچپن ہمارا اپنی تمام تر معصومیتوں اور شرارتوں کے ساتھ جاری تھا۔ ماہ و سال کی گردش نے رمضان تک بھی پہنچایا۔ نابالغ ہونے کی بنا پر تراویح میں اپنے کسی بڑے بھائی کا سامع بننا یقینی تھا سو بنے۔ معمول ہمارے ہاں یہ تھا کہ اگلے دن کا پارہ رات میں ہی یاد کیا جاتا۔ پوری رات پارہ یاد کرنے اور اسکو دہرانے میں گذاری جاتی،پھر سونا ہوتا بعد فجر۔ہم بھی چونکہ سامع بن چکے تھے اس لئے رات میں سونے کا اب کوئی مطلب نہیں تھا، پارہ یاد کرنے والوں کی جماعت میں ہم بھی شریک ہوچکے تھے۔ پارہ یاد ہو چکنے کے بعد چند بڑے بھائی چھت پر جاتے۔کافی وقت گذارنے کے بعد وہ نیچے آتے۔ ہمیں لگتا کہ یہ کوئی عمدہ سی کھانے کی چیز چھت پر لیجاتے ہیں اور تھور تھار کے نیچے آتے ہیں۔ راتیں رمضان کی ان دنوں ٹھنڈی ہوچلی تھی۔ اسّی کی دہائی میں آنے والے رمضان اگرچہ انتہائی گرم رہے تھے، مگر نوے سے خنکی کا آغاز ہوچکا تھا۔ ایسی ٹھنڈی راتوں میں ہم نے بھی چھت پر جانا چاہا تو بھائیوں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں ہمیں لے لیا کہ بتائیں تجھے! چپ چاپ نیچے مرا رہ.......... انکو اصل خدشہ اس بات کا تھا کہ اس بچے کو اگر ٹھنڈ میں کچھ ہو ہا گیا تو امی سے ڈانٹ ہمیں سننی پڑ جائے گی۔ ویسے بھی رمضان میں حافظ ‌؛ عید کے موقعے سے دودھ کے مانند وہ سامانِ ضرورت بن جاتا ہے جس کے بغیر چارہ کار نہیں ۔اسکی مصروفیت کا عالم یہ ہوتا ہے کہ تقریبا پورے مہینے اسکو نہ چھٹی ملتی ہے اور نہ ہی بیمار وغیرہ پڑ کر وہ رخصت لینے کا روادار ہوسکتا ہے۔ خیر ایک دو دن تو دال نہ گل سکی۔ کوشش ہم نے ہر بار کی۔ چار پانچ دنوں بعد کسی بھائی کو ہم پر ترس آگیا اور یوں ہم ان گریٹ 4 کی دیوار ِاتحاد میں اپنا معصومانہ نقب لگانے میں کامیاب ہوگئے۔ ہمیں گرم کپڑا لانے کی تلقین کردی گئی۔ ہم ایک نہیں دو گرم کپڑے لیکر موجود۔چھت پر جاتے ہوئے ہم دانتوں کو اندر اندر تیز کرتے رہے کہ آج کوئی تگڑی چیز ہاتھ لگنے والی ہے۔ ہاتھ کیا جی منھ کہئیے ۔ دیکھتے کیا ہیں کہ چھت پر جاکر بھائیوں نےتھیلے میں سے ایک ریڈیو نکالا (یاد کر لیجئے کہ یہ اسی کی دہائی کا اختتام اور نوے کے عشرے کے آغاز کی بات ہورہی ہے ، ان دنوں شریف گھرانوں میں ریڈیو انتہائی معیوب سمجھا جاتا تھا۔