August 2014

ممبر ا کے سڑکیں ۔ ۔ جلوس کی نذر !!!


ممبر ا کے سڑکیں  ۔ ۔ جلوس کی نذر !!!
فی الحال  ۔ ۔   عرس و  غلاف کے جلوس   کا موسم ہے  ۔ ۔ ۔
پھر ۔ ۔  ۔ گنپتی کے جلوس  ۔ ۔ ۔
پھر  ۔ ۔ ۔ سیاسی جلوس   ۔ ۔ ۔
۔
۔
۔
ہائے  ۔ ۔ یہ جلوس کا سلسلہ کب رکے گا ؟ ؟ ؟
کب راستوں پر آسانی  کے ساتھ چلنا نصیب ہوگا  ؟ ؟   ؟ ؟

نورمحمد ابن بشیر




عجب حال ہے پاکستان کا ۔ ۔


عجب حال ہے پاکستان کا ۔ ۔


ایک شخص ۔ ۔
آتا ہے ( باہر سے)  ۔ ۔
نچاتا ہے  ۔ ۔ ۔
اور ۔ ۔
چلا جاتا ہے ۔ ۔ !!!!
نون میم 




کیا آج کے دور میں ہیں ایسے لوگ ؟؟؟

کیا آج کے دور میں ہیں ایسے لوگ ؟؟؟

کہتے ہیں کہ ایک اعرابی نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی کچھ لوگ اس کے پاس پوچھنے اور سببب معلوم کرنے آئے کہ اُس نے طلاق کیوں دی ؟ ؟ ؟
وہ کہنے لگا : کہ وہ ابھی عدت میں ہے ابھی تک وہ میری بیوی ہے مجھے اُس سے رجوع کا حق حاصل ہے میں اگر اس کے عیب تمہارے سامنے بیان کردوں تو رجوع کیسے کروں گا ؟؟؟
لوگوں نے انتظار کیا اور عدت ختم ہوگئی اور اس شخص نے رجوع نہیں کیا لوگ دوبارہ اُس کے پاس آئے تو اس نے کہا :
 اگر میں نے اب اس کے بارے میں کچھ بتایا تو یہ اُس کی شخصیت مسخ کرنے کے مترادف ہو گا اور کوئی بھی اس سے شادی نہیں کرے گا !!!
لوگوں نے انتظار کیا حتٰی کہ اس عورت کی دوسری جگہ شادی ہوگئی

لوگ پھر اُس کے پاس آئے اور طلاق کا سبب پوچھنے لگے
اس اعرابی نے کہا: اب چونکہ وہ کسی اور کی عزت ہے اور مروت کا تقاضا یہ ہے کہ میں پرائی اور اجنبی عورت کے بارے میں اپنی زبان بند رکھوں ۔"


(بشکریہ انتخاب سخن (

سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا - یوم آذادی مبارک !!!!


سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
ہم بلبليں ہيں اس کي، يہ گلستاں ہمارا

غربت ميں ہوں اگر ہم، رہتا ہے دل وطن ميں
سمجھو وہيں ہميں بھي، دل ہو جہاں ہمارا

پربت وہ سب سے اونچا، ہمسايہ آسماں کا
وہ سنتري ہمارا، وہ پاسباں ہمارا

گودي ميں کھيلتي ہيں اس کي ہزاروں ندياں
گلشن ہے جن کے دم سے رشک جناں ہمارا



اے آب رود گنگا، وہ دن ہيں ياد تجھ کو؟
اترا ترے کنارے جب کارواں ہمارا

مذہب نہيں سکھاتا آپس ميں بير رکھنا
ہندي ہيں ہم وطن ہے ہندوستاں ہمارا

يونان و مصر و روما سب مٹ گئے جہاں سے
اب تک مگر ہے باقي نام و نشاں ہمارا

کچھ بات ہے کہ ہستي مٹتي نہيں ہماري
صديوں رہا ہے دشمن دور زماں ہمارا

اقبال! کوئي محرم اپنا نہيں جہاں ميں
معلوم کيا کسي کو درد نہاں ہمارا

آہ ۔ ۔ ۔ فلسطین !!!


