March 2015

غزل : اب جو روٹھا ہے میرا یار' مناؤں کیسے ؟ ؟ ؟ ؟

احقر نے ایک کوشش کی ہے  ۔  آپ احباب کی نذر کرتا ہوں ۔ ۔ ۔    امید ہےپسند آئے گی اور آپ اپنی  دعاؤں سے نوازیں گیں  ۔ ۔ ۔ شکریہ 

اب جو روٹھا ہے میرا یار' مناؤں کیسے ؟
دل جو ٹوٹا ہے اب اس بار ' جڑاؤں کیسے ؟

ہم نے مانا کہ ہوئی ہم سے خطا پر اے دوست
ہم بھی تڑپے ہیں بہت بار ' بتاؤں کیسے

بڑا نادان ہے' دیوانہ بھی ہے دل اے نور
ہو  حجازی   پہ فدا دل تو ' سنبھالوں کیسے

ہوں معافی کا طلب گار مری نسیاں پر
بن معافی کے ترے در سے میں جاؤں کیسے

یوں نہ روٹھا کرو تم ہم سے کبھی چاہو تو
لے لو اب جان میری' تم کو مناؤں ایسے!!

نون میم 27- مارچ - 2015


حالات کے اعتبار سے انسان کی قسمیں .....


حالات کے اعتبار سے انسان کی قسمیں .....


جب انسان پر حالات آتے ہیں تب یہ تین اقسام میں بٹ جاتا ہے

اول  ۔ ۔ ۔

  وہ جو مصائب کے آنے سے قبل بھی رب کے شکر گزار تھے اور مصائب کے آنے کے بعد بھی اللہ کی شکر گزار ثابت ہوتے ہیں بلکہ مزید اپنے رب سے قریب ہو جاتے ہیں اور خود کےمحاسبے میں لگ جاتے ہیں کہ کون سی خطا پر رب ناراض ہوا جو نامناسب حالات آ گئے

دوم  ۔ ۔ ۔

 وہ جو خوشحالیمیں تو اپنے رب کو بھلا دیتے ہیں مگر جب.نا مناسب حالات.کا سامنا ہوتا ہے تو فورا" اپنے مالک کی طرف رجوع ہو جاتے ہیں اور اپنی بے فکری اور حکم عدولی پر توبہ و استغفار کرتے ہیں 

سوم  ۔ ۔ ۔

 وہ جو آسودگی میں بھی رب کے نافرمان ہوتے ہیں اور مصائب و پریشانی کے آنے پر تو ایسے بدبخت ہوجاتے ہیں کہ بجائے توبہ و استغفار کے؛ رب کریم کی شکایت کرنے لگ جاتے ہیں۔ ان پہ الزام دھرنے لگتے ہیں

اب ہم خود اپنا محاسبہ کریں اور دیکھیں کہ ہمارا شمار کون سی فہرست میں ہو رہا ہے

دعا ہے کہ اللہ ہمیں اول ( یا کم از کم دوم ) فہرست والوں میں سے بنائے اور تیسری قسم سے ہمیں محفوظ رکھے..

نون میم

آمین ... یا رب العالمین !!!

اردو ترجمہ کے لئے گوگل کروم کا ایکس ٹنشن




ایک بہت ہی مفید    ایکس ٹنشن   شیئر کر رہا ہوں.

 اگر آپ گوگل کروم استعمال کرتے ہیں تو یہ ایکس ٹنشن انسٹال کریں


اس کا فائدہ یہ ہے کہ کسی بھی ویب سائٹ پر لکھے ہوئے کسی بھی انگریزی لفظ کا ترجمہ معلوم کرنا ہو تو صرف اس لفظ کو سلیکٹ کریں. خود بخود ترجمہ ہو جائے گا.





