December 2014

جسٹس (ر) شیخ الاسلام مولانا مفتی محمد تقی عثمانی (نائب رئیس و شیخ الحدیث جامعہ دار العلوم کراچی):

جسٹس (ر) شیخ الاسلام مولانا مفتی محمد تقی عثمانی (نائب رئیس و شیخ الحدیث جامعہ دار العلوم کراچی):



غور کیا جائے تو بات ایسی ہی ہے کہ مفتی محمد تقی عثمانی ایک کامل الصفات اِنسان ہیں، جو دِینی علوم کے ساتھ ساتھ دُنیوی فنون پر بھی دسترس رکھتے ہیں، جو تقریر کے ساتھ ساتھ تحریر میں بھی کمال درجے کی صلاحیت رکھتے ہیں، وہ لوگوں کے ظاہری اور دنیوی جھگڑوں کے فیصلے تو کرتے ہی رہے ہیں، سا تھ ساتھ باطنی اور روحانی امراض کا علاج بھی کرتے ہیں، وہ دِینی علوم کی تدریس بھی کرتے ہیں اور دوسری طرف اسی مہارت کے ساتھ جدید فنون کے لیکچر بھی دیتے ہیں، غرض وہ عالم بھی ہیں، مفتی بھی ہیں، وہ مفسر بھی ہیں اور محدث بھی ہیں، وہ مقرر بھی ہیں اور محرر بھی ہیں، وہ پیر بھی ہیں اور مدرس بھی ہیں، وہ جسٹس بھی ہیں اور لیکچرار بھی ہیں، کبھی وہ تفسیر قرآن لکھتے نظر آتے ہیں تو کبھی بخاری شریف پڑھاتے نظر آتے ہیں، کبھی وہ اُمت کے مسائل جدیدہ حل کرتے نظر آتے ہیں تو کبھی روحانی مریضوں کا علاج کرتے نظر آتے ہیں، غرض ہمارے بس میں نہیں ہے کہ ان کی خدماتِ جلیلہ کو کماحقہ بیان کریں۔ لیکن یہ بات تو اپنی جگہ مسلمہ ہے کہ مفتی محمد تقی عثمانی کی دنیائے عالم میں مقبولیت کی بڑی وجہ اُن کا دِینی علوم کے ساتھ دُنیوی فنون میں ماہر ہوکر مزید اس میں آگے سے آگے بڑھنا اور اپنی ان خدمات کے ذریعہ لوگوں کو فائدہ پہنچانا ہے۔

مفتی محمد تقی عثمانی عالم اسلام کے مایہ ناز عالم اور جید فقیہ ہیں۔ آپ کا شمار عالم اسلام کی چند چوٹی کی علمی شخصیات میں ہوتا ہے۔ آپ اسلامی فقہ اکیڈمی، جدہ کے نائب صدر اور جامعہ دارالعلوم کراچی کے نائب مہتمم بھی ہیں۔ اس کے علاوہ آپ اسٹیٹ بینک کے شریعہ بورڈ کے ممبر اور کئی غیر سودی بینکوں کے معاملات کے نگران بھی ہیں۔
مفتی محمد تقی عثمانی تحریک پاکستان کے عظیم رہنماء اور مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع عثمانیؒ کے سب سے چھوٹے فرزند اور موجودہ مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد رفیع عثمانی کے برادرِ صغیر ہیں۔ آپ کی پیدائش سن 1943 میں ہندوستان کے صوبہ اُترپردیش کے ضلع سہارنپور کے مشہور قصبہ دیوبند میں ہوئی۔

آپ نے اپنی اِبتدائی تعلیم مرکزی جامع مسجد تھانوی جیکب لائن کراچی میں مولانا احتشام الحق تھانوی صاحبؒ کے قائم کردہ مدرسہ اشرفیہ میں حاصل کی اور پھر آپ نے اپنے والد بزرگوار کی نگرانی میں جامعہ دارالعلوم کراچی سے درسِ نظامی کی تعلیم مکمل کی، جس کے بعد 1961 میں اسی ادارے سے ہی فقہ میں تخصص کیا۔ بعد ازاں جامعہ پنجاب میں عربی ادب میں ماسٹرز اور جامعہ کراچی سے وکالت کا اِمتحان نمایاں نمبروں سے پاس کیا۔

آپ نے اپنے وقت کے تقریباً تمام جید علماء سے حدیث کی اِجازت حاصل کی۔ ان علماء میں خود اُن کے والد مفتی محمد شفیع عثمانیؒ کے علاوہ مولانا محمد ادریس کاندھلویؒ اور مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ شامل ہیں۔

مفتی صاحب کے والد ہمیشہ آپ کی روحانی تربیت کے حوالے سے فکر مند رہتے تھے۔ اسی بابت آپ نے مفتی صاحب کو اپنے وقت کے ایک بڑے شیخ اور عارف باللہ ڈاکٹر محمد عبدالحئی عارفیؒ کی صحبت اختیار کرنے اور ان سے روحانی تعلق استوار کرنے کا حکم دیا۔ آپ نے والد کے حکم پر شیخ کی صحبت اختیار کی تو کچھ ہی عرصے میں ان کی شخصیت سے اتنے متأثر ہوئے کہ فوراً ہی ان سے بیعت ہوگئے۔ پھر آپ اپنے شیخ کے خاص مریدوں میں شمار ہونے لگے۔ عارف باللہ ڈاکٹر محمد عبدالحئی عارفیؒ نے آپ کو خلافت بھی عطا فرمائی۔ جب کہ کچھ عرصہ کے بعد مولانا مسیح اللہ خان صاحبؒ کی طرف سے بھی تجدید اجازت ہوئی۔

مفتی محمد تقی عثمانی تدریس کے شعبے سے بھی وابستہ ہیں۔ آپ جامعہ دارالعلوم کراچی میں صحیح بخاری، فقہ اور اسلامی اصول معیشت پڑھاتے ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف ملکی و غیر ملکی جامعات وقتاً فوقتاً اپنے یہاں آپ کے خطبات کا انتظام کرتی رہتی ہیں۔ آپ گزشتہ پندرہ سالوں سے جامعہ دارالعلوم کراچی میں درسِ بخاری دے رہے ہیں، پہلے آپ ایک فقیہ کی حیثیت سے جانے جاتے تھے اور اب دنیا آپ کو ایک محدث کی حیثیت سے بھی جانتی ہے، یہی وجہ ہے کہ علماء نے آپ کو ’’شیخ الاسلام‘‘ کا لقب عطا کیا ہے۔

شہید جنرل محمد ضیاء الحقؒ نے 1977 میں 1973 کے دستور سنت کے مطابق ڈھالنے کے لئے 1973 کے آئین کی روشنی میں ایک مشاورتی بورڈ ’’اِسلامی نظریاتی کونسل‘‘ کی بنیاد رکھی، مفتی محمد تقی عثمانی اس کونسل کے بانی ارکان میں سے ہیں۔ آپ نے قرآن مجید میں بیان کردہ ’’اللہ کی حدود اور ان کی سزاؤوں‘‘ پر عملد درآمد کے لئے حدود آرڈینینس کی تیاری میں اہم کردا ر ادا کیا۔ آپ نے سودی نظام بینکاری کے خاتمے کے لئے بھی کئی سفارشات پیش کیں۔
مفتی محمد تقی عثمانی وکالت کی سند حاصل کرنے کے بعد طویل عرصے تک پاکستان کے عدالتی نظام سے وابستہ رہے۔ آپ 1980 سے 1982 تک وفاقی شرعی عدالت اور 1982 سے 2002 تک سپریم کورٹ آف پاکستان کے شریعت ایپلیٹ بینچ کے جج رہے ہیں۔ آپ شریعت ایپلیٹ بینچ کے منصف اعظم اور پاکستان کے قائم مقام منصف اعظم بھی رہے۔ آپ نے بحیثیت جج کئی اہم فیصلے کئے جن میں سود کو غیر اسلامی قرار دے کر اس پر پابندی کا فیصلہ سب سے مشہور ہے۔ 2002 میں اسی فیصلے کی پاداش میں سابق ڈکٹیٹر جناب جنرل (ر) پرویز مشرف نے آپ کو آپ کے عہدے سے برطرف کردیا تھا۔

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ’’ربا‘‘ یعنی سود کو حرام قرار دیا ہے۔ ایسی صورت میں جب جدید معاشی نظام کی اساس جدید بینکنگ ہے، جس کا پورا ڈھانچہ سود کی بنیادوں پر کھڑا ہے، مسلمان ملکوں میں اللہ کی نافرمانی کی زد میں آئے بغیر معاشی سرگرمیوں کو جاری رکھنا ایک مستقل مسئلہ تھا۔ لیکن اب مفتی صاحب کی مجددادنہ کوششوں کی بدولت یہ مستقل طور پر حل ہوچکا ہے۔ مفتی صاحب نے شریعت کے حدود میں رہ کر بینکاری کا ایسا نظام وضع کیا ہے جو عصر حاضر کے تمام معاشی تقاضوں کو پورا کرتا ہے۔ مفتی صاحب کے اس نظام کو اسلامی فقہ اکیڈمی کی منظوری کے بعد ساری دنیا میں نہایت تیزی سے اپنایا جارہا ہے۔

اس وقت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کے اصولوں پر درجنوں اسلامی بینک کام کررہے ہیں۔ کینیڈا کے کئی اسلامی بینکوں نے ایک سال نہایت کامیابی سے کام کرتے ہوئے دو سو فیصد سے زائد منافع کمایا ہے۔ مفتی صاحب اسلامی مالیاتی اداروں کے اکاونٹینگ اور آڈیٹینگ اورگنائزیشن کے چیئر مین بھی رہے ہیں۔

مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کا نام پہلی مرتبہ اس وقت عوامی سطح پر سامنے آیا جب آپ نے محدث العصر علامہ سیّد محمد یوسف بنوریؒ کی ہدایت پر 1974 کی قادیانی مخالف تحریک میں اپنا اہم کردار ادا کیا۔ قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی اس تحریک میں آپ نے مولانا سمیع الحق کے ساتھ مل کر ایک دستاویز تیار کی جو قادیانیوں کے خلاف پارلیمان میں پیش کی گئی۔ 9/11 کے بعد جب پرویز مشرف کی حکومت نے پاکستان کو سامراجی مقاصد کے سامنے قربانی کے بکرے کے طور پر پیش کیا تو مفتی صاحب نے اس معاملے پر اپنے کالموں اور بیانوں کے ذریعہ کھل کر مخالفت کی۔ آپ نے افغانستان کی اِسلامی ریاست پر امریکہ کے حملہ کو طاغوتی سامراج کا تیسری دنیا کے مما لک کی خودمختاری پر حملہ قرار دیا۔ حقوق نسواں بل میں ترمیم اور لال مسجد کے معاملے پر بھی کھل کر اظہارِ خیال کیا اور حکومتی مؤقف کو جھوٹ اور دغا کا پلندہ قرار دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی پر سخت ردعمل کا اظہار کیا اور ٹی وی پر آکر ان شیطانی فتنوں کی مذمت کی اور عوام کو توہین کے عمل میں ملوث ممالک کا معاشی بائیکاٹ کرنے کا فتویٰ دیا۔ مفتی صاحب نے 18 فروری کے انتخابات کے بعد پرویز مشرف سے استعفیٰ کا مطالبہ بھی کیا۔
آپ کی تصنیفات کے نام: آسان ترجمۂ قرآن (توضیح القرآن) مع تشریحات مکمل تین جلدیں،علوم القرآن، مقدمہ معارف القرآن، تکملہ فتح الملہم، انعام الباری شرح صحیح بخاری، درسِ ترمذی، تقریر ترمذی، حجیت حدیث، حضور ﷺ نے فرمایا، آسان نیکیاں، فتاویٰ عثمانی، عدالتی فیصلے، فقہی مقالات، احکامِ اعتکاف، ضبط ولادت، احکام الذبائح، ہمارا معاشی نظام، اسلام اور جدید معیشت و تجارت، سود پر تاریخی فیصلہ، غیر سودی بینکاری متعلقہ فقہی مسائل کی تحقیق اور اشکالات کا جائزہ، اسلام اور جدید معاشی مسائل، اسلامی بینکاری کی بنیادیں، موجودہ عالمی معاشی بحران اور اسلامی تعلیمات، اسلامی بینکاری تاریخ و پس منظر، ہمارا تعلیمی نظام، اسلام اور سیاست حاضرہ، اسلام اور جدت پسندی، دینی مدارس کا نصاب و نظام، ہمارے عائلی مسائل، ملکیت زمین اور اس کی تجدید، نفاذِ شریعت اور اس کے مسائل، حکیم الامت کے سیاسی افکار، اسلام اور سیاسی نظریات، اصلاحی خطبات، اصلاحی مواعظ، اصلاحی مجالس، نشری تقریریں، اصلاح معاشرہ، فرد کی اصلاح، موجودہ پرآشوب دور میں علماء کی ذمہ داریاں، ذکر و فکر، ارشاداتِ اکابر، مواعظ عثمانی، حدود آرڈیننس ایک علمی جائزہ، حقوق العباد و معاملات، خاندانی اختلافات کے اسباب اور ان کا حل، خاندانی حقوق و فرائض، معاشرتی حقوق و فرائض، اپنے گھروں کو بچائیے، قتل اور خانہ جنگی کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات، اسلام اور ہماری زندگی، اکابر دیوبند کیا تھے، تقلید کی شرعی حیثیت، پرنور دعائیں، تراشے، بائبل کیا ہے، بائبل سے قرآن تک، عیسائیت کیا ہے؟، قادیانی فتنہ اور ملت اسلامیہ کا مؤقف، جہانِ دیدہ، دنیا میرے آگے، سفر درسفر، حضرت معاویہؓ اور تاریخی حقائق، تبصرے، نمازیں سنت کے مطابق پڑھیں، میرے والد میرے شیخؒ، مأثر عارفیؒ، تذکرے، نقوشِ رفتگان، البلاغ مفتی اعظم نمبر، البلاغ حضرت عارفیؒ نمبر

بابری مسجد تاریخ کے مختلف مراحل میں(از ۔۔۔۔ مولانا حبیب الرحمان اعظمی دارالعلوم دیوبند)

بابری مسجد تاریخ کے مختلف مراحل میں(از ۔۔۔۔ مولانا حبیب الرحمان اعظمی دارالعلوم دیوبند)


