June 2015

ہماری تلاوت قرآن کریم، اور بچوں پر اسکے اثرات

!!! ہماری تلاوت قرآن کریم، اور بچوں پر اسکے اثرات !!!
تحریر: احمد سعید پالنپوری استاد جامعۃ الشیخ حسین احمد المدنی محلہ خانقاہ دیوبند

آپ بیتی میں حضرت مولانا زکریا صاحب رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ جب انکے ابا حضرت مولانا یحیی کاندھلوی صاحب رحمہ اللہ کا دودھ چھڑایا گیا تو وہ پاؤ پارہ کے حافظ تھے، دو ڈھائی سال کا بچہ پاؤ پارہ کا حافظ بڑی عجیب بات ہے، اسکی وجہ بھی شیخ الحدیث صاحب رحمہ اللہ نے لکھی ہے کہ حضرت مولانا یحیی صاحب رحمہ اللہ کی والدہ محترمہ حمل کے زمانہ میں قرآن کریم کی خوب تلاوت کیا کرتی تھی، اور پیدائش کے بعد بچے کو گود میں لیکر تلاوت قرآن کریم کرتی رہتی تھی، بچہ اسکو سنتا رہتا، اسکی وجہ سے اتنی چھوٹی عمر میں وہ پاؤ پارے کے حافظ ہوگئے تھے، اور سات برس کی عمر میں حضرت مولانا یحیی صاحب رحمہ اللہ نے قرآن شریف حفظ کر لیا تھا، اور حفظ قرآن کریم کے بعد ایک قرآن کریم روز پڑھ لیا کرتے تھے، خود حضرت مولانا یحیی صاحب رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے میں صبح کی نماز پڑھ کر امی بی کے مکان کی چھت پر قرآن شریف شروع کرتا اور دوپہر تک قرآن کریم مکمل کرلیا کرتا تھا، حضرت مولانا عاشق الہی صاحب رحمہ اللہ تذکرة الخلیل میں حضرت مولانا یحیی کاندھلوی صاحب کے حالات میں لکھتے ہیں:

'' ایک مرتبہ میری درخواست پر رمضان میں قرآن شریف سنانے کے لیے میرٹھ تشریف لائے تو میں نے دیکھا کہ دن بھر میں چلتے پھرتے پورا قرآن مجید ختم فرما لیتے، اور افطار کا وقت ہوتا تو ان کی زبان پر قل اعوذ برب الناس ہوتی تھی. ریل سے اترے تو عشاء کا وقت ہوگیا تھا، ہمیشہ باوضو رہنے کی عادت تھی، اسی لیے مسجد میں قدم رکھتے ہی مصلے پر آگئے، اور تین گھنٹے میں دس پارے ایسے صاف اور رواں پڑھے کہ نہ کہیں لکنت تھی، نہ متشابہہ، گویا قرآن شریف سامنےکھلا رکھا ہے، اورباطمینان پڑھ رہے ہیں، تیسرے دن ختم فرماکر روانہ ہوگئے کہ نہ دور کی ضرورت تھی نہ سامع کی '') تذکرة الخلیل 204 (

شیخ الحدیث حضرت مولانا محمدزکریا صاحب رحمہ اللہ اپنے والدمحترم کے حالات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں '': میرٹھ کے اسسفر کے متعلق والد صاحب نے یہ بھی فرمایا کہ میرٹھ کےلوگوں سے معلوم ہوا کہ جب لوگوں میں یہ تذکرہ ہوا کہایک شخص سہارنپور سے تین دن میں قرآن شریف سنانے کےلیے آرہا ہے، تو تیس چالیس حافظ محض امتحان کے لیے میرے پیچھے تراویح پڑھنے کے لیے آتے تھے، والد صاحب کو رمضان المبارک میں میری طرح سے بخار نہیں آتا تھا، دوستوں کے اصرار پر ایک دو دن کے لیے ان کے یہاں جاکر دو شب یا زیادہ سے زیادہ تین شب میں تراویح میں ایک قرآن پڑھ کر واپس آجاتے تھے، مساجد میں عموما تین تین شب میں ہوتا تھا، غیر مساجد میں ایک یا دو شب میں بھی ہوجاتا تھا. 