آہ ۔ ۔ ۔ ۔ 

کوئی اندازہ لگا سکتا ہے کہ اس بچے کے دل پر کیا بیت رہی  ہوگی  ؟ ؟ ؟ ؟



کیا یہ  ۔ ۔ ۔ فلسطینی ہونے کی سزا  ہے      ؟ ؟ ؟ ؟ 

تیرے پہلو میں جو مرتے ، توکچھ اوربات ہوتی ۔ ۔ ۔


میری زندگی کے تیور،   میرےہاتھ کی لکیریں
انہیں کاش تم بدلتے ، تو   کچھ اور  بات  ہوتی

میں تیرا  ہی آئینہ تھا ،  میں تیراہی آئینہ ہوں
مجھے دیکھ کر سنورتے   ،   تو کچھ اور  بات  ہوتی

ابھی آنکھ  ہی لڑی تھی ،    کہ گرا دیا  نظر  سے
زرا   فاصلے  جو  گھٹتے ،   تو  کچھ  اور  بات  ہوتی

یہ کھلے کھلے سے گیسو ا،  نہیں لاکھ تم سنواروں
میرے ہاتھ سے سنورتے،   تو کچھ اور بات ہوتی

مجھے  اپنی  زندگی  کا  ،  کوئی غم نہیں‌ہے لیکن
تیرے پہلو  میں جو مرتے ، توکچھ اوربات  ہوتی

شاعر : نا معلوم 


غدر کے - سو برس بعد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

آج کل بڑے زور شور سے پہلی جنگ عظیم کی صدی منائی جا رہی ہے لیکن اسی پہلی جنگ عظیم کےدوران ہونے والی ایک بڑی اہم فوجی بغاوت کے نہ تو تذکرے ہیں اور نہ ہی کوئی بحث ہو رہی ہے۔

سنگاپور میں برطانوی فوج میں شامل ہندوستانی اہلکاروں نے غیر ملکی حکومت کے خلاف 15 فروری کو بغاوت کی تھی جسے تقریباً بھلا ہی دیا گیا۔
سنگاپور میں 15 فروری سنہ 1915 کو پانچویں لائٹ انفنٹری کے تقریباً آٹھ سو فوجیوں نے بغاوت کی تھی اور باغی فوجی برطانوی افسروں کو مارتے ہوئے سنگاپور میں پھیل گئے تھے۔
غدر پارٹی کے بغاوت کرنے والے فوجیوں کا تعلق آج کے بھارت میں ہریانہ ریاست کے دیہات سے تھا۔ لیکن اب اس بغاوت میں شامل ہونے والوں کو یاد بھی نہیں کیا جاتا ہے۔
سنگاپور کی اس بغاوت میں 34 برطانوی فوجی اور 13 شہری ہلاک ہوئے تھے۔ لیکن برطانوی فوجیوں نے فرانسیسی اور روسی فوجوں کی مدد سے بالآخر اس بغاوت کو کچل دیا تھا۔
پکڑے گئے 205 باغیوں میں سے 47 کو آؤٹرام جیل کے باہر 15 ہزار افراد کی موجودگی میں گولی مار دی گئی تھی۔
فائرنگ سكواڈ کی بندوقوں کے سامنے کھڑے ان فوجیوں کی تصویریں اس وقت کے حالات کو بیان کرتی ہے۔
پانچویں لائٹ انفنٹری سنہ 1913 میں اکتوبر کے مہینے میں مدراس سے سنگا پور پہنچی تھی۔ ان فوجیوں نے غدر پارٹی کے بینر کے نیچے بغاوت کا پرچم بلند کیا تھا۔
غدر پارٹی اس وقت غیر ملکی حکومت کے خلاف مسلح جدوجہد کے لیے زبردست پرپیگنڈہ کر رہی تھی اور مکمل آزادی کا مطالبہ کر رہی تھی۔
امریکہ میں منتقل پنجابئیوں کی بنائی غدر پارٹی کے سربراہ بابا سوہن سنگھ بھكنا تھے اور مکمل آزادی کا مطالبہ کرنے والی یہ پہلی پارٹی تھی۔
کئی وجوہات کی بنا پر غدر پارٹی کا بھارت میں فوجی بغاوت کا پروگرام ناکام ہوگیا تھا لیکن سنگاپور میں مضبوط بغاوت ہوئی۔
یہ سارے فوجی پنجاب کے رنگڑھ مسلمان تھے۔ ان مسلم فوجیوں کے گاؤں گڑگاؤں جند، بھواني، حصار، روہتک اور پٹیالہ ریاست میں تھے۔
بد قسمتی سے انھیں علاقوں میں تقسیم کے وقت سب سے بڑا فساد ہوا تھا۔ گاؤں کے گاؤں قتل کر دیے گئے تھے یا پھر وہ لوگ کسی طرح پاکستان چلے گئے۔
بینسي، جمال پور، بليالي، چانگ اور گذراني جیسے گاؤں پاکستان سے آئے لوگوں نے ازسر نو آباد کیے۔ اب یہ تمام گاؤں ریاست ہریانہ میں ہیں۔
اب بغاوت کرنے والوں کی نئی نسلیں ان گاؤں میں نہیں رہتی ہیں اور جو رہتے ہیں ان کو سنگاپور کی اس تاریخی بغاوت کا معلوم ہی نہیں ہے۔
یہ سارے گاؤں فوج میں بھرتی کے لیے جانے جاتے تھے۔ ہر گاؤں سے سینکڑوں لوگوں نے پہلی جنگ عظیم میں حصہ لیا۔
ہر گاؤں سے درجنوں فوجی مارے گئے جن کی ياد میں ان کے نام کی تختیاں برطانوی فوج نے ان کے گاؤں میں لگوا دی تھیں۔ جمال پور میں تو اس کے تعلق سے يادگاري کالم بھی بنا ہوا ہے۔
سویڈن کی سٹاک ہوم یونیورسٹی میں سیاسی امور کے پروفیسر اشتیاق احمد کہتے ہیں کہ غیر ملکی حکومت کی مخالفت کرنے والے کئی اداروں کے ساتھ انصاف نہیں ہوا جن میں سے سنگاپور کی بغاوت بھی ایک ہے۔
غدر پارٹی کی تاریخ لکھنے والے مؤرخ ملوندر سنگھ وڑئچ کا کہنا ہے کہ ’غیر ملکی حکومت کے خلاف لڑنے والوں کو بھی اپنے اور غیر میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ہم آزادی کا لطف لے رہے ہیں لیکن آزادی کے لیے جان دینے والوں کو یاد نہیں کرتے۔
بھارتی ریاست پنجاب کے جالندھر میں غدر پارٹی کی یاد میں ایک میموریل ہال بنایا گیا ہے۔ یہاں لگنے والے سالانہ میلے میں سنگاپور کی بغاوت میں ہلاک ہونے والے فوجیوں کو خراج تحسین پیش کی جاتی ہے۔
اس میلے کے منتظمین میں شامل امولك سنگھ کہتے ہیں کہ ’لوگ ایسے لوگوں کی تاریخ اور حکومت حکومتوں کی تاریخ یاد رکھتی ہے۔