﴿۱﴾مسجد کی تعمیر اوراس کی تاریخی حیثیت
تین گنبدوں والی یہ قدیم مسجد شہنشاہ ”بابر“ کے دور میں اودھ کے حاکم ”میرباقی اصفہانی“ نے ۹۳۵ھ /۱۵۲۸ء میں تعمیر کرائی تھی، مسجد کے مسقف حصہ میں تین صفیں تھیں اور ہر صف میں ایک سو بیس نمازی کھڑے ہوسکتے تھے، صحن میں چار صفوں کی وسعت تھی، اس طرح بیک وقت ساڑھے آٹھ سو مصلی نماز ادا کرسکتے تھے۔
مسجد کے درمیانی مرکزی در کے اوپر دو میٹر لمبی اور پچپن سینٹی میٹر چوڑی پتھر کی تختی کا ایک کتبہ نصب تھا، جس کی پہلی اوپر سطر میں ”بسم اللہ الرحمن الرحیم و بہ ثقتی“ خوشنما بیلوں کے درمیان لکھا ہوا تھا، اور نیچے کی تین سطروں میں یہ اشعار تھے۔
بنام آنکہ او دانائے اکبر کہ خالق جملہ عالم لامکانی
درود مصطفی بعد از ستائش کہ سرور انبیاء زبدہ جہانی
فسانہ درجہاں بابر قلندر کہ شد در دور گیتی کامرانی
چنانکہ ہفت کشور در گرفتہ زمیں را چوں مثالے آسمانی
درآں حضرت یکے میرِ معظم کہ نامش میر باقی اصفہانی
مشیرِ سلطنت تدبیر ملکش کہ ایں مسجد حصار ہست بانی
خدایا درجہاں تابندہ ماند کہ چتر و تخت و بخت و زندگانی
دریں عہد و دریں تاریخ میموں کہ نہ صد پنج و سی بودہ نشانی
تمت ہذا التوحید ونعت ومدح وصفت نور اللہ برہانہ بخط عبدالضعیف نحیف فتح اللہ محمدغوری۔
اس بڑے کتبہ کے علاوہ اندرونِ مسجد منبر کی دونوں جانب ایک ایک کتبہ نصب تھا، ۲۷/مارچ ۱۹۳۴ء کے ہنگامہ کے موقع پر جوگاؤکشی کے عنوان کا بہانہ بناکر برپا کیاگیا تھا، مسجد میں گھس کر بلوائیوں نے توڑ پھوڑ کی تھی، جس میں یہ دونوں کتبے بھی اٹھالے گئے تھے، بعد میں ”تہور خاں ٹھیکیدار“ نے منبر کی بائیں سمت والے کتبہ کی نقل تیار کراکے اسی پہلی جگہ پر اسے نصب کرادیا، داہنی جانب کے کتبہ کی ایک نقل سید بدرالحسن فیض آبادی کے پاس محفوظ تھی، اس لئے اس کتبہ کی عبارت بھی دستیاب ہوگئی۔
بائیں سمت کا کتبہ حسب ذیل اشعار پر مشتمل تھا۔
بفرمودئہ شاہ بابر کہ عدلش بنائیست با کاخ گردوں ملاقی
بناکرد ایں مہبط قدسیاں را امیر سعادت نشاں میر باقی
بود خیر باقی و سال بنائش عیاں شد چوں گفتم بود خیر باقی
داہنی جانب والے کتبہ کے اشعار یہ تھے۔
بمنشائے بابر خدیو جہاں بنائے کہ با کاخ گردو عناں
بنا کرد ایں خانہٴ پائیدار امیر سعادت نشاں میر خاں
بماند ہمیشہ چنیں بانیش چناں شہر یارِ زمیں و زماں
ابتدائے تعمیر سے بابری مسجد میں نماز پنج گانہ اور جمعہ ہوتا رہا ہے، عدالتی کاغذات سے معلوم ہوتا ہے کہ ماضی قریب یعنی ۱۸۵۸ء سے ۱۸۷۰ء تک اس مسجد کے امام و خطیب ”محمد اصغر“ تھے، ۱۸۷۰ء تا ۱۹۰۰ء کی درمیانی مدت میں مولوی ”عبدالرشید“ نے امامت کے فرائض انجام دئیے، ۱۹۰۱ء سے ۱۹۳۰ء کے عرصہ میں یہ خدمت مولوی عبدالقادر کے سپرد رہی، اور ۱۹۳۰ء سے ۱۹۴۹ء مسجد کے قرق ہونے کی تاریخ تک مولوی عبدالغفار کی اقتداء میں مسلمان اس مسجد میں نماز پنج وقتہ اور جمعہ ادا کرتے تھے۔
بابری مسجد کے مصارف کے واسطے عہد مغلیہ میں مبلغ ساٹھ روپے سالانہ شاہی خزانے سے ملتے تھے، نوابان اودھ کے دور میں یہ رقم بڑھا کر تین سو دو روپے تین آنہ چھ پائی کردی گئی تھی، برطانوی اقتدار میں بھی یہ رقم بحال رہی، پھر بندوبست اول کے وقت نقد کی بجائے دو گاؤں بھورن پور اور شولاپور متصل اجودھیا اس کے مصارف کے لئے دئیے گئے، غرض کہ اپنی ابتداء تعمیر ۹۳۵ھ/ ۱۵۲۸ء سے ۱۳۶۹ھ / ۱۹۴۹ء تک یہ مسجد بغیر کسی نزاع و اختلاف کے مسجد ہی کی حیثیت سے مسلمانوں کی ایک مقدس و محترم عبادت گاہ رہی اور مسلمان امن وسکون کے ساتھ اس میں اپنی مذہبی عبادت ادا کرتے تھے۔
﴿۲﴾
مسجد،مندر قضیہ کا آغاز
مستند تاریخوں سے پتہ چلتا ہے کہ بابری مسجد کی تعمیر سے صدیوں پہلے مسلمان اجودھیا میں آباد تھے، اور یہاں کے ہندو مسلم پوری یک جہتی اور یگانگت کے ساتھ رہتے سہتے تھے، ۱۸۵۵ء/ ۱۲۷۲ھ سے پہلے کسی مذہبی معاملہ میں یہاں کے باشندوں کے درمیان کوئی تنازعہ رونما ہوا یا باہمی ٹکراؤ کی نوبت آئی ہو صحیح تاریخوں اور مذہبی نوشتوں سے اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا، لیکن جب اس ملک پر انگریزوں کا منحوس سایہ پڑا اور ان کا یہاں عمل دخل شروع ہوا تو انھوں نے اپنی بدنام زمانہ پالیسی ”لڑاؤ اورحکومت کرو“ کے تحت یہاں کے لوگوں میں باہمی منافرت اور تصادم پیدا کرنے کی غرض سے مسجد، مندر، جنم استھان وغیرہ کا خود ساختہ قضیہ چھیڑ دیا جس کے نتیجہ میں ۱۸۵۵ء/ ۱۲۷۲ھ میں اجودھیا کے اندر زبردست خونریزی ہوئی، جس کی تفصیل احقر کی تالیف ”اجودھیا کے اسلامی آثار“ میں ملاحظہ کی جائے، اسی وقت سے اختلاف کی خلیج وسیع سے وسیع تر ہوتی گئی،اور نوبت بایں جا رسید۔
شاطر انگریزوں نے سب سے پہلے ”جنم استھان“ اور ”سیتا کی رسوئی“ کا افسانہ ترتیب دیا اور ایک بدھسٹ نجومی کو پہلے سے سکھا پڑھا کر ان دونوں مقامات کی جگہ معلوم کی، اس نے طے شدہ سازش کے مطابق زائچہ کھینچ کر بتادیا کہ ”جنم استھان“ اور ”سیتا کی رسوئی“ بابری مسجد سے متصل احاطہ کے اندر ہے، پھر اپنے زیر اثر ہندوؤں کو اکسایا کہ ان دونوں ”پوتر استھانوں“ کو حاصل کرنے کی کوشش کریں، ”نقی علی خاں“ جو نواب واجد علی کا خسر اور وزیر تھا، انگریزوں کی اس سازش میں ان کا موٴید اور طرف دار تھا،اس نے اپنے اثر و رسوخ کے ذریعہ ناعاقبت اندیش نواب کو اس بات پر راضی کرلیا کہ بابری مسجد سے باہر مگر اس کے احاطہ کے اندر جنم استھان و سیتا رسوئی کے لئے جگہ دیدی جائے، چنانچہ مسجد کے مسقف حصہ کے بالمقابل احاطہ مسجد کی دیوار سے متصل داہنی سمت ”سیتا رسوئی“ کے لئے اور صحن مسجد سے باہر بائیں پورب کی جانب جنم استھان کے نام سے ۲۱/فٹ لمبی اور ۱۷/ فٹ چوڑی جگہ دیدی گئی، جس پر اسی وقت سے پوجاپاٹ کا سلسلہ بھی شروع کردیاگیا، حالانکہ جس وقت یہ افسانہ ایجاد کیاگیا اس سے برسہا برس پہلے سے قلب شہر میں جنم استھان کا مندر موجود تھا اور آج بھی موجود ہے، اس وقت مسجد اور جنم استھان کے درمیان حد فاصل قائم کرنے کی غرض سے صحن مسجد کے ارد گرد آہنی سلاخوں کی باڑھ کھڑی کردی گئی، اسی منحوس تاریخ سے اجودھیا میں مذہبی کش مکش شروع ہوگئی اور یہاں کے ہندومسلم، مندر مسجد کے نام پر آپس میں دست بگریباں ہوگئے۔
خدا سمجھے بت سحر آفریں سے
گریباں کو لڑایا آستیں سے
۱۸۵۷ء میں جب کہ ہندوستان کے مسلمانوں اور ہندوؤں نے متحد ہوکر بہادر شاہ ظفر کی قیادت میں انگریزوں کے خلاف جنگ آزادی کا بگل بجایا، ضلع فیض آباد کے گزیٹر سے پتہ چلتا ہے کہ اس وقت باہمی اتفاق و یگانگت کو مستحکم کرنے کی غرض سے اجودھیا کے مسلم رہنما امیر علی اور ہندو رہنما بابا چرن داس نے رام جنم استھان اور بابری مسجد کے تنازعہ کو ہمیشہ کے واسطے ختم کرنے کی غرض سے ایک معاہدہ کیا کہ رام جنم استھان کی مخصوص متنازعہ اراضی ہندوؤں کے حوالہ کردی جائے اور ہندو بابری مسجد کی عمارت سے دست کش ہوجائیں، چنانچہ اس معاہدہ پر فریقین خوشی خوشی راضی ہوگئے اور دو سال سے اختلاف کی جو آگ بھڑک رہی تھی وہ ٹھنڈی ہوگئی، مگر انگریزوں کو یہ ہندومسلم اتحاد گوارہ نہ ہوا، انھوں نے بابارام چرن داس اور امیر علی دونوں کو ایک ساتھ املی کے پیڑ پر لٹکاکر پھانسی دیدی اور مندر مسجد کے نزاع کو از سر نو زندہ کرنے کی غرض سے متنازعہ رام جنم استھان اور بابری مسجد کے درمیان ایک دیوار کھینچ دی، دونوں کے راستے بھی الگ الگ بنادئیے اور مسجد کے شمالی دروازہ سے مسجد میں داخلہ پر پابندی عائد کردی، اور جذباتی ہندؤں کو اکسایا کہ وہ اس تقسیم کو مسترد کرکے پوری مسجد پر دعویٰ کریں، اسی کے ساتھ مسلمانوں کو بھی برانگیختہ کیا کہ وہ مسجد کی اراضی کے اس بٹوارہ کو تسلیم نہ کریں چنانچہ یہ کشاکش پھر شروع ہوگئی جس کا ایک طویل سلسلہ ہے، تفصیل کے لئے ”اجودھیا کے اسلامی آثار“ کا مطالعہ کیجئے۔
﴿۳﴾
مسجد کو مندر بنانے کی شرمناک سازش
