November 2011

۔ ۔ ۔ ۔ ۔میں اپنی اچھی عادت کیوں چھوڑ دوں؟

دریا کے کنارے وضو کیلئے بیٹھ کر انہوں نے دریا کی طرف پانی کیلئے ہاتھ بڑھایا تو حضرت خواجہ خواجگان حضرت گیسودراز رحمة اللہ علیہ نے دیکھا ایک بچھو دریا کے بہاؤ سے باہر نکلنے کی کوشش کررہا ہے مگر دریا کا تیز بہاؤاس کو کامیاب نہیں ہونے دیتا‘ ان کے دل میں خیال آیا یہ بچھو اللہ کی مخلوق ہے مجھے اس کی مدد کرنی چاہیے۔
یہ سوچ کر انہوں نے بچھو کو پانی سے نکالنے کیلئے پانی میں ہاتھ ڈالا‘ بچھو ہاتھ میں اٹھا کر جیسے ہی باہر نکالنا چاہا وہ تو بچھو تھا‘ اس نے فوراً ہاتھ میں ڈنک مارا‘ ڈنک مارنے سے تکلیف ہوئی اور بچھو ہاتھ سے چھوٹ گیا‘ خواجہؒ نے ہاتھ کو دبایا ڈنک نکالنے کی کوشش کی اور پھر وضو کیلئے ہاتھ بڑھایا تو انہوں نے دیکھا وہ بچھو الٹے پلٹے لے کر پھر دریا سے نکلنے کی کوشش کررہا ہے۔ خواجہؒ نے اپنا فرض سمجھ کر پھر اس کو نکالنے کیلئے ہاتھ بڑھایا جیسے ہی بچھو کو ہاتھ میں اٹھایا اس نے ڈنک مارا بچھو ہاتھ سے چھوٹ گیا دوسری بار پہلے سے بھی زیادہ تکلیف دی۔ کچھ دیر کے بعد پھر وضو کیلئے ہاتھ بڑھایا اور بچھو کو پھر اسی حالت میںپایا اور پھر ازراہ رحمت نکالنے کیلئے ہاتھ میں اٹھایا‘ بچھو نے تیسری بار بھی ڈنک مار دیا اور چھوٹ کر دریا میں گرگیا۔
ایک نوجوان دور بیٹھا یہ تماشہ دیکھ رہا تھا اس سے رہا نہ گیا اور وہ خواجہ گیسو دراز رحمة اللہ علیہ کے پاس آیا اور بولا آپ مجنون ہیں یا دیوانے؟ جواب دیا آپ کو کیوں غم ہے؟ نوجوان بولا یہ بچھو بار بار آپ کے ہاتھ میں ڈنک مار رہا ہے اور آپ بار بار اس کو دریا سے نکالنے کی کوشش کررہے ہیں۔ خواجہ گیسودراز رحمة اللہ علیہ نے جواب دیا‘ بیٹا تم ٹھیک ہی کہتے ہو مگر مجھے یہ خیال آرہا ہے کہ ۔ ۔ ۔ ۔  یہ بچھو ہے‘ اللہ نے اس کی فطرت اورسرشت میں ڈنک مارنا رکھا ہے میں نبی رحمة اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کا غلام ہوں‘ میری فطرت میں اللہ کی مخلوق کی خدمت اور مدد کرنا ہے‘ مجھے یہ خیال آرہا ہے کہ جب یہ اپنی بری عادت نہیں چھوڑ رہا ہے تو میں اپنی اچھی عادت کیوں چھوڑ دوں؟

نبی ؑ کا لباس ۔ ۔ ۔


 حال کی بقر عید گاؤں میں گذری – ایک لمبے عرصے کے بعد   دوست اور عزیز و اقارب سے ملاقاتیں ہوئیں – ایک عجب سا احساس ہوتا ہے جب  بڑی مدت کے بعد اپنے عزیز واقارب  اور دوست و احباب کا ملاپ ہوتا ہے ' جو ناقابل بیاں ہے- ان ہی دنوں میں ایک دوست کے ہمراہ چہل قدمی کے دوران  ہم دونوں ایک دوسرے سے اپنے خیالات شیئر کر رہے تھے کہ  اچانک میرے دوست نے  ایک  اعتراض کے بارے میں بحث کی  جو کہ اس سے ایک جان پہچان والے شخص نے ( جن کا نام لینا مناسب نہ ہوگا ) کیا تھا  "   کہ ہمارے نبی  صل اللہ علیہ و سلم    کی ولادت  اگر یورپ  میں  ہوتی تو کیا وہ ( یورپی تہذیب  کے مطابق) پینٹ شرٹ اور سوٹ بوٹ کو نہ استعمال کرتے اور آیا یہ کہ  کیا وہی لباس  سنت نہ کہلاتا ؟؟؟ "

اب مجھ سا جاہل شخص تو اس کا جواب کیا دیتا ۔ بس علماء اکرام سے سنی سنائی  کچھ باتیں ' جو اس عنوان کے تحت مجھے یاد تھیں وہی اس کے سامنے بیان کی – اب تھوڑا سا وقت فرصت کا ہے اس لئے خیا ل آیا کہ تھوڑا س بارے میں کچھ لکھ ہی دہ  ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میرے بات ۔