  

باطنی فیض . . . ڈاکٹر فدامحمد مدظلہ ( خلیفہ مولانامحمد اشرف خان سلیمانی ؒ )

فرمایاکہ ایک دفعہ ہمارے علاقے میں ایک تقریر ہورہی تھی۔ ہم نے سنا تھا کہ مقرر بڑی زبردست تقریر کرتے ہیں، بڑا مزہ آتا ہے۔ ہم بھی چلے گے سننے کے لئے۔ تقریر سنی واقعی بڑا جوش و خروش اور بڑا لطف و مزہ آیا۔

 واپس آئے تو ویسے ہی میرے دل میں خیال آیا کہ یہ جوش و خروش لطف و مزہ اور چیز ہوتی ہے اور نورانیت اور چیز ہوتی ہے بہر حال ہمیں کیا اندازہ۔
 ہمارے گاؤں میں ایک نقشبندیہ خانقاہ ہے، اس کے بڑے کاملین لوگ ہیں، ہم ان بزرگوں سے ملنے کے لئے گئے۔ اور لوگ بھی گئے۔ لوگوں نے تقریر کی کارگزاری سنائی تو بزرگوں نے فرمایا: ماشاء اللہ جوش و خروش بہت ہوتا ہے۔ انھوں نے اپنے آخرت کے لحاظ سے انتہائی محتاط رویے کی وجہ سے زیادہ تبصرہ نہیں کیا۔ بندہ کو تسلی ہوئی کہ واقعی انوار اور فیض کی علامت یہ ہوتی ہے کہ وہاں سے اُٹھنے کے بعد آدمی کی نیکی کی توفیق میں اضافہ ہوا ہو خواہ مزہ آیا ہویا نہ آیا ہو، جوش و خروش طاری ہوا ہو یا نہ ہوا ہو لیکن نیکی کی توفیق میں اضافہ ہوا تو سمجھیں کہ فائدہ ہوگیا ہے اور اگر نیکی کی توفیق میں اضافہ نہیں ہوا تو سمجھیں نرِا جوش و خروش تھا، یا کہنے والے میں کمی ہے یا سننے والے میں یا دونوں طرف سے ایک ہی حال ہے۔

