August 2016

جہاں والے نبی ﷺ کا شہر گر، اک بار دیکھیں گے - طرحی نعت پاک . نون میم

طرحی  نعت  پاک

جہاں والے نبی کا شہر گر، اک بار دیکھیں گے 
زمانہ بھول جائیں گے، یہ جب، گلزار دیکھیں گے


تمھیں گر دیکھنا ہو دیکھ لو دنیا کے شہروں کو 
نگر آقا ﷺ کا ہم اک بار کیا سو بار دیکھیں گے


ہے مجبوری، مدینے جا نہیں سکتے ہیں ہم لیکن 
خیالوں میں ہرا گنبد ہزاروں بار دیکھیں گے


نہیں ممکن سزا پائیں گناہوں کی بروزِ حشر
شفاعت کی نظر سے گر ہمیں سرکار ﷺ دیکھیں گے


جہاں والے چلیں گے جب مرے آقا کی سنت پر 
سکوں کا، شانتی کا، امن کا، سنسار دیکھیں گے


زمانہ میر و غالب کےلِکَھے اشعار دیکھے، ہم 
نبی کی مدح میں لکّھے گئے اشعار دیکھیں گے


کبھی جو آنچ بھی آئے نبی کی ذات پر تو پھر
​ہمارے ہاتھوں میں دشمن! کھلی تلوار دیکھیں گے​


درودِ پاک میں جن کی زباں مصروف رہتی ہے 
سرِ محشر وہ اپنی روح کو بیدار دیکھیں گے


مخالف بھی یقیناً تیرے شیدائی بنیں گے نوؔر
محمد ﷺ سا، حسیں تیرا، اگر کردار دیکھیں گے



کاوش  : نون میم     - نوؔرمحمد ابن بشیر
کوسہ، ممبرا، تھانہ، ہند  - ۶ ذی القعدہ ۱۴۳۷ھ ۔ ۱۰ اگست ۲۰۱۶ء 


شتر گربہ کسے کہتے ہیں؟

عیب نمبر 1: (  شُتر گُربہ  )
سوال:
شتر گربہ کسے کہتے ہیں؟
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
جواب:
"شتر" کے معنی اونٹ اور "گربہ" کے معنی بلی کے ہیں۔
یہ ایک عمومی اصطلاح ہے جو کہ دو غیر متناسب چیزوں کو یکجا کرنے یا متضاد صفات کو جمع کرنے یا قول و فعل میں مخالفت ہونے کے یا پھر ایسے ہی کسی موقع پر بولی جاتی ہے۔
ادب کے حوالے سے بھی اسے عیوبِ سخن میں میں شمار کیا جاتا ہے ، ادب اور بالخصوص شعر میں اس کا مطلب یہ یوتا ہے کہ ایک ہی کلمے کے لیے کسی خاص مقصد کے بغیر دو مختلف ضمیروں کو یا تحقیر و تعظیم کے الفاظ کو استعمال کیا جائے۔ مثلا شعر میں کسی کو مخاطب کرکے "تو" کا صیغہ لایا جائے پھر اسی شعر میں اسی مخاطب کے لیے "تم" یا "آپ" کا ذکر کیا جائے۔ یا کسی غائب کے لیے پہلے "اس" کا لفظ لاکر اسی شعر میں اسی غائب کے لیے "ان" یا "انھی" لایا جائے۔
مثال:
کبھی میری تربت پہ آجانا تم بھی
ترے ہجر میں جاں سے جانے لگا ہوں
اس شعر میں مخاطب کے لیے پہلے مصرع میں "تم" کی ضمیر استعمال کی گئی ہے ، جبکہ دوسرے مصرع میں اسی مخاطب کے لیے "ترے" ہے ، اس شترگربگی کو ختم کرنے کے لیے یا تو پہلے مصرع میں "تو" لانا ہوگا یا دوسرے مصرع میں "تمھارے"۔
ایک اور مثال دیکھیے۔
غالب کا شعر ہے:
ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ "تو کیا ہے"
تمھی کہو کہ یہ اندازِ گفتگو کیا ہے
اس شعر کے پہلے مصرع میں "تم" بھی ہے اور "تو" بھی ، مگر یہ شترگربہ نہیں ہے ، اس لیے کہ "تم" غالب کی طرف سے اس کے مخاطب کے لیے ہے ، جبکہ "تو" غالب نے اپنے مخاطب کی طرف سے اپنے لیے کہا ہے ، یعنی تم ہر بات میں مجھ سے کہتے ہو کہ تو کیا ہے؟ گویا غالب تو اپنے مخاطب کے لیے کلمۂ خطاب "تم" لائے ہیں جس سے خاص تعلق ظاہر ہوتا ہے جبکہ غالب کا مخاطب غالب کو بقول غالب "تو" کہہ کر مخاطب کرتا ہے جوکہ انسانوں کے حق میں کلمۂ تحقیر ہے۔
"شترگربہ" کے بارے میں محترم جناب مزمل شیخ بسمل صاحب فرماتے ہیں:
"
شتر گربہ بیسویں صدی سے پہلے کے یعنی متاخرین کے زمانے میں بہت پایا جاتا تھا، پھر حسرت موہانی کے دور اور بعد کے ادوار میں اس کو مکمل طور پر متروک جانا گیا۔ مصحفی، جرات وغیرہ کے کلام میں اس قسم کی مثالیں عام پائی جاتی ہیں۔ پھر بعد کے اساتذہ مثلاً داغ دہلوی اور اس زمانے کے دیگر شعراء نے اسے بالکل ختم کر دیا۔ تو اب مکروہ تحریمی ہی جانا جاتا ہے۔"

بشکریہ : محترم فیاض صاحب  - مالیگاؤں - ہند

طرحی غزل عاشقی بھی کوئی بلا ہے کیا _ نون میم

طرحی غزل

عاشقی بھی کوئی بلا ہے کیا
آدمی اس سے بچ سکا ہے کیا

دیکھ لینے میں کوئی ہرج نہیں
کوئی مجھ کو پکارتا ہے کیا

میرے محبوب یہ بتا مجھ کو
تیرے مجنون کی سزا ہے کیا

رخ سے پردہ ہٹا کے میرا صنم
میرا ایمان جانچتا ہے کیا

آتشِ عشق ہی نہ بھڑکے تو
جان کرتا کوئی فدا ہے کیا

زندگانی اگر محال نہ ہو
جینے مرنے کا پھر مزہ ہے کیا

دوست کو آج میری یاد آئی
پھر مسائل میں گِھر گیا ہے کیا

بے وفا نؔور کہہ رہے ہو اگر
تم مجھے درس دو وفا ہے کیا
_ _ _ _ _ _ _ _ _ _
نون میم : نوؔرمحمد ابن بشیر
کوسہ، ممبرا، تھانہ، ہند  بزمِ ادب و ثقافت
3 ذی القعدہ 1437 ھ  - 7 اگست – 2016 ء






<<< پچھلا صفحہ اگلا صفحہ >>>

تعمیر نیوز

اس بلاگ کی مذید تحاریر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

Powered by Blogger.