ایک مرتبہ شاہ زاہد حسین صاحب مرحوم کے اصرار پر دو شب کے اندر قصبہ بہٹ میں ان کے مردانہ مکان میں قرآن پاک سنا کر آئے تھے، مسجد نواب والی قصاب پورہ دہلی میں ایک دفعہ قرآن سنانا مجھے یاد ہے، عزیز مولوی نصیرالدین سلمہ حکیم اسحاق صاحب مرحوم کی مسجد میں ایک مرتبہ قرآن پاک سنا رہے تھے، میرے والد صاحب نور اللہ مرقدہ کسی سفر سے واپس تشریف لارہے تھے، حکیم اسحاق صاحب کی بیٹھک میں استراحت فرما رہے تھے، نصیر الدین کا چودھواں پارہ تھا، سامع بار بار لقمہ دے رہا تھا، وہ باوضو تھے، مسجد میں تشریف لے گئے، اور نصیر الدین کے سلام پھیرنے کے بعد مصلے پر سے ہٹا کر سولہ رکعات میں سولہ پارے ختم کردئے، مصلیوں کو تو گراں ضرور ہوئی، مگر لوگوں کو جلد قرآنپاک ختم ہونے کی خوشی مشقت پر غالب ہوا کرتی ہے. بارہویں رات کو قرآن پاک ختم کرکے سب تھکان بھول گئے

بعض اعزہ کے اصرار پر کاندھلہ میں بھی امی بی رحمہا اللہ کے مکان پر اخیر زمانہ میں ایک مرتبہ قرآن سنانے کا حال تو مجھے بھی معلوم ہے، اور وہ اپنی جوانی کا وہ قصہ سنایا کرتے کہ ساری رات نوافل میں قرآن سنانے میں گذرتی تھی، اور چونکہ ہمارے یہاں نوافل میں چار سے زیادہ مقتدیوں کی اجازت نہیں ہوتی تھی، اس لیے مستورات تو بدلتی رہتی تھیں، اور میرے والد مسلسل پڑھتے رہتے تھے. میرے چچا جان حضرت مولانا محمد الیاس نور اللہ مرقدہ نے بھی کئی رمضان المبارک امی بی کی وجہ سے کاندھلہ گذارے، تراویح تقریبا  ساری رات میں پوری ہوتی تھی، مسجد میں فرض پڑھنے کےبعد مکان تشریف لے جاتے تھے، اور سحر تک تراویح میں چودہپندرہ پارے پڑھتے تھے. 

مولانا رؤف الحسن صاحب نور اللہمرقدہ میرے والد صاحب کے حقیقی ماموں اور میری سابقہ اہلیہ مرحومہ کے والد، جن کا مفصل قصہ تو عنقریب تقوی کے مضمون میں آرہا ہے، اس کا یہ جزو یہاں کے مناسب ہے کہ تیس رمضان المبارک کو الف لام میم سے لے کر قل اعوذ برب الفلق تک ایک رکعت میں اور دوسری رکعت میں قل اعوذ برب الناس پڑھ کر سحر کے وقت اپنی والدہ یعنی امی بی سے یہ کہا کہ '' دو رکعات میں نے پڑھا دیں، اٹھارہ آپ پڑھ لیں '' اور ان کی والدہ امی بی نے سارا قرآن کھڑے ہوکر سنا. بات پر بات نکلتی جاتی ہے، مگر یہ واقعات بھی اکابر کے مجاہدات میں داخل ہیں، اس لیے زیادہ بے محل نہیں.) آپ بیتی، جلد دوم، (104 ص

متعدد ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ ماں کی خوشی، غم، غصہاور پریشانی جیسے حالات سے پیٹ میں پلنے والا بچہ متاثر ہوتا ہے، اگر ماں ایام حمل میں قرآن کریم پڑھے، یا کثرت سے قرآن کریم سنے، تویقینا یہ ماں کیلے بڑی سعادتندی کی بات ہے، اور بچے کیلے بھی مفید تر ہے، شیخ ڈاکٹر محمد راتبالنابلسی کے بقول "قرآن پڑھنے والی حاملہ ماں کا نومولودقرآن سے تعلق رکھنے والا ہوتا ہے". .