آج؛ خدا جھوٹ نہ بلوائے تو یہ گناہ گار لکھنے کی جسارت کرے کہ ٹیلی ویژن بھی اب ایسا معیوب نہ رہا۔ ایسے ایسوں کے ہاں ٹی وی دیکھنے کو ملا کہ شروع میں تو تراہ ہی نکل گیا،بھونچکا ہی رہ گیا،حیرت سے آنکھیں ہی ابل آئیں۔ بعد میں جب کثرت سے ایسے مناظر سامنے آئے تو عقل و نظر دونوں ہی بے حس ہوگئے اور اٹس نورمل کہہ کر اپنی راہ چلتے بنے۔ یہی حال تصویر کے باب میں بھی دیکھنے کو ملا ہے )بہر کیف واپس پیچھے چلتے ہیں۔ تھیلے سے ریڈیو نکالا گیا .......... چھوٹا سا ریڈیو تھا، تقریبا اٹھ بائی بارہ انچ کا۔ سرخاب کے پروں کے مانند لال بھبھوکا ۔ دائیں طرف اس کے فریکونسی کے حساب سے اسٹیشن سیٹ کرنے کا نظام۔ نظام بھی بعد کے ترقی یافتہ نظام؛ عمودی شکل یا دائیں سے بائیں ہونے کے محرابی شکل میں تھا۔ متعینہ اسٹیشن پر پہنچنے کیلئے بطور علامت چلنے والی تِلّی کے بجائے ایک سفید رنگ کا بڑا سا نقطہ۔ اسی نقطے کو اوپر نیچے کرکے مطلوبہ اسٹیشن پہنچنا ہوتا تھا.......... غرضیکہ ریڈیو نکالا گیا۔ مطلوبہ اسٹیشن کی تلاش شروع ہوئی۔ کبھی میڈیم وے پہ تلاش کیا جاتا تو کبھی شارٹ وے بھی۔ اس دوران میں ریڈیو کی گھوں گھوں کی آواز لگاتار۔چونکہ بارہ سے اوپر کا وقت ہوتا اس لئے صوبائی اور مرکزی اسٹیشن بھی خاموش۔۔۔۔۔ آج کا زمانہ نہیں کہ شیطان کی آنت کی طرح چوبیس گھنٹے نون اسٹوپ بک بک جھک جھک ۔ اسی گھوں گھوں کی آواز میں پانچ سات منٹ کی کوشش کے بعد کامیابی ملی اور ایک انتہائی مہین آواز ریڈیو کے چھوٹے سے اسپیکر پر بلند ہوئی جس میں ایسا محسوس ہوا کہ کوئی صاحب قرآن کریم کی تلاوت فرما رہے ہیں۔‌‌"‌‌بس بس۔۔۔۔ یہیں سیٹ کردو‌‌"‌‌۔۔۔۔۔ دیگر بھائیوں نے یاد دہانی کرائی۔۔۔۔ سیٹ کرنے والے نے سوت برابر اوپر نیچے کرکے زیادہ سے زیادہ فریکونسی حاصل کرنے کی کوشش کی اور ایک مرکزی نقطے پر سفید نقطے کو لاکر ریڈیو کو اس جگہ رکھ دیا جہاں فریکونسی زیادہ سے زیادہ ملنے کا قصباتی گھریلو تجربہ کئی بار کیا جاچکا تھا اور اس ریڈیو کے گردا گرد ہالہ بنا کر بیٹھ گئے۔ وہ آواز جو مہین تھی قدرے صاف ہوئی۔ کچھ لمحوں بعد تو اتنی واضح اور صاف ہوگئی کہ بدیہی طور پر ایک بچے نے بھی جان لیا کہ کوئی صاحب تراویح پڑھا رہے ہیں۔ رکوع سجدے جو ہورہے تھے.........