ہائے ! میرے عزیز  - بات یہ ہے کہ جس کو جس سے جتنا تعلق ہوتا ہے  ' اس کو اس کی اداؤں سے اتنی ہی محبت ہوتی ہے ۔  دنیا کی ہی بات لیجئے ۔ کو جس کا فین ہوتا ہے بس اس کا حال چال' اس کی چال چلن' اس کا اسٹائل  ویسا  بن جاتا ہے جسے وہ پسند کرتا ہے ۔  کوئی  شاہ رخ کو عزیز رکھتا ہے تو وہ اس کی ا داؤں کا دیوانہ ہو جاتا ہے ' کوئی سلمان  کو پسند کرتا ہے تو اس کی اسٹائیل کو اپنا  نصب العین  بنا لیتا ہے – وہ خود کو  اپنے محبوب کے اسٹائیل میں ڈھالنے کی کوشش کرتا ہے ۔  کالج میں میرا ایک دوست جو اب  بھی نئی ممبئی میں مقیم ہے' اسے  شاہ رخ  خان سے لگاؤ تھا۔ بس  ۔۔۔۔ اب جس  طرح کی ہیر اسٹائیل شاہ رخ کی ' اسی طرز  پر بال وہ بھی سنوارے' جس طرح کے کپڑے شاہ رخ پسند کرے ، اس کے کپڑے بھی اسی سے ملتے جلتے' جس طرح  کا چشمہ شاہ رخ کا' اسی طرح کا وہ بھی خریدے' غرض یہ کہ ہر وہ چیز جو شاہ رخ  کرے ' یہ بندہ  اس کی ہر ادا کی نقل کرے ۔ اب بتاؤ کہ ایک بے وقوف کی نقل کرنے والے کی تو ہم واہ واہی کریں اور اس  بنی ؑ  کی نقل کرنے  اور اس کی سنتوں پر عمل کرنے ' اور اس کی زندگی کو اپنانے  ہم  تنقیدوں اور اعراضات کی بوچھار کریں  ؟ ؟ ؟  جس کو رب کائنات نے سارے عالم کے لئے نمونہ یا ہیرو  بنا کر بھیجا ہے  '

میرے دوست ! اصل بات یہ کہ ۔ ۔ ۔
  •   ہم نے اس نبیؑ  سے محبت ہی نہ کی۔
  • ہم نے اس کو اپنا ہی  نہ سمجھا۔
  •  ہم نے اس کو دل میں جگہ ہی نہ دی۔
  • ہم نے اس کو دل میں ہی نہ بسایا۔
  •  ہم نے اس کو پہچانا  ہی نہیں۔  ۔ ۔

لوگ تو یہ کہتے ہیں کہ ہمارے اس سے  محبت کے دعوے تو صرف زبانی ہیں' مگر مجھے تو یہ ڈر ہے کہ ہمارے یہ دعوے زبانی بھی ہیں یا نہیں ۔

آخر میں یہ کہوں گا کہ ہاں  ۔ ۔ ۔   میرا نبیؑ جس لباس کو پسند کرتا وہی ہماری پسند ہوتی  ۔ پھر چاہے وہ کرتا  پاجامہ  ہو یا سوٹ اور کوٹ ۔  

علامہ اقبال رح نے بھی کیا خوب فرمایا تھا  ۔ ۔ ۔

بھجی عشق کی آگ' اندھیر ہے 
مسلمان نہیں' خاک کا ڈھیر ہے

شکوہ خیال سومیشوری ۔ ۔ ۔

اے خدا دنیا میں کیا تجھ کو نہ میری یاد ہے
یاد ہے پھر زندگی کیوں کر میری ناشاد ہے

کیا ہوئی مجھسے خطا جسکی وجہ میرے خدا
مجھ پہ ہوں لاکھوں ستم اور سمجھوں نہ بیداد ہے

ذندگی بخشی تونے یارب مجھے یوں زندگی
جس کے باعث آج تک میرا نہیں دل شاد ہے

زندہ رہوں یا کہ مروں تو ہی بتا دے کیا کروں 
میرے مولا سر پہ میرے غم کی گھٹا آباد ہے

کوئی نہیںسنتا یہاں تیرے بنا میرے خدا
سارا جہاں میرے لئے اب بن گیا جلاد ہے

کیا تجھے احوال اپنی زندگی کا میں کہوں ؟ ؟ ؟
سب تجھے معلوم کیوں ناشاد ہے برباد ہے

خیال کو گرداب الم سے بچا دینا ابھی
ایخدا تجھ سے  یہی ہر دم میرے فریاد ہے -

بقلم : خیال حسن سومیشوری : اتوار - 13 فروری سنہ 1955 

<<< پچھلا صفحہ اگلا صفحہ >>>

تعمیر نیوز

اس بلاگ کی مذید تحاریر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

Powered by Blogger.