۴۹/۱۹۴۸ء میں جب کہ ملک فرقہ وارانہ تشدّد کی آگ میں جل رہا تھا،اور پورے ہندوستان میں افراتفری مچی ہوئی تھی ۲۲،۲۳/دسمبر ۱۹۴۹ء کی درمیانی رات میں ہنومان گڑھی کے مہنت ”ابھے رام داس“ نے اپنے کچھ چیلوں کے ساتھ مسجد میں گھس کر عین محراب کے اندر ایک مورتی رکھ دی جس کے خلاف اس وقت ڈیوٹی پر مقرر کانسٹبل ”ماتوپرشاد“ نے صبح کو تھانہ میں حسب ذیل رپورٹ درج کرائی۔
”ابھے رام داس، سدرشن داس اور پچاس ساٹھ نامعلوم لوگوں نے مسجد کے اندر مورتی استھاپت (نصب) کرکے مسجد کو ناپاک کردیا ہے۔ جس سے نقص امن کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔“
اس رپورٹ کو بنیاد بناکر فیض آباد کے سٹی مجسٹریٹ نے دفعہ ۱۴۵ کے تحت مسجد اوراس سے ملحق گنج شہیداں کو قرق کرکے مقفل کردیا اور پریہ دت رام چیرمین کو اس کی حفاظت کے لئے رسیور مقرر کردیا، نیز فریقین کے نام نوٹس جاری کیا کہ اپنے اپنے دعویٰ پر ثبوت پیش کریں، سٹی مجسٹریٹ کا یہ غیرمنصفانہ عمل زبان حال سے بتارہا ہے کہ مسجد میں بت رکھنے کی کارروائی گہری سازش کے تحت عمل میں لائی گئی تھی، ورنہ ایک قدیم جمعہ وجماعت سے آباد مسجد کے بارے میں ثبوت طلب کرنا کیا معنی رکھتا ہے۔ سیدھی بات یہ تھی کہ ماتوپرشاد کانسٹبل کی رپورٹ کے مطابق مجرمین کو قرار واقعی سزا دی جاتی اور مسجد سے مورتی نکال کر اس مسئلہ کو ختم کردیا جاتا، مگر حیرت ہے کہ حضرت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی رحمة الله عليه، مولانا ابوالکلام آزاد رحمة الله عليه اور مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی رحمة الله عليه نے آنجہانی پنڈت جواہر لال نہرو کو اس سنگین معاملہ پر توجہ دلائی اور انھوں نے یوپی کے وزیراعلیٰ گووند بلبھ پنت کو لکھا کہ اس مسئلہ کو فی الفور حل کریں، پھر بھی اس سلسلے میں کوئی مثبت کارروائی نہیں کی گئی، اور مذہبی جانبداری و اقتدار سیکولرزم اور قانون و انصاف پر غالب رہا، گویا ملک کی جنگ آزادی میں مسلمانوں کی قربانیوں کا اولین صلہ آزاد ہونے کے بعد یہ دیاگیا کہ ان کی قدیم متبرک عبادت گاہ میں مورتیاں رکھ دی گئیں اوراس کے منبر ومحراب جو اب تک رکوع و سجود سے آباد تھے مقفل کردئیے گئے۔
دیکھیں اس آغاز کا ہوتا ہے کیا انجام کار
اس حادثہ کے وقت مولانا آزاد نے کہا تھا کہ ”میرے ذہن میں یہ سوال گونج رہا ہے کہ مستقبل میں مسلمانوں کو ایک ملت کی حیثیت سے قبول کیا جائے گا یا نہیں، اگر اس کا جواب اثبات میں ملتا ہے تو بابری مسجد سے بت ہٹادئیے جائیں گے،اور اگر آئندہ چل کر اس کی نفی ہوتی ہے تو انتظار کیجئے دوسری مسجدوں میں بھی اس طرح کے حادثات پیش آسکتے ہیں۔“ آج کے واقعات سے مولانا آزاد کے خدشات صحیح ثابت ہورہے ہیں۔
اس حادثہ کے بعد ۱۶/جنوری ۱۹۵۰ء کو گوپال سنگھ نامی ایک شخص نے ظہور احمد، حاجی محمد فائق، حاجی پھیکو، احمد حسن عرف اچھن،محمد سمیع، ڈی، ایم سٹی مجسٹریٹ اور سرکار اترپردیش کو پارٹی بناکر یہ دعویٰ دائر کردیا کہ مسجد جنم استھان ہے، ہم یہاں پوجا پاٹ کرتے ہیں مگر مسلمان اور ضلع حکام اس میں رکاوٹ ڈالتے ہیں، لہٰذا اس رکاوٹ کو ختم کرکے ہندؤں کو اس میں پوجا پاٹ کی باضابطہ اجازت دی جائے، اس مقدمہ کے دائر ہونے کے تیسرے دن یعنی ۱۹/جنوری ۱۹۵۰ء کو عدالت نے ایک حکم امتناعی کے ذریعہ ہندومسلمان دونوں کا داخلہ مسجد میں ممنوع قرار دے دیا پھر ۱۳/مارچ ۱۹۵۱ء میں عدالت نے پجاری کو مسجد کے اندر جاکر پوجا اور بھوگ کرنے کی اجازت دیدی، مگر مسلمان اپنی عبادت گاہ میں خدائے وحدہ لاشریک لہ کا نام لینے سے محروم رہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ جب ظلم و ناانصافی کو طاقت و حکومت کی پشت پناہی حاصل ہوجاتی ہے تو آئین و قانون اور عدالت سب اس کے آگے سربسجود ہوجاتے ہیں۔
دعویٴ مذکورہ کی جواب دہی کرتے ہوئے فیض آباد کے ایس پی کرناسنگھ نے یکم جون ۱۹۵۰ء کو جو جواب دعویٰ عدالت میں داخل کیا اس میں لکھا تھا کہ
”زمانہ قدیم سے بابری مسجد ہے اس میں مسلمان ہمیشہ سے نماز پڑھتے چلے آرہے ہیں ہندؤں کا اس سے کوئی واسطہ اور سروکار نہیں ہے۔“
ڈپٹی کمشنر فیض آباد نے اسی مقدمہ سے متعلق یکم جولائی ۱۹۵۰ء کو جو حلف نامہ داخل کیا تھا اس میں بھی ”بابری مسجد“ کی مسجدیت کا اعتراف و اقرار موجود ہے،مذکورہ بالا مقدمہ کے علاوہ ۱۹۶۱ء میں دو مزید مقدمات دائر کئے گئے ایک رام چندر داس کی جانب سے اور دوسرا نرموہی اکھاڑہ کی طرف سے،جس کے جواب میں جمعیة علماء ہند اور یوپی سنی سنٹرل وقف بورڈ کی جانب سے بھی مقدمات قائم کئے گئے جن میں کہا گیا تھا کہ یہ بابری مسجد مسلمانوں کی مسجد ہے جس میں وہ ۱۵۲۸ء سے برابر عبادت کرتے رہے ہیں لہٰذا یہ مسجد انھیں واپس دی جائے اور نماز وغیرہ میں کسی قسم کی مداخلت نہ کی جائے۔
تقریباً ۳۵/ سال کے طویل عرصہ تک یہ مقدمات عدالت میں معطل پڑے رہے، .... ان سے متعلق کوئی موٴثر کارروائی نہیں کی گئی، اس دوران پولیس اور رسیور کی نگرانی کے باوجود مسجد کے اندر اور باہر خلاف قانون بہت سی تبدیلیاں کردی گئیں، مثلاً مسجد کے صدر دروازہ پر جلی حرفوں میں ”اللہ“ کندہ تھا جسے کھرچ دیاگیا، دروازہ پر جنم استھان مندر کا بورڈ لگادیا گیا، احاطہ کی شمالی چہار دیواری اور مسجد کی درمیانی جگہ میں سفید و سیاہ سنگ مرمر کا فرش بنایا گیا جسے پری کرما کا نام دیاگیا، صحن مسجد میں اتر جانب ایک ہینڈ پائپ نصب کرلیاگیا، مسجد سے باہر پورب سمت ایک سفالہ پوش مندر اور مندر کے پجاری کے لئے ایک کمرہ تعمیر کرلیاگیا دکھن جانب نام نہاد جنم استھان کے چبوترہ پر بھی ایک مندر بنالیاگیا اور مسجد کے درمیانی گنبد پر ایک بھگوا جھنڈا لگادیا گیا یہ ساری تبدیلیاں ۱۹۶۷ء اور ۱۹۸۶ء کے درمیانی عرصہ میں کی گئیں مگر رسیور، انتظامیہ اور عدالت کی پیشانی پر شکن تک نہ آئی۔
﴿۴﴾
عدالت نے اقتدار کے دباؤ میں مسجد کے اندر
مورتی پوجا کی غیرمنصفانہ اجازت دیدی
مسلمانوں کو کسی حد تک اطمینان تھا کہ مسجد مقفل ہے اور ہائی کورٹ میں اس کے مقدمات کی سماعت ہورہی ہے، عدلیہ اس بارے میں جو فیصلہ کرے گی اسے تسلیم کرلیا جائے گا، کیونکہ عدلیہ پر ان کا اعتماد ابھی مجروح نہیں ہوا تھا، اسی پرامن ماحول میں ۲۵/جنوری ۱۹۸۶ء کو ”رمیش پانڈے“ ایک غیرمتعلق شخص نے جو بابری مسجد سے متعلق کسی بھی مقدمہ میں فریق نہیں تھا صدر منصف فیض آباد کی عدالت میں یہ درخواست گذاری کہ
”جنم استھان میں پوجا پاٹ کی اجازت ہونی چاہئے اس لئے عدالت ضلع انتظامیہ کو حکم دے کہ جنم بھومی بابری مسجد کا تالا کھول دے تاکہ میں اور دوسرے ہندو بغیر کسی رکاوٹ کے پوجا کرسکیں۔“
صدر منصف نے یہ کہہ کر درخواست مسترد کردی کہ ”اس مقدمہ کی رہنما فائل ہائی کورٹ میں زیرسماعت ہے اس لئے اس درخواست پر کوئی فیصلہ نہیں کیا جاسکتا“ منصف کے اس فیصلہ کے خلاف مسٹر کے، ایم، پانڈے ڈسٹرکٹ جج کی عدالت میں ۳۰/جنوری ۱۹۸۶ء کو اپیل دائر کی گئی ڈسٹرکٹ جج نے یکم فروری ۱۹۸۶ء کو پونے بارہ بجے یہ یکطرفہ فیصلہ سنادیا کہ ”ضلع انتظامیہ تالا کھول دے اور رمیش پانڈے و دیگر پجاریوں کو پوجا پاٹ کی عام اجازت دی جائے، اس میں کسی قسم کی رکاوٹ نہ ڈالی جائے، نیز ضلع انتظامیہ لااینڈ آرڈر بحال رکھنے کے لئے مناسب کارروائی عمل میں لائے۔“