 فائدہ کیا ہوا؟ کسی سلسلے کے حق ناحق ہونے کے بارے میں آدمی اگر آگاہی حاصل کرنا چاہے تو یہ دیکھے کہ اس میں جانے آنے والوں کی آخرت کی فکر اور آخرت کے اعمال کی فکر اور آخرت کے اعمال کی توفیق میں اضافہ ہورہا ہے کہ نہیں۔ اگر نہیں ہورہا ہے تو نری تحریک ہی ہے فائدہ اور فیض نہیں ہے۔




فلسطینی لوگ اور فلسطینی ڈاکٹر اصلی ہیرو ہیں . .ڈاکٹر میڈز گلبرٹ


غزہ پر اسرائیلی حملوں کے دوران وہاں کام کرنے والے ایک طبی ماہر کے مطابق ماضی کے برعکس اس بار اسرائیلی فوج نے منظم طریقے سے حملے کیے ہیں جس میں انھوں نے عام شہریوں کے مکانات کو ہدف بنایا ہے۔

ڈاکٹر میڈز گلبرٹ سے غزہ کی وزارتِ صحت نے درخواست کی تھی کہ وہ حالیہ بحران کے دوران غزہ کے الشفا ہسپتال آئیں۔ ڈاکٹر گلبرٹ کے مطابق یوں وہ ایک ڈاکٹر نہ کہ کارکن کی حیثیت سے غزہ گئے اور الشفا ہسپتال میں 15 روز تک کام کرنے کے بعد حال ہی میں ناروے واپس لوٹے ہیں۔

غزہ سے انھوں نے ایک خط لکھا جو مڈل ایسٹ مانیٹر یا ’میمو‘ کی ویب سائٹ پر شائع ہوا۔
اس خط میں ڈاکٹر گلبرٹ نے امریکی صدر براک اوباما کو براہِ راست مخاطب کرتے ہوئے کہا:
’مسٹر اوباما کیا آپ کا دل ہے؟ میں آپ کو دعوت دیتا ہوں کہ آپ ایک رات، بس صرف ایک رات، ہمارے ساتھ الشفا میں گزاریں۔
 مجھے سو فیصد یقین ہے کہ اس سے تاریخ تبدیل ہو جائےگی۔



یہ خط سوشل میڈیا پر وائرل ہو گیا۔ میں نے میڈز گلبرٹ سے پوچھا کہ جو رات ان کے خیال میں اوباما کا دل اور اس کے نتیجے میں تاریخ تبدیل کر سکتی ہے وہ رات کیسی ہے؟
اس کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ’اس رات ایک بہت بڑی تعداد میں زخمی ہونے والے عام شہری ہسپتال لائے گئے جن میں کئی بچے تھے اور شفا ہسپتال ایک جنگ زدہ علاقہ لگ رہا تھا۔
انھوں نے کہا کہ ’ہر جگہ مرنے والے یا مرے ہوئے لوگ نظر آ رہے تھے۔ کبھی کبھی آپ خود کو انتہائی بے بس محسوس کرتے ہیں۔ کام نہایت سخت ہے۔ ہسپتال میں جگہ جگہ گوشت کے ٹکڑے اور خون نظر آ رہا تھا۔

اس سوال پر کہ کیا ہر روز شفا ہسپتال میں ایسا ہی منظر پایا جاتا ہے؟؟؟؟     
 ڈاکٹر میڈز کہتے ہیں کہ ہمیں معلوم نہیں کہ اسرائیل کی طرف سے حملے کب ہوں گے اور ان کی شدت کیا ہوگی۔ انھوں نے مزید کہا کہ اس بار غزہ میں کسی ایک دن دس سے لے کر چار سو تک زخمی لوگ ہسپتال میں آتے ہیں اور شفا ہسپتال کے لیے سب سے بڑی مشک یہی ہے کہ وہ اتنی تعداد میں لوگوں کا کیسے علاج کریں گے۔