نیز ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ دودھ پیتا بچہ اپنے اطراف کی چیزوںکا اثر لیتا ہے، جبکہ اس کے حواس میں سماعت کی سب سےپہلے شروعات ہوتی ہے، بچہ ایام رضاعت میں مفرد الفاظ کوجمع کرنا شروع کردیتا ہے، اگرچہ وہ ایام رضاعت میں انالفاظ کو ادا نہیں کرسکتا، لیکن یہی مفردات کو وہ بعد میں ادا کرنے پر قادر ہوجاتا ہے، اگر دودھ پلانے والی ماں کو اس عرصے میں قرآن کریم کی سماعت یا بآواز بلندتلاوت کا موقعمیسر آجائے، تو کوئی شک نہیں کہ اس کا یہ عمل بچہ پر بہت زیادہ اثر انداز ہوگا، اور بچے کے لیے حفظ قرآن کریم کرنا آسان ہوگا، چھوٹے بچے اکثر اپنے بڑوں کی حرکات وسکنات نقل کرتے ہیں، اگر بچے کے سامنے ہم لوگ کثرتسے تلاوت قرآن کریم کریں، تو ہمارا یہ عمل بچے کے لیے یقینا محبوب بن جائے گا، اور بعدمیں ہمارا یہی عمل بچہ کے حفظ کرنے میں مددگار ثابتہوگا، مزید یہ کہ تلاوت قرآن کریم کی برکات پورے گھر اور پورے کنبےکے لیے باعث خیرہوگی، یقینا تلاوت کیفضیلتاوراسکےثواب کا ہم انداز ہ نہیں لگا سکتے.

مجھے حضرت مولانا یحیی صاحب رحمہ اللہ کے واقعہ کو بیان کرکے یہ بتلانا ہے کہ ہم لوگ رمضان المبارک میں تلاوت قرآن کریم کرتے ہیں، اگر تلاوت قرآن کریم کرتے ہوئے، ہم لوگ اپنے گہر کے چھوٹے بچوں کو اپنے پاس لٹالیں، اور جو تھوڑے بڑے بچے ہیں، انکو اپنے پاس بٹھالیں، اور ان کے سامنے تجوید کی رعایت کے ساتھ قرآن کریم کی تلاوت کریں، تو چھوٹے بچوں پر اس کے عمدہ اثرات مرتب ہونگے، اور بڑے بچے ہماری تلاوت قرآن کریم سن کر پڑھنے کا لہجہ سیکھیں گے، جو بعد میں قرآن کریم کے حفظ میں انکے لیے بھت فائدہ کا باعث ہوگا، اللہ سبحانہ وتعالي ہمیں اپنی اولاد کو قرآن کریم حفظ کروانے کی توفیق عطا فرمائے

آمین ثم آمین یارب العالمین

!!!! رمضان المبارک کیسے گزاریں!!!!

!!!! رمضان المبارک کیسے گزاریں!!!! 


محرر: حضرت مولانا  احمد سعید پالنپوری مدظلہ
استاذ جامعۃ الشیخ حسین احمد المدنی، محلہ خانقاہ دیوبند 
احباب!
 رمضان المبارک کی آمد ہوا چاھتی ہے، گیارہ مہینے مخلوق خدا کے کاموں میں مصروف رہتے ہیں ہم، ایک مہینہ خالق کیلے خاص کرنا چاہیئے، ہوسکتا ہے کہ آنے والا رمضان ہماری زندگی کا آخری رمضان ہو، یا ہمیں یہ سوچنا چاہیئے کہ یہ رمضان ہمارا آخری رمضان ہے، اس رمضان میں ہی ہمیں نامۂ اعمال میں خوب نیکیاں داخل کرنی ہیں ، اور تمام گناہوں کو نامۂ اعمال سے ختم کرنا ہے، توبہ و استغفار، انابت و رجوع الی اللہ میں اپنا وقت زیادہ سے زیادہ مشغول رکھنا چاہیئے،
 رمضان المبارک میں اپنا نظام الاوقات ترتیب دینا چاہیئے، اس لئے کہ شیطان تو بیڑیوں میں جگڑ دیا جاتا ہے، مگر نفس تو ہمہ وقت ساتھ لگا ہوا ہے، وہ ہماری راہ مارے گا۔
اکابر کے طریقوں کو اگر دیکھیں، تو وہ رمضان المبارک کے مہینہ میں قرآن کریم کی خوب تلاوت کیا کرتے تھے، ہمیں بھی انکے نقش قدم پر چلتے ہوئے تلاوت قرآن کریم کو اپنا مشغلہ بنانا چاہیئے، سب سے پہلے تو یہ سوچیں کہ ہم رمضان المبارک میں کتنا وقت تلاوت قرآن کریم میں صرف کرسکتے ہیں، پھر ان اوقات کو تقسیم کریں کہ ہم ان اوقات میں کتنا قرآن کریم پڑھ سکتے ہیں، روزانہ کا ایک پارہ پکڑ لیں، تمام اوقات میں اسی ایک پارہ کو بیس پچیس مرتبہ پڑھ لیں، اس طرح روزانہ کرتے رھیں، ان شاء اللہ رمضان المبارک کے اختتام پر آپ کے بیس پچیس قرآن کریم ختم ہوجائیں گے۔۔۔۔۔
 ساتھ ساتھ میں چلتے پھرتے ذکر و اذکار میں مشغول رہیں، دکان پر بیٹھے ہوئے یاد خداوندی کو مشغلہ بنائیں، گھر سے مسجد جاتے ہوئے کلمۂ طیبہ کا ورد کریں، مسجد سے گھر آتے ہوئے درود شریف پڑھیں، واٹس ایپ اور فیس بک کے استعمال کو یا تو ختم کردیں، یا محدود کردیں،