مثال کے لئے درج ذیل فوٹو دیکھیں  ۔ ۔ 




حلالہ کیوں ۔ ۔ ۔ ۔ (حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم عالیہ )

حلالہ  کیوں ۔ ۔ ۔ ۔ (حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب  دامت برکاتہم عالیہ )

یہ خیال غلط ہے کہ  : حلالہ " کوئی تدبیر ہے جس پر عورت کو مجبور کیا جا رہا ہے ۔

اصل یہ ہے کہ جس شخص نے اللہ کی مقرر کی ہوتی تمام حدود کو پامال کرکے تینوں طلاقیں دے دیں وہ اب اس لائق نہیں  کہ ایک شریف عورت اس کے پاس رہے ۔ لہذہ حکم یہ ہے کہ اب اس سے نکا ح نہ کرو ، کوئی اور شوہر تلاش کرو ۔ ہاں !  اگر اس شوہر سےبھی نبھاؤ نہ ہو  اور وہ از خود طلاق دیدے ، تو اس صورت میں امید ہےکہ پہلا شوہر کچھ سبق حاصل کر چکا ہوگا ۔ اس لئے اگر اب اسے سے نکاح کرنے پر بیوی رضامند ہو  تو اس کی اجازت دیدی گئی ہے ۔

اور یہ جو محض حیلہ کے طور پر حلالہ کیا جاتا ہے  وہ شریعت کے منشاء کے خلاف ہے ۔۔

( فتاوی عثمانیہ ۔ جلد نمبر 1 ۔ صفحہ نمبر 138)
ناقل : نون میم
بشکریہ : جناب زبیر صاحب

بازارِ حسن : مولانا طارق جمیل

میانچنوں سے عبدالحکیم جاتے ہوئے راستے میں تلمبہ کا تاریخی شہر نظر آتا ہے - مؤرخین کے مطابق تلمبہ کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی حضرت انسان کی...اسے قبل مسیح میں توحید کے متوالے بادشاہ پرھلاد کا پایہ تخت ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہے اور ھندو مذہب کے ہیرو رام چندرجی ، رام لچھمن جی اور ان کی بیوی سیتا کی میزبانی کا بھی-
بس تمبہ کے قریب سے گزرتی ہے تو ایک نہایت پرشکوہ عمارت نظر آتی ہے.... یہ ہے مولانا طارق جمیل صاحب کا مدرسہ حصنات.....اور یہ عین اسی جگہ واقع ہے جہاں دس بارہ سال پہلے پاکستان کا سب سے بڑا اور قدیم بازار حسن تھا-
اس خطے میں جسے اسلامی جمہوریہ پاکستان کہتے ہیں...انگریز دور سے ہی تین بڑے بازار حسن قائم تھے.....لاہور....ملتان ....اور تلمبہ......کراچی کی لی مارکیٹ اور نیپئر روڈ بہت بعد کی پیداوار ہیں-

تلمبہ کا بازار حسن 1818 میں مہاراجہ رنجیت سنگھ نے قائم کیا ، اور وسط پنجاب میں ہونے کی وجہ سے یہ مقبول خاص وعام تھا - سینما تھیٹر اور ٹی وی کے دور سے پہلے یہاں کی رقاصائیں ملک کے کونے کونے میں اپنے فن کا جادو جگا کر تقریبات کا حسن دوبالا کرتی تھیں.....پھر وقت بدلا اور رقص و موسیقی نے باقاعدہ انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کا روپ اختیار کیا تو بازار بھی اس سے متاثر ہوئے- ان بازاروں کی اعلی کوالٹی ترقی کرتے کرتے پہلے فنکار....پھر آرٹسٹ اور بعد میں سیلیبریٹیز بن گئ... اور بچا کھچا سامان طوائف کا لیبل لگا کر جسم فروشی کے دھندے سے وابستہ ہو گیا - تلمبہ کے بازارحسن کی شہرت ضرب المثل کا درجہ رکھتی تھی..... پنجاب میں دیہاتی عورتوں کی کوئ بھی لڑائ ، ایک دوسرے کو "تلمبہ دی کنجری" کہے بغیر آج بھی پھیکی سمجھی جاتی ہے......