میڈز گلبرٹ کے لیے فلسطین کوئی نا آشنا جگہ نہیں ہے۔ وہ پہلی انتفاضہ (1993-1987) کے وقت سے غزہ کے صحت کے نظام سے وابستہ ہیں۔ میڈز کہتے ہیں کہ طبی خدمت فراہم کرنے کے علاوہ وہ فلسطین میں ’گواہ کی حیثیت‘ سے بھی جاتے رہے ہیں تا کہ وہ صورت حال کی تفتیش اور اس کے بارے میں حالات قلم بند کر سکیں۔ ڈاکٹر گلبرٹ اپنے اس کام کو ’سولیڈیرٹی میڈیسن‘ یا ’اتحاد میڈیسن‘ کہتے ہیں، جس کے تحت ’جن لوگوں کو شدید ضرورت ہے ان کی مدد کی جائے۔

ماضی کے تجربات کے مقابلے میں میڈز گلبرٹ کہتے ہیں کہ ’2009 اور 2012 کے حملوں کے مقابلے میں یہ اسرائیل کی جانب سے سب سے شدید حملہ ہے جس میں ایک بڑی تعداد میں لوگ مارے اور زخمی ہوئے ہیں جن میں سینکڑوں بچے بھی شامل ہیں۔

ڈاکٹر کے مطابق ’اس بار اسرائیلی فوج نے منظم طریقے سے حملے کیے ہیں جس میں انھوں نے عام شہریوں کے مکانات کو ہدف بنایا ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ ’بڑی تعداد میں ایک ہی خاندان کے لوگ ہسپتال آتے تھے جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ حملوں میں شہری آبادی کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق اس بحران میں ہلاک ہونے والے 85 فیصد فلسطینی عام شہری تھے جبکہ چار فیصد اسرائیلی عام شہری ہلاک ہوئے ہیں۔ یو این کے مطابق 16 ہزار تک گھر مکمل یا جزوی طور پر تباہ کیے گیے ہیں۔

ڈاکٹر میڈز کے مطابق یہ ایک شدید انسانی بحران ہے جو کہ اب تک جاری ہے کیوں کہ اس وقت غزہ میں 485 ہزار فلسطینی بے گھر ہیں جن میں سے کئی لوگ شفا ہسپتال علاج کے لیے آئے تھے اور ’ان کے پاس واپس جانے کے لیے اب کوئی گھر نہیں۔‘ ان کا کہنا تھا کہ مزید 9,300 زخمی لوگوں کو علاج کی ضرورت ہے۔

ڈاکٹر میڈز کی نظر میں اسرائیل کا حملہ حماس کے خلاف نہیں بلکہ ’فلسطینی لوگوں کے خلاف‘ ہے ۔

جاری جنگ بندی کے حوالے سے ڈاکٹر میڈز گلبرٹ کا کہنا ہے کہ فلسطینی ’ماضی کی طرح محض جنگ بندی نہیں چاہتے، بلکہ اپنا حق مانگتے ہیں۔ وہ غلاموں کی زندگی نہیں گزارنا چاہتے اور اس جنگ بندی کے دوران ان کے مطالبوں کو سنا جانا چاہیے۔

جب ان سے سوال کیا گیا کہ ڈاکٹر ہونے کے ناطے وہ بالخصوص کن چیزوں کی توقع کرتے ہیں تو گلبرٹ نے جواب دیا: ’بم دھماکے فوری طور پر روکے جانے چاہییں، محاصرہ ختم کر دیا جائے، سرحدوں کو کھول جائے تا کہ زخمی لوگوں کو غزہ سے باہر اچھا علاج مہیا کیا جا سکے اور ادویات کو غزہ میں آنے کی اجازت دی جائیں۔


ڈاکٹر میڈز پر اکثر تنقید کی گئی ہے کہ وہ اپنے پیشے کے ساتھ ساتھ سیاسی رائے رکھتے ہیں اور اسرائیل کے خلاف پروپگینڈا کرنے میں ملوث ہیں۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ اصل ’میڈز گلبرٹ‘ کون ہیں، تو انھوں نے کہا کہ ’میں ایک انسان ہوں اور جہاں بھی کسی کو مدد چاہیے ہو گی، چاہے وہ ناروے کے کسی گاؤں میں ہو یا غزہ میں تو میں اسی کی طرف داری کروں گا۔ ایک عام آدمی کی حیثیت میں میں جتنی بھی سیاسی رائے رکھتا ہوں، میں بس انصاف چاہتا ہوں۔

ناروے اور دنیا بھر میں کئی لوگ ڈاکٹر میڈز گلبرٹ کو ہیرو سمجھتے ہوں گے لیکن ان کہنا ہے کہ  ۔ ۔

