May 2014

انڈین پریمئر لیگ (آئی ۔ پی ۔ ایل ) . . . ایسا کیوں ہے ؟ ؟ ؟ ؟

ایسا کیوں ہے ؟ ؟ ؟ ؟
۔
۔
۔
۔
۔
۔


انڈین پریمئر لیگ   (آئی   ۔  پی ۔  ایل )

میں  ۔ ۔ ۔ ۔

۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔



پاکستانی  امپائر  ۔ ۔ ۔ ۔ ۔




پاکستانی  کامینٹیٹر  ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔



پاکستانی   کوچ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔


 


مگر   ۔ ۔ ۔ ۔ 
۔
۔
۔
۔
۔
۔


پاکستانی  کھلاڑی  ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  ؟ ؟ ؟ 




تیری آنکھیں تيری زلفیں تیرا شانہ دیکھوں


تیری آنکھیں تيری زلفیں تیرا شانہ دیکھوں
بارہا خواب میں منظر یہ سہانہ دیکھوں

لوگ سارے تو تیرے شہر کے دیوانے ہیں
میری خواہش ہے کہ میں تیرا زمانہ دیکھوں

ریت پہنی ہوئی مکّہ کی گزرگاہوں پر
نیچی نظروں سے تیرا غار میں جانا دیکھوں

تیرے کمبل سے تیرے جسم کی خوشبو سونگھوں
تجھ پہ اترا تھا جو حکمت کا خزانہ دیکھوں

تیرے  فاقوں  نے کئی دن کی کڑی بھوک کے بعد ۔ ۔
فاطمہ  کو جو کھلایا تھا وہ کھانا دیکھوں

حکم اللہ سے اس رات کی خاموشی میں
سوئے یثرب تجھے ہوئے میں روانہ دیکھوں

پائے صدیق  کو جس سانپ نے بار بار ڈسا 
میں اسی سانپ کا گمنام ٹھکانہ دیکھوں


دف بجاتے ہوئے ہاتھوں کی خوشی کو سمجھوں
تیری آمد پہ وہ دربار سجانا دیکھوں

جنگ خندق میں جو باندھے تھے وہ پتھر چوموں
اور مصیبت میں تیرا ساتھ نبھانا دیکھوں

ڈر کے دشمن تیرے خوف سے تھرّائیں مگر
معاف کرنے کا وہ انداز پرانا ديکھوں

چشم اطہر کو خدایا وہ بصارت دے دے
قبلہ رو ہو کے محمد  کو روزانہ دیکھوں۔


دینی مدارس کے طلباء اور ٹیکنیکل کام ـ تجویز یا اعتراض

دینی مدارس کے طلباء اور ٹیکنیکل کام ـ


 درس نظامی کے طلبا ہنر مندی سے عاری ہوتے ہیں۔ انہیں ٹیکنیکل کام سکھائے جائیں تاکہ معاشی طورپر خود کفیل ہو کر اسلام کی خدمت فی سبیل اللہ سر انجام دے سکیں  ۔ ۔ ۔ !!!

اسے اعتراض کہیں یا تجویز  ؟ ؟ ؟ 


معمولی سوجھ بوجھ رکھنے والا شخص بھی اگر غورکرے تو یہ سوچنے پر مجبور ہوجائیگا کہ دینی مدارس کے فضلا اور مولوی حضرات کے ساتھ یہ امتیاز ی سلوک کیوں ہے ! وکیلوں اور ججوں سے کیوں نہیں کہا جاتاکہ وہ ٹیکنیکل کام سیکھ کر اپنی گزر بسر کریں اور قوم کی قانونی رہنمائی فی سبیل اللہ سر انجام دیں ! ڈاکٹر وں اور انجینئروں سے کیوں نہیں کہا جاتا کہ وہ دستکاری اور ہنر سیکھ کر اپنے اخراجات پورے کریں اور طبی مشورے اور تعمیراتی رہنمائی، خدمت خلق کے جذبہ کے تحت بلا معاوضہ سر انجام دیں ! اسمبلی ممبران اور انتظامی امور چلانے والے افسران سے کیوں نہیں کہا جاتاکہ وہ قانون سازی اور انتظامی معاملات کو قومی جذبہ سےسرشار ہو کر انجام دیا کریں اور اپنے ذاتی اور گھریلو اخراجات کیلئے کوئی ہنر سیکھ کر ’’الکاسب حبیب اللہ‘‘ پر عمل کرنے کی سعادت حاصل کیا کریں۔۔۔!