اس صغر سنی میں دو جھٹکے بڑے زور سے لگے۔ ایک یہ کہ کیاتراویح میں بھی فرض نماز کی طرح اتنے سکون سے قرآن پڑھا جاسکتا ہے؟؟؟ جس نے صرف یعلمون تعلمون سمجھ میں آنے والے ماحول میں آنکھ کھولی ہو اس کیلئے یقینا یہ خوشگواری کا جھٹکا تھا۔ دوسرے یہ کہ کیا قرآن کو اتنا میٹھا اور شیریں بھی پڑھا جاسکتا ہے؟؟؟

.......... الغرض کبھی ریڈیو کی گھوں گھوں شیخ کی تلاوت پر غالب تو کبھی تلاوت گھوں گھوں پر غالب۔ اکثر گھوں گھوں غالب رہتا، مگر جتنی دیر تلاوت کو غلبہ حاصل ہوتا اس میں کان و دماغ کیلئے اتنا سامانِ ترنم و سرور ضرور ہوتا تھا جو گھوں گھوں کے موجودہ دورانئے اور تلاوت کے اگلے غلبے تک کام کرجاتا تھا۔ یہ تھا ہمارا پہلا تعارف  شیخ محمد ایوب برمیؒ  سے ــــــ

یہ نام تو ہم آج لکھ رہے ہیں،اس وقت تو نام بھی معلوم نہ تھا۔ نہ ہمیں نہ بھائیوں کو۔ نام معلوم ہونے کی بھی ایک الگ داستان ہے۔ وہ پھر کبھی اگر اللہ نے چاہا تو ــــــ یہ جو شیخ کی آواز اور طرز کو انتہائی شیریں لکھا گیا ہے یہ حقیقی معنی میں لکھا گیا ہے۔ محض یونہی رسما نہیں لکھ دیا گیا۔ آج تو الحمد للہ آپکو گھر گھر عمدہ آواز اور شیریں طرز والے مل جائیں گے۔ مگر بات جس زمانے کی ہورہی ہے وہ زمانہ آواز و طرز کے باب میں انتہائی قحط الرجال کا زمانہ تھا۔ ایسے ویسے دیہاتی طرز والے بھی،جنکو اب ایک نماز میں بھی برداشت نہ کیا جاسکے، قاری و مقری بنے ہوئے تھے۔ ایسے عالم میں شیخ برمی رحمہ اللہ کی آواز ریڈیو کے واسطے سے دنیا بھر میں گونجی۔آج کی نسل کو شاید انکا طرز اتنا اچھا نہ لگے کہ آج کی نسل اس باب میں چھکی پڑی ہے،اپھری پڑی ہے۔ شیخ برمیؒ کی آواز سے قبل ہمارے دیار میں شیخ عبد الباسط عبد الصمد رحمہ اللہ کی آواز پہنچ چکی تھی۔ انکی ترتیل نے بھی وہ سماں باندھا تھا کہ ایک عالَم کے دلوں میں شیخ عبد الباسط ؒکا قیام رہا۔ ترتیل کے باب میں راقم سطور کے دل میں آج بھی شیخ عبد الباسطؒ ہی قیام کرتے ہیں،بہتوں کو سنا مگر کوئی اور انکی جگہ نہ لے سکا۔ شیخ عبد الباسط کی تدویر بھی سنی تھی مگر اس میں وہ بات کہاں شیخ عبد الباسط کی سی۔ تدویر کے باب میں پہلا بندہ جس نے دل کے در و دیوار کو ہلا ڈالا وہ شیخ ایوب برمی رحمہ اللہ ہی تھے۔ آج بھی جب میں اس دور کو یاد کرتا ہوں تو بیخود ہونے لگتا ہوں۔ ٹھنڈی اور خاموش راتوں میں شیخ کا لہراتا ہوا طرز ریڈیو سے جب ابھرتا تھا تو گرم کپڑوں کے ساتھ بدن بھی گرم ہوجاتا تھا۔ من کرتا تھا کہ یہ زائد گرم کپڑے اتار پھینکئے اور کم از کم ایک بار تو دھمال ڈال ہی دیجئے کہ دل کی بے کلی و خلش کو کچھ تو قرار آئے ۔ مگر ارد گرد سارے بڑے بھائی تھے، وہ بھی کمبخت (ابتسامه) سارے دیوبندی الولاده۔ ہاتھ وہ پڑتا کہ سارا وجد و حال کافور ہوجاتا۔ خاص طور سے جب شیخ صاحبؒ اپنی آواز اور طرز کو اٹھاتے تھے۔قابو اتنا تھا کہ اٹھانے کے باوجود طرز کی نغمگی،لہراہٹ اور سحر انگیزی میں بال برابر بھی فرق نہیں آنے دیتے تھے، بس یہی وہ لمحہ ہوتا تھا جب ہم اپنے دل و جگر کو لخت لخت پاتے تھے، ٹکڑے ٹکڑے پاتے تھے۔۔۔۔ یہی حال شیخ عبد الباسط عبد الصمدؒ کی ترتیل میں بعض سورتوں کے سنتے وقت پیش آتا ہے۔ بالخصوص انکی سورہ مریم۔ اُس میں بھی بالخصوص تتساقط علیک رطبا جنیا والی قراءت ایک کمزور دل آدمی کو رلا دینے کیلئے کافی ہے .................... 

................ جاری بشرط وقت............................... 

<<< پچھلا صفحہ اگلا صفحہ >>>

تعمیر نیوز

اس بلاگ کی مذید تحاریر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

Powered by Blogger.