اس غیر عادلانہ فیصلے کے بعد بغیر کسی تاخیر کے ۵/ بجکر ۱۹/منٹ پر بابری مسجد کا تالا کھول دیاگیا جو ۱۹۵۰ء میں حکم امتناعی کے نفاذ میں لگایا گیا تھا اور ہزاروں ہندو جو وہاں جمع کئے گئے تھے پوجا پاٹ کے لئے مسجد میں داخل ہوگئے، تالا کھولنے کی اس شرمناک تقریب کو ہمارے سیکولر ملک کے نشریاتی ادارہ ”دور درشن“ نے بڑے اہتمام سے نشر کیا تاکہ مسلمانوں کے زخمی دلوں پر اچھی طرح سے نمک پاشی ہوجائے، علاوہ ازیں پورے ملک میں اس کا جشن منایا گیا اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ مسلمانوں کو شکست دیدی گئی، اس کھلی ہوئی بے انصافی پر مسلمانوں کی طرف سے احتجاج کیاگیا تو رائفل کی گولیوں سے احتجاج کرنے والوں کو ہمیشہ کے لئے خاموش کردیاگیا، خاص طور پر بارہ بنکی، بنارس، بنگلور وغیرہ شہروں میں سرکاری پولیس نے مسلمانوں کے خلاف دردناک بہیمیت کا برتاؤ کیا، بعد میں یہ بات عام طور پر مشہور ہوگئی کہ سیکولرزم کی علمبردار کانگریس حکومت کے وزیراعلیٰ اترپردیش اور ایک مرکزی وزیر کے اشارے پر تالا کھولا گیا تھا، آئندہ کے واقعات ومشاہدات نے واضح کردیا کہ یہ شہرت بے بنیاد نہیں تھی۔
واقعہ بھی یہی ہے کہ بغیر مضبوط سیاسی پشت پناہی کے عدالت کو اس طرح سے قانون و انصاف کی دھجیاں اڑانے کی جرأت نہیں ہوسکتی تھی۔
﴿۵﴾
مسجد کو مسمارکرکے اسکی جگہ پر رام مندر بنانے کا مجرمانہ اعلان و سرگرمیاں
مسجد میں عام پوجاپاٹ کی اجازت حاصل ہوجانے سے ہندو احیاء پرستوں کے حوصلے بلند ہوگئے اور اب ایک قدم آگے بڑھاکر مسجد کو منہدم کرکے اس کی جگہ نیا مندر بنانے کی تشدد آمیز جدوجہد شروع کردی گئی، حکومتوں کے تجاہل اور دورخی پالیسی کی بنا پر انھیں مزید حوصلہ ملا، چنانچہ وشوہندوپریشد کے سربراہ سنگھل نے دھمکی کی زبان میں یہ کھلا اعلان کیا کہ ۹/نومبر ۱۹۸۹ء کو مندر کا شلانیاس (سنگِ بنیاد) ہوگا، اور ملک کی کسی سیاسی پارٹی کی یہ ہمت نہیں ہے کہ ہمارے اس پروگرام کو روک دے عام ہندؤں کو ہم نوا بنانے کی غرض سے پروگرام یوں ترتیب دیاگیا کہ ۳۰/ستمبر ۱۹۸۹ء سے ملک گیر شلاپوجن مہم شروع کی جائے جس کے تحت ملک بھر کے پانچ لاکھ پچھتّر ہزار گاؤں میں ایک ایک شلا (اینٹ) بھیج کر اس کاپوجن کرایا جائے اور دیواستھان اکادشی (۹/نومبر) کے دن یہ ساری اینٹیں اجودھیا پہنچا دی جائیں اور اسی دن رام مندر کا شلانیاس کیا جائے، وشوہندو پریشد وغیرہ جارحیت پسند تنظیمیں اپنے سربراہ کے اعلان کے مطابق شلاپوجن کے نام پر گاؤں گاؤں گھوم کر نفرت و تشدد کا زہر پھیلاتی رہیں اور ہماری سیکولر حکومتیں اپنی خاموشی سے ان کا تعاون کرتی رہیں تا آنکہ کانگریسی حکومت کے وزیر داخلہ نے متعینہ تاریخ یعنی ۹/نومبر کو وشوہندو پریشد کے ہاتھوں متنازعہ اراضی پر شلانیاس کی اجازت دے کر مسلمانوں کو آگاہ کردیا کہ بابری مسجد کے انہدام اور مندر کی تعمیر کا وقت قریب آگیا ہے، وزیر داخلہ نے اس سلسلہ میں حیرت ناک حد تک گمراہ کن رویہ اختیار کیا، ایک طرف تو وہ اعلان کرتے رہے کہ متنازعہ جگہ پر شلانیاس کی اجازت نہیں دی جائے گی اور دوسری طرف اندر اندر وشوہندو پریشد سے ساز باز بھی کرتے رہے، حکومت کی اس منافقانہ پالیسی نے فرقہ پرست تنظیموں کو اس قدر جری بنادیا کہ ۲۳/جون ۱۹۹۰ء کو ہری دوار میں ہندو مذہبی لیڈروں نے ایک قدم اور آگے بڑھ کر طے کیا کہ اگست سے اکتوبر تک پورے ملک میں جگہ جگہ جلوس نکالے جائیں، گاؤں گاؤں سے مندر کی تعمیر کے لئے والنٹیر جمع کئے جائیں، اور ۳۰/اکتوبر کو مسجد کی جگہ پر رام مندر کی تعمیر کا کام شروع کردیا جائے، اس فیصلہ کو عملی جامہ پہنانے کے لئے آر، ایس ایس، بی، جے، پی، وشوہندوپریشد، بجرنگ دل اور ان کی ہم نوا تمام فرقہ پرست پارٹیاں میدان میں نکل پڑیں، بھارتیہ جنتا پارٹی کے صدر لال کرشن ایڈوانی نے سومناتھ سے اجودھیا تک کی رتھ یاترا شروع کی، اس رتھ یاترا میں انتہائی اشتعال انگیز اور دل خراش تقریریں کی گئیں، جس کے نتیجہ میں بڑودہ، بنگلور، کرناٹک، مدھیہ پردیش اور یوپی کے بعض اضلاع میں فساد کی آگ بھڑک اٹھی، لیکن حکومت وقت جس کی اولین و اہم ترین ذمہ داری اپنے شہریوں کی جان ومال اور آبرو کی حفاظت ہے خود اپنی حفاظت کے بندوبست اور اپنی جان بچانے کی فکر میں مصروف رہی اور جارحیت کا عفریت ملک کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک گھوم کر آگ و خون کا طوفان برپا کرتا رہا بہرحال اعلان کے مطابق بھاری تعداد میں کارسیوک ۳۰/اکتوبر ۱۹۹۰ء کو اجودھیا پہنچ گئے، اور بابری مسجد کو مسمار کرنے کی اپنی جیسی کوششیں بھی کیں، حتی کہ مسجد کے گنبدوں اور دیواروں کو مجروح بھی کردیا، مگر وزیراعلیٰ یوپی کے سخت رویہ کی وجہ سے انھیں اپنے مقصد میں کامیابی حاصل نہ ہوسکی حقیقت یہ ہے کہ اس موقع پر وزیراعلیٰ ملائم سنگھ یادو نے قابل تعریف ہمت وجرأت کا ثبوت دیا اور اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر نہ صرف بابری مسجد کو بچالیا بلکہ سیکولر اور جمہوری قدروں کی آبرو رکھ لی رام بھگت اور کارسیوک کے نام سے اجودھیا میں اکٹھا بلوائی جب بابری مسجد کے انہدام میں ناکام ہوگئے تو انھوں نے اپنا غصہ مسلمانوں پر اتارا، اور پی، اے، سی کے تعاون سے ملک گیر فساد برپا کردیا جس میں سینکڑوں مسلمان شہید کئے گئے اور ان کی کروڑوں کی جائیدادیں لوٹ لیں، یا نذرآتش کردی گئیں، وی، پی سنگھ جنھوں نے بھاجپا کے اشتراک سے حکومت بنائی تھی اپنے اقتدار کو بچانے کی غرض سے منافقانہ پالیسی پر عمل پیرا رہے، لیکن ان کا یہ بزدلانہ رویہ ان کی کرسیٴ اقتدار کو نہ بچا سکا، نفرت کی آگ نے ملک کے امن کے ساتھ اسے بھی بھسم کردیا۔
وی، پی سنگھ سرکار کے خاتمہ کے بعد چندرسیکھر نے زمام اقتدار سنبھالی انھوں نے اپنے عہد حکومت میں یہ کام کیا کہ وشووہندوپریشد اور اس کی حلیف پارٹیوں کو (جنھوں نے روز اول سے تشدد کی راہ اختیار کرکے نہ صرف مصالحانہ گفت و شنید کا دروازہ بند کررکھا تھا بلکہ عدالت کے فیصلہ کو تسلیم کرنے کے لئے بھی تیار نہیں تھیں) بات چیت پر راضی کرلیا، چنانچہ ان کے اور ایکشن کمیٹی بابری مسجد کے لیڈروں کے درمیان براہ راست گفتگو کا سلسلہ شروع ہوا، فریقین نے اپنے اپنے دعویٰ کے ثبوت میں تحریری دلائل بھی فراہم کئے، گفتگو کا یہ سلسلہ ابھی ختم نہیں ہوا تھا کہ چندرسیکھر حکومت ہی ختم ہوگئی، بالآخر ملک میں الیکشن ہوا جس کے نتیجہ میں کلیان سنگھ کی زیرسرکردگی یوپی میں بھاجپا کی حکومت قائم ہوئی اور مرکز میں کانگریس نے سیکولرزم کی علامت نرسمہا راؤ کی قیادت میں حکومت بنائی۔
﴿۶﴾
بابری مسجد کی المناک شہادت
بھارتیہ جنتا پارٹی اپنی فرقہ پرست ذہنیت کی بنا پر ہمیشہ ہی سے بابری مسجد کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتی تھی اور اسے غلامی کی علامت قرار دیتی تھی، اب ریاست میں اس کی حکومت تھی اس لئے وہ اس مسجد کو کیونکر برداشت کرسکتی تھی، چنانچہ بھاجپائی وزیر اعلیٰ کلیان سنگھ نے وزارت سازی کے بعد جو اولین کام کیا وہ یہ تھا کہ اپنے وزیروں کو ساتھ لے کر اجودھیا آئے اور بابری مسجد میں نصب مورتی کے پاس کھڑے ہوکر یہ عہد کیا کہ ”رام للّٰہ ہم آئیں گے مندر یہیں بنائیں گے“ اس عہد و پیمان کے بعد کلیان سنگھ حکومت نے قانون و انصاف کو نظر انداز کرکے رام مندر کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کرنے کی مہم شروع کردی، بابری مسجد سے ملحق موقوفہ متنازعہ اراضی کو اپنی تحویل میں لے لیا، پھر اسے وشوہندو پرشید کے حوالہ کردیا، جس پرمستحکم بنیادوں کے ساتھ پختہ چبوترہ کی تعمیر کا کام نہایت زور و شور کے ساتھ جاری ہوگیا، جبکہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے احکامات تھے کہ متنازعہ جگہ پر کسی قسم کی تعمیر نہ کی جائے، توہین عدالت کا ارتکاب کرتے ہوئے تعمیر ہوتی رہی اور مسلم لیڈران اس غیرقانونی اقدام پر مرکزی سرکار سے احتجاج کرتے رہے، لیکن مرکزی حکومت نے اس وقت تک کوئی موٴثر حرکت نہیں کی جب تک کہ وشوہندوپریشد نے اپنے منصوبہ کی تکمیل نہ کرلی۔