ہمارے اکابر رمضان المبارک میں تصنیف و تالیف بند کردیا کرتے تھے، اور ہمہ وقت تلاوت قرآن کریم میں مشغول رہا کرتے تھے،ہمیں بھی انہیں حضرات کے نقش قدم پر چلتے ہوئے، اپنے وقت کو زیادہ سے زیادہ کار آمد بنانا چاہیئے، اور اکابر کے نقش قدم پر چلنا چاہیئے

دوسری بات………

آنے والے رمضان المبارک کی خیر و برکتیں صرف ہمیں ہی نہیں حاصل کرنی ہے، ہمارے گھر کی مستورات کو بھی اسکا موقع ملنا چاہیئے ، سب سے پہلے تو اپنے گھر کی مستورات کو جمع کرکے شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا صاحب رحمہ اللہ کی مشہور و معروف کتاب فضائل رمضان کی تعلیم کرنی چاہیئے، تاکہ ہم میں بھی اور گھر والوں میں بھی شوق و ذوق پیدا ہو۔  پھر گھر کی مستورات کا نظام الاوقات ترتیب دینا چاہیئے، کہ کونسا کام کس وقت انکو کرنا ہے، اور انکو انہیں اوقات میں وہ کام کرنے کا پابند کرنا چاہیئے، خالی اوقات میں انکو تلاوت قرآن کریم میں مشغول کرنا چاہیئے۔
مدارس اور تبلیغ کی برکت سے ہمارا قرآن کریم پڑھنا تو اچھا ہوگیا ہے، مگر ہمارے گھر کی مستورات عموماً قرآن کریم صحیح نہیں پڑھا کرتی، تجوید کے قواعد سے ناواقفیت کی بناء پر، لہذا  ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم انکا قرآن کریم صحیح کریں، تجوید کے ہلکے پہلکے قواعد بتاکر انکی تلاوت کو صحیح کرنے کی کوشش کریں، ہم لوگ رمضان المبارک میں گھر کی مستورات پر کام کی بہتات کردیتے ہیں، ایک ایک دن میں کئی کئی قسم کے پکوان بنواتے ہیں، یہ بھی مناسب نہیں ہے، گرمی کا موسم ہے، چولہے کی گرمی بھی ہے، اور وہ روزے سے بھی ہیں، خدارا ان پر رحم کریں، طرح طرح کے پکون نہ بنوائیں، سادا کھانا پکوائیں، پیٹ کیلے تلی ہوئی چیزیں نقصاندہ بھی ہوتی ہیں،سادہ پکوائیں گے، اور سادہ کھائیں گے تو انکو بھی آرام کا وقت ملےگا، اور نظام ہضم بھی صحیح رہے گا، کبھی کبھی خود بھی گھریلو کاموں میں حصہ لیں، تاکہ انکا کام جلدی ختم ہوجائے، تلاوت کرتے ہوئے اگر ہم آلو پیاز چھیل دیں، تو اس سے ہم جورو کے غلام نہیں بن جائیں گے، بلکہ سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرنے والے کہلائیں گے، گھر کی مستورات کو اس کا بھی پابند کریں کہ وہ گھریلو کام کرتے ہوئے ذکر و ازکار میں مشغول رہیں،، اور کام کرتی رہیں، سبزی کاٹتے ہوئے استغفار پڑھیں، آٹا گوندھتے ہوئے، اور روٹی بناتے ہوئے جو سورتیں زبانی یاد ہیں انکی تلاوت کرتی رہیں، سالن بناتے ہوئے اللہ اللہ کھتی رہیں۔

 ان شاء اللہ اگر ہم لوگ اس طریقے سے رمضان المبارک گزارنے کی ترتیب بنالیں، تو یہ ہمارے، اور ہمارے گھر والوں کیلے بہت بہتر رہے گا۔
 اللہ سبحانہ وتعاليٰ ہمیں ان باتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے   ۔ آمین ثم آمین یارب العالمین

<<< پچھلا صفحہ اگلا صفحہ >>>

تعمیر نیوز

اس بلاگ کی مذید تحاریر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

Powered by Blogger.