اگر وکیل عدالت میں پیش ہونیکا سلیقہ سکھا تا ہے اور قانونی رہنمائی فراہم کرکے حق الخدمت وصول کرتاہے تو ایک عالم دین، احکم الحاکمین کے دربار میں پنج وقتہ پیشی میں معاونت کرتاہے اور مذہبی رہنمائی فراہم کرتاہے ۔۔۔! اگر جج لوگوں کے مقدمات کے فیصلے کرکے تنخواہ کا مستحق ہوتاہے توایک عالم دین مسلمانوں کے معاملات اور مسائل کو کتاب وسنت کی روشنی میں سلجھا کر معاشرہ کی بہت بڑی ضرورت پوری کرتاہے۔ اگر ڈاکٹر جسمانی علاج کرتاہے تو ایک عالم دین جسمانی تقاضوں کو شریعت کے مطابق پورا کرنیکا طریقہ بتاتا ہے اور روحانی علاج میں رہنمائی فراہم کرتاہے۔  اگر انجینئر آپ کو سر چھپا نے کی جگہ بنانے میں مشوروں سے نوازتاہے اور مشینری کے ستعمال کے طریقے بتاتا ہے تو ایک عالم دین قبر کی تعمیر وکشادگی، عرش کا سایہ اور جنت کے عظیم الشان محلات کی تعمیر میں آپ کو مشورے دیتاہے اور آپ کے جسم کی مشینری کے جائز استعمال کے طریقے سکھاتاہے آپ ذرا کسی ایسے مفتی صاحب کا تصور کریں جو ٹیکنیکل کام سیکھ کر روزی کمانے کی فکر میں ہو۔ آپ کوئی اہم مسئلہ پوچھنے دارالافتا پہنچے تو معلوم ہوا کہ مفتی صاحب کسی کی واشنگ مشین یا ریفریجریٹر ٹھیک کرنے گئے ہوئے ہیں یا ادھاری وصول کرنے گئے ہوئے ہیں۔

فوری ضرورت کا مسئلہ درپیش ہے مگر مولانا صاحب اپنے اور بچوں کے معاش کا انتظام کرنے میں مصروف ہیں۔ اگر مولوی صاحب کی دکان صدر میں ہے اور امامت شہر کے کسی دوردراز  علاقے میں کرواتے ہیں تو ذرا انصاف سے بتلائیے کہ اوپر تلے عصر، مغرب اور عشا کی امامت کیلئے کیا صورت اختیار کی جائے گی؟ عوام کا تو یہ حال ہے کہ خود بھلے چوتھی رکعت میں پہنچیں مولوی صاحب کسی مجبوری کے سبب اگر چار منٹ بھی لیٹ ہوجائیں تو انہیں خونخوار نظروں سے گھورا جاتا ہے ہمیں فیصلہ یہ کرنا ہوگا کہ دینی مدارس کے فضلا سے ہم نے کس شعبہ\" زندگی میں کام لیناہے؟ ہر فن کے ماہر اور ہر میدان کے شہسوار ہوتے ہیں اور ان کا دائرہ کار ان کا فن ان کے میدان تک محدود ہوتاہے کسی سرجن سے ہم نے کبھی مطالبہ نہیں کیا کہ اسےتعمیراتی نقشوں میں مہارت ہونی چاہئے اور بجری اور سیمنٹ کا تناسب )Ratio( معلوم ہونا چاہئے اور نہ ہی کسی انجینئر کیلئے ہم مشورہ دیتے ہیں کہ اسے آنکھ کے پردے یا دل کی جھلی اور پھیپھڑوں کےفنکشن کے متعلق معلومات نہ ہوں تو اسے ملازمت نہیں ملے گی لیکن دینی مدارس کے فضلا سے ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ انہیں جدید ٹیکنا لوجی میں مہارت ہونی چاہئے اور اپناپیٹ پالنے کیلئے کوئی ہنر سیکھنا چاہئے۔

آخر کیوں؟ ؟؟؟

بشکریہ  فیس بک / واٹس  اپ احباب

<<< پچھلا صفحہ اگلا صفحہ >>>

تعمیر نیوز

اس بلاگ کی مذید تحاریر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

Powered by Blogger.