’فلسطینی لوگ اور فلسطینی ڈاکٹر اصلی ہیرو ہیں

 وہ اپنے وقار سے ہمیں انسان ہونا اور انسانیت کا مطلب سکھا رہے ہیں۔





لَآ اِ کْرَاہَ فِی الدّیْنِ ۔ ۔ ۔ ڈاکٹر فدامحمد مدظلہ ( خلیفہ مولانامحمد اشرف خان سلیمانی ؒ )

غیر مسلم کو مسلمان کرنے کے لئے جبر نہیں ہے اور مسلمان کو فرض عمل پر ڈالنے کے لئے تو ڈنڈا ہے ۔ ۔۔
 ڈاکٹر فدامحمد مدظلہ  ( خلیفہ مولانامحمد اشرف خان سلیمانی    ؒ )

فرمایا کہ درس میں ایک آدمی سوال کررہا تھاکہ جبرتو دین میں نہیں ہے، میں نے کہا آپ جبر کسے کہتے ہیں؟ کہا کہ مثلاً یہ طالبان جو جبر کر رہے تھے، زور سے نماز پڑھا رہے تھے اور زبردستی لوگوں سے ڈاڑھی رکھوا رہے تھے۔

 میں نے کہا برخوردار !  لَآ اِ کْرَاہَ فِی الدّیْنِ  کا مطلب یہ ہے کہ غیر مسلم کو مسلمان کرنے کے لئے جبر نہیں ہے اور مسلمان کو فرض عمل پر ڈالنے کے لئے تو ڈنڈا ہے.
 وہ ٹھیک کررہے تھے، شریعت کا یہی حکم تھا۔ طالبان کی حکومت صالح حکومت تھی اور حکومت اور ا قتدار کی ذمہ داری یہی ہے کہ وہ ضروری کاموں کے نہ کرنے پر ان پر جبر کرے۔ اذان کے بعد محتسب بازار سے گزرتے ہوئے سب کی دکانیں بند کرائے گا۔ اب اگرکوئی دکان بند کرکے چھپ کر اندر بیٹھ گیااور نماز نہیں پڑھی تو اس کی اپنی مرضی ہے لیکن دکان بند کراکے مسجد کی طرف لے جا نے کا جبر کرے گا۔ مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ میں دکاندار اسی طرح دکان بند کرکے اندر بیٹھ جاتے ہیں۔
 ایک آدمی سعودی عرب میں سلسلے میں بیعت ہے، اس کی گھر والی نے شکایت کی کہ آپ سے بیعت بھی ہے، ڈاڑھی بھی رکھی ہوئی ہے لیکن مکہ مکرمہ میں رہتے ہوئے نماز نہیں پڑھتا اور یہ کہ میرانہیں کہو گے کہ بیوی نے شکایت کی ہے۔ خیر جب اس ساتھی نے مکہ مکرمہ سے ٹیلی فون کیا تو میں نے کہاکہ برخوردار! میں جب وہاں آپ کے پاس آیا تھا تو آپ مسجد میں نظر نہیں آئے، میں نے ساتھیوں سے پوچھا (واقعی پوچھا تھا) تو انھوں نے بھی بتایا کہ آپ مسجد میں نظر نہیں آتے۔ افسوس کہ آپ بڑے دُور ہیں ورنہ میں آپ کی پٹائی کرتاتوپھر آپ ٹھیک ہوجاتے۔


اصل عید !!!

عید سے ایک دن قبل  واٹس اپ پر ایک پہچان والے سے ہونے والی گفتگو آپ احباب سے شیئر کر رہا ہوں ۔

اللہ سبحانہ و تعالی اس کی اس عمل کو قبول کرے اور دارین کی کامیابی کا ذریعہ بنائے ۔ آمین

نوٹ  :  یاد رہے کہ یہ کوئی امیر زادہ نہیں ہے ۔ ۔ بلکہ عمان میں کسی فیکٹری میں کوئی مشین آپریٹر کا کام  کر رہا ہے  ۔  اس کے اس میسج نے  مجھے جھنجوڑ کر رکھ دیا  کہ ہم بس بات کرتے رہ گئے اور وہ بازی مار گیا ۔ ۔ 

 واقعی میں  ۔ ۔ ۔  اللہ جسے پسند کرتا ہے    ۔ ۔ ۔ اسے توفیق دیتا ہے  !!!!

بس آپ سبھوں سے دعاؤ ں کی درخواست ۔ ۔ ۔ ۔ ۔






<<< پچھلا صفحہ اگلا صفحہ >>>

تعمیر نیوز

اس بلاگ کی مذید تحاریر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

Powered by Blogger.