چبوترہ کی تعمیر کے بعد وزیر اعظم نے فریقین کے درمیان ازسرنو مذاکرات کا سلسلہ شروع کرایا جس کے دو دور حکومت کے ترجمان کے بقول اطمینان بخش اور امید افزا رہے، تیسرے دور کا آغاز ہونے والا ہی تھا کہ اچانک حیرتناک انداز میں وشوہندوپریشد نے یکطرفہ اعلان کردیا کہ ۶/دسمبر ۱۹۹۱ء کو کارسیوا ہوگی، ظاہر ہے کہ اس اعلان کے بعد گفت و شنید کی کیا گنجائش تھی، اس لئے یہ سلسلہ ختم ہوگیا، کارسیوا کے اعلان ہوتے ہی ساری فرقہ پرست تنظیمیں حرکت میں آگئیں۔ بھاجپا کے سابق صدر ایڈوانی اور جوشی یاترا پر نکل پڑے، تخریب کار عناصر کارسیوک کے نام پر اجودھیا میں جمع ہونے لگے اور دیکھتے دیکھتے سارے ملک کا ماحول کشیدہ و سراسمیہ ہوگیا۔
یوپی کے وزیر اعلیٰ کلیان سنگھ نے عدالت اور مرکزی حکومت کو حلفیہ اطمینان دلایاکہ کارسیوا صرف علامتی ہوگی، عدالت اور مرکزی حکومت کے حکم کی سرموخلاف ورزی نہیں ہوگی، مرکزی وزیر داخلہ قوم کو اطمینان دلاتے رہے کہ بابری مسجد کی حفاظت کا پورا منصوبہ مرتب کرلیاگیا ہے، سیکولر نواز وزیراعظم ہند بھی اعلان پر اعلان کرتے رہے کہ بابری مسجد کی حفاظت حکومت کی ذمہ داری ہے مرکز سے اچھی خاصی تعداد میں فوج بھی اجودھیا پہنچ گئی مگر اسے نامعلوم مصالح کی بنیاد پر بابری مسجد سے دو ڈھائی کلومیٹر دور رکھا گیا، صوبہ اور مرکز کے نیم فوجی دستے مسجد کی حفاظت کے لئے اس کے چاروں سمت میں متعین کئے گئی مگر انھیں وزیراعظم کی سخت ہدایت تھی کہ رام بھگتوں پر کسی حال میں بھی گولی نہ چلائی جائے۔
بہرحال ان سارے اعلانات و انتظامات کے سائے میں ۶/دسمبر کی وحشتناک تاریخ آگئی، ایڈوانی، سنگھل، ونے کٹیار،اوما بھارتی وغیرہ دولاکھ کارسیوکوں کی فوج لئے اجودھیا کے میدان میں پہلے ہی سے موجود تھے، ان لیڈروں کی رہنمائی میں کارسیوا شروع ہوئی اور تشدد پر آمادہ تربیت یافتہ کارسیوکوں نے گیارہ بج کر پچپن منٹ پر بابری مسجد پر دھاوا بول دیا اور بغیر کسی مزاحمت کے پورے اطمینان سے چار بجے تک اسے توڑتے اور ملبہ کو دور پھینکتے رہے یہاں تک کہ صفحہٴ زمین سے بابری مسجد کا نام و نشان ختم کردیاگیا۔
وزیر داخلہ اور وزیراعظم کو ایک ایک منٹ کی خبر پہنچتی رہی مگر نہ مسجد کی حفاظت کا مرتبہ منصوبہ روبہ عمل آیا اور نہ ہی اس کی حفاظت کی ذمہ داری کا فریضہ ادا کیاگیا، اس طرح ۲۲/۲۳/دسمبر ۱۹۴۹ء کو بابری مسجد کے خلاف جو تحریک شروع کی گئی تھی، ۶/دسمبر ۱۹۹۱ء کو سیکولرزم وجمہوریت کے زیر سایہ تکمیل کو پہنچ گئی۔
وزیر اعلیٰ کلیان سنگھ کا منصوبہ چونکہ پورا ہوچکا تھا اس لئے وہ حکومت سے دست بردار ہوگئے، نظم و نسق کی ذمہ داری مرکز کے سرآگئی، صدر راج کا نفاذہوگیا، اس کے باوجود تقریباً ۳۸ گھنٹے تک اجودھیا مکمل طور پر کارسیوکوں کے تصرف میں رہا جنھوں نے اجودھیا کی دیگر بہت ساری مسجدوں کو بھی بالکل مسمار کردیا یا توڑ پھوڑ کر اپنے خیال میں ناقابل استعمال بنادیا، اور اجودھیا میں آباد مسلم گھرانوں کو تہس نہس کرڈالا، اسی وقفہ میں بابری مسجد کی جگہ پر ایک گھروندا بناکر مورتی نصب کردی جس کی پوجا پاٹ بھی شروع کردی گئی، رام بھگت جب اپنی رام بھگتی کے سارے کاموں سے باطمینان فارغ ہوگئے تو مرکزی سرکار کے انتظام میں سرکاری سواریوں کے ذریعہ باعزت طورپر انھیں ان کے ٹھکانوں تک پہنچادیاگیا۔
مسلمانوں کے مذہبی ناموس پر یہ ایسا حملہ تھا جس کی کرب ناکی سے بے چین اور مضطرب ہوکر وہ چیخ اٹھے تو مظلوموں کی یہ بیتابانہ آہ بھی ہماری سیکولر حکومتوں کو گوارہ نہیں ہوئی جس کی سزا میں ہزاروں مسلمانوں کو خون کی موجوں اور آگ کی لہروں میں غرق کردیاگیا، آج وہ کون سی ریاست ہے جو مظلوم مسلمانوں کے خون سے لہولہان نہیں ہے، وہ کون سا شہر ہے جس کی فضا یتیموں کی گریہ و زاری، بیواؤں کے نالہٴ و شیون اور غمزدہ ماؤں کی آہ سرد سے کربناک نہیں ہے، جمہوریت اور سیکولرزم کے دعویدار ملک اور ایک سیکولر پارٹی کی حکومت میں اس جماعت پر یہ انسانیت سوز مظالم جس نے ملک کی آزادی میں بے لوث قربانیاں دی ہیں کس قدر شرمناک بات ہے، آخر مسلمان اس ملک کی قربان گاہ پر کب تک بھینٹ چڑھتا رہے گا۔
تجھ کو کتنوں کا لہو چاہئے اے ارض وطن جو ترے عارض بے رنگ کو گلنار کریں
کتنی آہوں سے کلیجہ ترا ٹھنڈا ہوگا کتنے آنسو ترے صحراؤں کو گلزار کریں
سب کچھ لٹ جانے کے بعد وزیرداخلہ ہند صاحب بیان دیتے ہیں کہ مسلمانوں کی پوری حفاظت کی جائے گی اور انھیں مکمل انصاف ملے گا، وزیر اعظم نے بھی اعلان کیا کہ بابری مسجد دوبارہ تعمیر کرائی جائے گی، مگر اس اعلان پر ایک ہفتہ بھی نہیں گذرا تھا کہ بمبئی میں مسلمانوں پر شیوسینا کے خونخوار درندے ٹوٹ پڑے، سیکڑوں مسلمان ان کے ہاتھوں ہلاک ہوگئے، اربوں کھربوں کی ان کی املاک لوٹ لی گئیں یا نذرِ آتش کردی گئیں، شیوسینا کے یہ درندے عروس البلاد میں درندگی مچاتے گھومتے رہے اور ہماری حکومت دم سادھے بیٹھی رہی، جب مسلمانوں کا خون پیتے پیتے ان درندوں کا جی بھرگیا تب جاکر بہیمیت کا یہ رقص ختم ہوا، رہا بابری مسجد کی تعمیر کا مسئلہ، تو جو حکومت قدیم عمارت کی حفاظت نہ کرسکی اس سے جدید تعمیر کی توقع رکھنی خود اپنے آپ کو دھوکہ دینا ہے۔
اس وقت تو حکومت تذبذب کا شکار ہے ایک طرف قانون و انصاف کے تقاضے ہیں تو دوسری طرف ووٹ اور کرسیٴ اقتدار کا مسئلہ ہے،اس لئے گھبراہٹ میں کبھی آرڈی ننس کا سہارا لے رہی ہے تو کبھی عدالت کی پناہ تلاش کرتی ہے۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے نینی سنٹرل جیل میں بغاوت کے مقدمہ میں اپنا جو تحریری بیان دیا تھا اس کے درج ذیل اقتباس کو تاریخ کے حوالہ کے بغیر پڑھئے، اس کی ایک ایک سطر میں حالات حاضرہ کی عکاسی نظر آئے گی، مولانا آزاد اپنے بیان کے ایک پیراگراف میں لکھتے ہیں:
”یہ پریشانی گورنمنٹ کو خود اسی کی منافقانہ روش کی وجہ سے پیش آرہی ہے ایک طرف وہ چاہتی ہے کہ شخصی حکمرانوں کی طرح بے دریغ جبروتشدد کرے، دوسری طرف چاہتی ہے کہ نمائش قانون وعدالت کی آڑ بھی قائم رہے، یہ دونوں باتیں متضاد ہیں، ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتیں نتیجہ یہ ہے کہ اس کی پریشانی و درماندگی روز بروز بڑھتی جارہی ہے۔
میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ کوئی اچھی بات نہیں ہے کہ آدمی اپنے تمام کپڑے اتار ڈالے اس لئے کہ شریف آدمی آنکھیں بند کرلیں گے، شریف آدمیوں نے سچ مچ آنکھیں بند کرلی ہیں لیکن دنیا کی آنکھیں بند نہیں ہیں، فی الحقیقت ”لا“اور ”آرڈر“ کا ایک ڈرامہ کھیلا جارہا ہے جسے ہم کامیڈی اور ٹریجڈی دونوں کہہ سکتے ہیں وہ تماشا کی طرح مضحک بھی ہے اورمقتل کی طرح دردانگیز بھی، لیکن میں ٹریجڈی کہنا زیادہ پسند کروں گا۔“
﴿۷﴾
بابری مسجد کی تاریخ کا یہ ساتواں مرحلہ بھی ۳۰/ستمبر ۲۰۱۰ء کو پوراہوگیا۔ یعنی بابری مسجد، اور رام جنم استھان حق ملکیت کے مقدمہ کا فیصلہ ۶۰ برس کے طویل اور صبرآزما انتظار کے بعد بالآخر الہ آباد ہائی کورٹ کی ایک بنچ نے سنادیا۔ جس پر بی. جے. پی نے خوشی کا اور کانگریس نے اطمینان کا اظہار کیا ہے بلکہ اس کے جنرل سکریٹری تو مدعی ہیں کہ اس مقدمہ کا اس سے بہتر فیصلہ ہوہی نہیں سکتا۔ اس موقع پر محض اتفاق کہہ کر اس منکشف حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے کہ اس تنازعہ میں جتنے بھی اہم موڑ آئے، یا بالفاظ واضح بابری مسجد پر جو سانحہ بھی گزرا، اور اس تعلق سے قانون وانصاف، حق وعدل کا جب جب خون ہوا وہ سب ملک کی سب سے بڑی اور سیکولرزم کا سب سے زیادہ دم بھرنے والی پارٹی کانگریس ہی کے دور اقتدار میں ہوا ہے۔
مسلمان ابتداء ہی سے یہ کہتے چلے آرہے ہیں کہ ہمیں عدالت اور اس کے نظام قانون پر یقین واعتماد ہے، ملک کے ہر شہری کو ملک کی عدالت اوراس کے نظام قانون وانصاف پر اعتماد رکھنا ہی چاہئے، لیکن سنگھ پریوار ہمیشہ سے یہی کہتا رہا کہ یہ عقیدہ اور آستھا کا معاملہ ہے عدالت اس کے بارے میں فیصلہ کی مجاز نہیں ہے، لہٰذا عدالت جو چاہے فیصلہ کرے جنم استھان مندر ہم جہاں چاہتے ہیں وہیں بنے گا، مگر عدالت کا فیصلہ آجانے کے بعد اس کا یہ سُر مدھم پڑگیا ہے۔