جولوگ اپنے گھر کا کچرا باہر گلی میں پھینک کر نصف ایمان کے درجے پہ فائز ہو جاتے ہیں....ان کےلیے یہ بازار قطعاً اس قابل نہ تھا کہ وہ اس کے بارے میں سوچ کر اپنا قیمتی وقت برباد کرتے- پھر ہمارے ہاں تو گندی نالیوں کی صفائ کےلیے بھی عموماً کرسچین رکھے جاتے ہیں .....نیک لوگ ایسی متعفن جگہوں سے منہ ڈھانک کر اور پائنچے چڑھا کر گزرتے ہیں...اور بد خصلت صرف رات کے اندھیرے میں ادھر جھانکتے ہیں......طارق جمیل غالباً وہ پہلا شخص تھا جس نے دن کے اجالے میں اس تاریک نگر کا رخ کیا -

شروع شروع میں مولانا کی یہ "حرکت" ان کے معتقدین کو بھی ناگوار گزری - بازار کے کرتا دھرتاؤں کو بھی اس پر اعتراض ہوا.....لیکن مولانا کا استدلال یہ تھا کہ دین سیکھنا ہر اس شخص کا حق ہے جس نے کلمہ پڑھ رکھا ہے..... بازار حسن سے تعلق رکھنے والے چونکہ مسلمان ہیں...اس لیے انہیں اس نعمت سے محروم نہیں کیا جاسکتا....

مولانا ایک مدت تک چارسو گھروں پر مشتمل اس کنجر محلہ میں جاتے اور ایک کونے میں بیٹھ کر درس قران دیتے رہے - آہستہ آہستہ پیشہ ور خواتین کی ایک معقول تعداد ان کے لیکچرز اٹینڈ کرنے لگی.....طارق جمیل صاحب انہیں میری بہنوں کہ کر مخاطب کرتے اور نماز کا درس دیتے...امہات المؤمنین کے ایمان افروز واقعات بتاتے......صحابیات کے قصے سناتے....اور کربلاء کی عفت ماب بیبیوں کا تزکرہ فرماتے.......آخر ایک روز ایک عورت نے کہا مولانا تم روز ہمیں درس تو دینے آجاتے ہو....لیکن ہمیں اس کا فائدہ کیا ہے....اگر ہم اس گندے کام سے توبہ بھی کر لیں تو کیا یہ معاشرہ ہمیں قبول کر لے گا.....لوگ تو ہمیں دیکھ کر تھوکنا بھی گوارا نہیں کرتے....ہمیں اپنائے گا کون !!!!

مولانا نے کہا کہ رب پر توکل کرو ....وہ فرماتا ہے...."تم میری طرف چل کر آؤ....میں دوڑ کر آؤں گا." ......تم ایک بار چل کر تو دیکھو....باقی رب پر چھوڑ دو.......تاکہ قیامت والے دن کوئ عذر تو ہو تمھارے پاس -

پھر مولانا نے یہ بات مختلف حلقوں میں چلائ.....اس کارخیر کےلیے ملک کے دور دراز علاقوں میں خفیہ و اعلانیہ مہم چلائ.....بہت سے نیک اور صالح نوجوان ان خواتین سے شادی کےلیے تیار ہوگئے .......اور آہستہ آہستہ...پاکستان کے اس تیسرے بڑے بازار حسن کی آبادی گھٹنے لگی.....کئ سال لگے...آخر ایک دن وہ بازار ویران ہوگیا.....اور طارق جمیل صاحب نے وہ جگہ خرید کر مدرسے کےلیے وقف کردی.
اس سب مساعی کے باوجود طارق جمیل میرا آئیڈیل نہیں ہے- وہ ایک انسان محض ہے- اس میں بے شمار عیوب بھی ہیں....میری آئیڈیل شخصیت وہی ہے جنہیں تاج نبوّت نوازنے سے کئ سال پہلے خالق کائنات نے شق صدر کر کے ، ان تمام کمزوریوں سے پاک فرمادیا تھا جو عام انسانوں میں ہوتی ہیں ....
لیکن مجھے فخر ضرور ہے کہ میرے آقا (ص) کا پندھرویں صدی کا امتی طارق جمیل جیسا ہے
نعرے بازی...احتجاج....کافر کافر....تبرا بازی......تو سب کرتے ہیں....کاش کوئ مصلح بھی ہو ...جو اسی حکمت و بصیرت سے معاشرے کا گند صاف کرے جس طرح چودہ سوسال پہلے میرے آقا نے اس بدو کا گند صاف کیا تھا جس نے مسجد میں پیشاب کردیا تھا- !

بشکریہ : جناب تابش قاسمی / میاں مون چودھری صاحب

<<< پچھلا صفحہ اگلا صفحہ >>>

تعمیر نیوز

اس بلاگ کی مذید تحاریر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

Powered by Blogger.