رہا معاملہ کانگریس پارٹی کا تو بقول ”دی سنڈے گارجین کے ایڈیٹر، اور انڈیا ٹوڈے کے ایڈیٹوریل ڈائرکٹر اے، جے اکبر کے“ ”اس تنازع کے بارے میں کانگریس کی پالیسی کا ایک ہی محور رہا ہے، اور وہ ہے مسلم ووٹوں کو کھوئے بغیر مندر کی تعمیر کس طرح کی جائے“۔ (سہارا نئی دہلی ۳/اکتوبر ۲۰۱۰ء)
اپنی اس پالیسی کے تحت اس نے ایک طرف تو اطمینان کی سانس لی،اور دوسری طرف مختلف ذرائع سے اس کوشش میں لگ گئی کہ مسلمان اس فیصلہ کو قبول کرکے اس تنازع کو ختم کردیں، پھر اپنی اس سعی کو بظاہر لاحاصل دیکھ کر باہمی گفت وشنید اور مصالحت کا شوشہ چھوڑ دیا ہے۔ ”آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔“
فیصلہ آنے سے پہلے ہی ملک کے وزیرداخلہ نے میڈیا کے ذریعہ یہ ہدایت جاری کردی تھی کہ امن وسلامتی کی فضا کو بحال رکھنے کے لئے عدالت کے فیصلہ پر نقد وتبصرہ نہ کیاجائے، اور میڈیا کو بھی یہ حکم دیا تھا کہ فیصلہ سے متعلق جس قدر ہوسکے کم خبر دی جائے، چونکہ کوئی فیصلہ اسی وقت اطمینان بخش اور قابل قبول ہوتا ہے، جبکہ وہ قانون وانصاف اور حق وعدل کے معیار پر پورا اترتا ہو، اس لئے اس حکم زباں بندی کے باوجود، فیصلہ کے آتے ہی ملک کے دانشوروں، قانون دانوں، تاریخ کے ماہروں وغیرہ کا وہ طبقہ جو سیاست گزیدہ نہیں ہے بیک زبان پکار اٹھا کہ ملک کے نظام عدالت پر اعتماد کے باوجود اس حقیقت کا اعتراف کیاجانا چاہئے کہ سیاسی دخل اندازیوں نے قانون وانصاف کے گھٹنے توڑ کر اسے آستھا اور عقیدت کے سامنے جھکنے پر مجبور کردیا ہے۔
جبکہ بی. جے. پی کے انتہائی سینئر مقتدر لیڈر لال کرشن ایڈوانی اس فیصلہ کی حمایت کرتے ہوئے یہ کہہ رہے ہیں کہ ”میری رائے میں یہ فیصلہ عقیدہ کو قانون سے بالاتر قرار نہیں دیتا بلکہ عقیدے کو قانونی جواز فراہم کرتا ہے“۔
آج ایڈوانی جی شوق سے اس فیصلہ کی حمایت میں نکتہ آفرینیاں کریں، لیکن انھیں اور ان کے ہم خیالوں کو یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہئے کہ قانونی جواز سے لیس ہوکر کل کو جب یہ آستھا کا بھوت بوتل سے باہر نکلے گا تو پھر بدری ناتھ، پوری، تروینی، بندھاپور، امراؤتی، تیر، جزولا، ایہول، انداولی، ایلورا سرنگیری وغیرہ کے مندروں کاکیا ہوگا؟ جو موٴرخین کی تحقیق اور بدھسٹ لاماؤں کے بقول، بودھ مت ویہاروں پر بزور قبضہ کرکے بنائے گئے ہیں۔ (دیکھئے مہاراشٹر کے مشہور موٴرخ جمناداس کی کتاب ”تروینی مندر بودھوں کی عبادت گاہ تھی)
علاوہ ازیں خود اجودھیاکے بہت سارے مندر بھی اس کے آسیب سے کیا خود کو بچا پائیں گے؟ کیونکہ چین کا بدھسٹ عالم اور سیاح ہیون شیانگ جو راجہ ہرش (مشہور بنام راجہ سلاوت) کے عہد ۶۳۰/ میں ہندوستان کی سیاحت پر آیا تھا اور تقریباً پندرہ سولہ سال یہاں رہ کر ملک کے چپہ چپہ کی سیرکی تھی، جس کی مکمل تفصیل اس نے اپنے سفرنامہ میں درج کی ہے، اس کا یہ سفرنامہ ہندوستان کی قدیم تاریخ کے لئے ایک دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے، جس کا انگریزی، اردو وغیرہ بہت سی زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے، وہ اپنے اس سفرنامہ میں قنوج کی سیاحت کی تفصیلات بیان کرنے کے بعد لکھتا ہے ”میں یہاں سے اجودھیا کے لئے روانہ ہوا“ یہاں پہنچ کر اس نے جو کچھ دیکھا اس کا ذکر یوں کرتا ہے ”یہاں (اجودھیا میں) ایک سو عبادت گاہیں (ویہار) اور کئی ہزار پجاری ہیں، میں نے اجودھیا میں بودھ مت کے قدامت پسند اور جدّت پسند دونوں فرقوں کی کتابوں کا مطالعہ کیا“
چینی سیاح کی یہ تحریر بتارہی ہے کہ ساتویں صدی عیسوی میں اجودھیا کے اندر بدھوں کے ایک سو ویہار تھے، لیکن جب بہار کے ایک عظیم برہمن رہنما کمارل اور ان کے بعد ان کے مشہور چیلہ شنکر اچاریہ نے (جن کا زمانہ آٹھویں صدی کا آخر اور نویں صدی کا اوّل متعین کیا جاتا ہے) بودھ مت کے برخلاف شیومت کی پرزور تحریک برپا کی تو بدھسٹ اس کا مقابلہ نہیں کرسکے، جس کے نتیجہ میں ہندوستان میں پھیلے بدھوں کے بڑے بڑے ویہار اور قدیم عبادت گاہیں یا تو مسمار کردی گئیں یا انھیں شیومندر میں تبدیل کرلیاگیا، اسی دور میں اجودھیا کے یک صد ویہار بھی شیومندر بنالئے گئے، پھر مشہور رہنما رامانند (پیدائش ۱۲۹۹ء) کی کوششوں سے جب شمالی ہندوستان میں شیومت کے مقابلہ میں وشنومت کو فروغ حاصل ہوگیا اور وشنو کے اوتار کی حیثیت سے ”رام جی“ کی پوجا عام ہوگئی تو ان شیومندروں کو رام مندر کا نام دیدیا گیا، تو کیا اب ملک کے ان مشہور مندروں کو آستھا کی چرنوں پر بھینٹ چڑھایا جاسکتا ہے؟ یہ کوئی سمجھ بوجھ کی بات نہیں ہے کہ آدمی ضد، دشمنی اور موہوم مفاد کے تحت عقل وہوش سے بالکل عاری باتیں کرنے لگے، اس بات کو کون نہیں جانتا کہ متمدن دنیا آئین وقانون کی محتاج ہی اس لئے ہے کہ ایک ساتھ رہنے والوں کے درمیان جب خواہشات وجذبات، آستھاؤں اور عقیدتوں میں تنازع اور ٹکراؤ ہوتو اسے قانون وانصاف کے ذریعہ رفع دفع کیا جاسکے، لیکن جب قانون کے مقابلہ میں آستھا کو فوقیت دی جائے گی تو یہ تنازعہ لازمی طور پر ختم ہونے کی بجائے اور بڑھے گا تو کیا اس صورت میں ملک کی یکجہتی برقرار رہ پائے گی کیونکہ مہذب آدمی قانون وانصاف کے آگے سرنگوں ہوتا ہے نہ کہ فریق مخالف کی آستھاؤں کے سامنے چنانچہ مشہور کالم نگار صحافی سنتوش بھارتیہ لکھتے ہیں کہ
”اس فیصلے نے ایسے سوال کھڑے کئے ہیں جن کا حل نکلنا ضروری ہے، وگرنہ ملک میں ایک نئے فرقہ وارانہ دور کی شروعات ہوگی جماعتیں عقیدت کے نام پر مسجدوں، بودھ مٹھوں، اور جینیوں کے مندروں کے خلاف عدالت میں جائیں گی،اور الہ آباد کورٹ کے فیصلے کو نظیر کے طور پر پیش کریں گی۔“ (راشٹریہ سہارا، ۲/اکتوبر ۲۰۱۰ء)
پھر ہمارا ملک مختلف تہذیبوں اور مذہبوں کا گہوارہ ہے، ہر تہذیب ومذہب کے پیروکاروں کی آستھائیں اور عقیدتیں الگ الگ ہیں لہٰذا سوال پیدا ہوگا کہ کس کی آستھا کو عدالتیں معیار بنائیں گی، اگر اس سوال کا جواب یہ ہے کہ الہ آباد ہائی کورٹ کے اس فیصلہ کے مطابق اکثریتی طبقہ کی آستھاؤں کو فیصلہ کا معیار بنایا جائے، تواس صورت میں جمہوریت اور سیکولرزم سے ہاتھ دھونا پڑے گا، تو کیا ملک کی جمہوریت پراس راست حملہ کو یہاں کے جمہوریت پسند، سیکولر نواز عوام خاموشی سے برداشت کرلیں گے؟
غرضیکہ اس فیصلہ نے ملک کو ایک ایسے دوراہے پر کھڑا کردیا ہے،جس میں ایک تو حق وانصاف اور امن وسلامتی کی سمت جارہا ہے اور دوسرا جبر و ناانصافی اور انتشار وخلفشار کی طرف، اب تک کے احوال سے یہی ظاہر ہورہا ہے کہ چند لوگوں کے علاوہ ملک کی اکثریت حق وانصاف اور امن وسلامتی کے راستہ ہی کو ترجیح دے رہی ہے اسی لئے ان چند افراد کے علاوہ سب کی زبان پر یہی ہے کہ ملک وقوم کی بھلائی اسی میں ہے کہ اس فیصلہ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جائے، کیونکہ ملک آستھاؤں اور عقیدوں کی بنیاد پر نہیں بلکہ قانون وانصاف ہی کے تحت چلے گا۔
علاوہ ازیں ہم اپنے دین ومذہب کی رو سے اس کے پابند ہیں کہ خداے بصیر وقدیر کی جانب سے مقرر دینی شعائر کی عظمت و حرمت کے تحفظ وبقاء کی حسب استطاعت جدوجہد کرتے رہیں، لہٰذا آئین وقانون جب یہ موقع فراہم کررہے ہیں کہ ہم حق وانصاف کے حصول کے لئے ملک کی سب سے بڑی اور آخری عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاسکتے ہیں، تو اس صورت میں ہمارے لئے روا نہیں ہوگا کہ الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ کو قبول کرکے برضاء ورغبت اپنے اس حق اور شرعی فریضہ سے دست بردار ہوجائیں، رہا معاملہ نتیجہ وانجام کا تو یہ ہمارے نہیں بلکہ مالک الملک اور رب العالمین کے قبضہ واختیار میں ہے، ہم تواس کے بندے ہیں، ہماری بندگی کا تقاضا یہی ہے کہ اندیشہ نفع وضرر سے بے نیاز ہوکر اس کے حکم کے آگے گردن جھکادیں۔
اگرچہ بت ہے زمانے کی آستینوں میں
ہمیں ہے حکم اذاں لا الٰہ الا اللہ

اسکولنگ

اسکولنگ
::::::::::::
تدریس اور سکولنگ کے حوالے کئی دوستوں کے میسجز آتے رہے ہیں جو چاہتے ہیں کہ اس حوالے سے کوئی پوسٹ کی جائے۔ یہ بہت وسیع موضوع ہے اسے فیس بک پر سمیٹنا ممکن نہیں البتہ ایک مکس پوسٹ کر دیتا ہوں جس میں سکول مالکان، اساتذہ اور والدین کے کام کی چند اہم باتیں ڈالدیتا ہوں۔
مجھے انٹرویو دینے کے لئے جب بھی ٹیچرز آئی ہیں، میں نے انکی ڈگریوں والی فائل دیکھنا تو درکنار وصول کرنے سے بھی انکار کیا ہے۔ میں سیدھا کلاس میں کھڑا کر کے کہتا ہوں، پڑھا کر دکھاؤ ! پورے پیریڈ میں کلاس میں بچوں کی صف میں بیٹھا رہتا ہوں۔ اگر ٹیچرکا ٹیچنگ میتھڈ ٹھیک ہو مگر میری موجودگی سبب اعتماد کھو رہی ہو تو تب بھی ایسی ٹیچر کو نہیں رکھتا۔ ایک اچھے ٹیچر کی بنیادی خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ ہر بچے کو اسکی نفسیات کے مطابق ڈیل کرے اور اور پوری کلاس کو اپنے فن تدریس کے سحر میں جکڑ دے۔ اگر وہ یہ سحر نہیں جانتی تو وہ ٹیچر نہیں ہے۔

ہمارے سکول کے طلباء کو ٹیوٹر کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ہم بچوں کی کاپیوں کا ڈبل سیٹ رکھتے ہیں، ایک کلاس ورک کا دوسرا ہوم ورک کا، کلاس ورک کاپیاں پورا سال سکول میں ہی رہتی ہیں، گھر لے جانے کی اجازت نہیں ہوتی۔ ٹیچر جو پڑھاتی ہے اسے کلاس ورک کاپی پر اتارنے کا ٹائم دیا جاتا ہے اور کلاس ورک اسی دن اسی پیریڈ میں چیک کر لیا جاتا ہے کہ کوئی ڈنڈی تو نہیں ماری گئی۔ یہی کلاس ورک ہوم ورک کے طور پر دیا جاتا ہے۔ اس بات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ بچہ وہ ہوم ورک کسی کی مدد کے بغیر گھر پر نہ کر سکے۔ اس طریقہ تدریس کا سب سے اہم فائدہ یہ ہے کہ پوری کلاس یکساں لائق رہتی ہے۔

عام طور پر سکولوں سے والدین کے نام ثمن جاری ہوتے رہتے ہیں کہ مورخہ فلاں بوقت فلاں حاضر ہوں، حاضر ہونے پر انکے بچے کی ایک فرد جرم پیش کی جاتی ہے جس میں یا تو یہ شکایت ہوتی ہے کہ آپ کا بچہ پڑھائی میں نالائق ہے یا یہ کہ بچہ بد تمیز ہے۔ یاد رکھئے ایسے موقع پر آنے والا ثمن پھاڑ کر اس پرنسپل کی میز پر پھینک دیجئے اور اس سے صاف صاف کہدیجئے کہ جی ہاں ! میرا بچہ نالائق ہی ہے، اسے لائق بنانے کے لئے ہی تو آپ کے پاس بھیجتے ہیں اور بھاری فیس دیتے ہیں اگر آپ اسے لائق نہیں بنا پارہے تو اسکا مطلب یہ ہے کہ آپ خود ہی نالائق ہیں، اگر آپ لائق ہوتے تو ایک بچے کو لائق بنانے میں آپ کو مشکل پیش نہ آرہی ہوتی۔ اسی طرح بدتمیزی کا مسئلہ بھی انہیں کا قصور ہے۔ سکول آپ کو صرف اور صرف ہوم ورک کے مسئلے پر ہی طلب کر سکتا ہے۔

عام طور پر نرسری یا پلے گروپ والے بچے پہلے ہفتے کے دوران روتے ہیں، ایسے مواقع پر ماں سکول میں رکنے پر اصرار کرتی ہے تاکہ اس کی موجودگی سے بچے کی ڈھارس بندھی رہے، یہ خطرناک غلطی ہے، کیونکہ یہ مائیں کلاس کے امور میں دخل دینے لگتی ہیں اور دوسری بات یہ کہ بچہ سکول میں بھی ماں کا عادی ہونے لگتا ہے، اوسطاََ ایک نیا بچہ سکول میں تین دن روتا ہے اسکے بعد خود بخود کلاس میں دلچسی لینے لگتا ہے، بعض بچے ایک ہفتہ بھی رونے میں گزاردیتے ہیں لیکن ایسے بچے ہزار میں ایک ہی سامنے آتے ہیں۔ یہ تین سال کی عمر کے بچے ہوتے ہیں اچانک نئے اور اجنبی ماحول میں آنے سے گھبرا جاتے ہیں، یہ سرے سے کوئی سنجیدہ مسئلہ ہی نہیں ہے، ہر مونٹیسوری سکول کے نئے تعلیمی سال کا پہلا ہفتہ "ہفتہ گریہ" ہی ہوتا ہے۔

<<< پچھلا صفحہ اگلا صفحہ >>>

تعمیر نیوز

اس بلاگ کی مذید تحاریر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

Powered by Blogger.