November 2014

حرم کی مقدس فضاؤں میں گم ہوں . . مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مد ظلہ العالی کا محبت کا کلام

**مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مد ظلہ العالی کا محبت کا کلام **
____________
حرم کی مقدس فضاؤں میں گم ہوں
میں جنت کی ٹھنڈی ہواؤں میں گم ہوں
میں بے گانہ ہوکر ہر اک ماسوا سے
بس اک آشنا کی وفاؤں میں گم ہوں
زبانیں جہاں گنگ ہیں ، لفظ ششدر
تحیر کی ایسی فضاؤں میں گم ہوں
میں کعبے کے بے آب و رنگ پتھروں سے
کرم کی امڈتی گھٹاؤں میں گم ہوں
کبھی سنگِ اسود کی کرنوں سے حیراں
کبھی ملتزم کی دعاؤں میں گم ہوں
مقفل ہے در ، لٹ رہے ہیں خزانے
عطا کی نرالی اداؤں میں گم ہوں
ہر اک دل سے ظلمت کے دل چھٹ رہے ہیں
غلافِ سیہ کی ضیاؤں میں گم ہوں
جو میرے گناہوں کو بھی دھو رہی ہے
میں رحمت کی ان انتہاؤں میں گم ہوں
یہ میزابِ رحمت پہ پُر درد نالے
فلک سے برستی عطاؤں میں گم ہوں
یہ زمزم کے چشمے ، یہ پیاسوں کے جمگھٹ
زمیں سے ابلتی شفاؤں میں گم ہوں
جو اس آستاں کے لگاتے ہیں پھیرے
میں ان کے جنوں کی اداؤں میں گم ہوں
کھڑے ہیں بھکاری ترے در کو تھامے
میں ان کی بلکتی صداؤں میں گم ہوں
یہ سینے سے اٹھتی ندامت کی آہیں
میں ان دردِ دل کی دواؤں میں گم ہوں
یہ کعبے کے درباں ، یہ نازوں کے پالے
میں ان کی پیاری جفاؤں میں گم ہوں
تصور میں یادوں کی محفل سجی ہے
تخیل کی دلکش خلاؤں میں گم ہوں
ابھی شرحِ الفت کی منزل کہاں ہے
ابھی تو تقی! ابتداؤں میں گم ہوں



لا تخافی لا تحزنی (اے عورت ۔ ۔ ۔ مت خوف کر مت غمگین ہو) ۔ ۔ ۔

حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ (م۱۲۳۹ھ، ۱۸۲۲ء) فرماتے ہیں کہ:
’’ میں جس زمانے میں دہلی کہنہ میں رہتاتھا کوچہ انبیاء میں ایک سید کے گھر ایک پوربی باندی رہتی تھی جو بالکل جاہلہ تھی اور نماز کی بھی پابند نہ تھی چونکہ وہ عمر رسیدہ ہو گئی تھی اور گھر کے تمام صاحبزادوں پراپنا حق رکھتی تھی۔ اس لئے و ہ لوگ اس کی بڑی خدمت اور دیکھ بھال کرتے تھے۔

 جب اس کا آخری وقت ہوا تو وہ ایک آواز پوربی لہجے میں بلند کرتی تھی جس کا مطلب ، مفہوم کسی کی سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ حکماء و صلحاء کو بلا کر دریافت کیا گیا کچھ نہ معلوم ہوا۔ آخر میرے چچا شاہ اہل اللہ ؒ کے بلانے کی نوبت آئی۔ وہ تشریف لے گئے انہوں نے معلوم کر لیا کہ اس کی زبان سے   لا تخافی لا تحزنی   (اے عورت! مت خوف کر 'مت غمگین ہو)    نکل رہا ہے –


 چچا صاحب نے اس کے تیمارداروں سے فرمایا کہ اس سے دریافت کرو کہ یہ الفاظ کس وجہ سے کہہ رہی ہے۔بڑی کوشش کے بعد اس نے جواب دیا کہ ایک جماعت (فرشتوں کی آئی ہوئی ہے اس کی زبان سے یہ الفاظ نکل رہے ہیں جو میری زبان پر آگئے) –

پھر آپ نے دریافت کرایا کہ کیا تو ان الفاظ کا مطلب سمجھ رہی ہے؟ اس نے کہا مجھے تو بس اتنا محسوس ہو رہا ہے کہ یہ جماعت مجھے تسلی دے رہی ہے۔

 پھر چچا صاحب نے فرمایا کہ اس سے دریافت کروکس عمل کی وجہ سے یہ تسلی دی جا رہی ہے ؟

 اس نے کچھ دیر کے بعد کہا کہ یہ حضرات کہہ رہے ہیں کہ تیرے پاس اوراعمال خیر تونہیں ہیں ، البتہ توایک دن موسم گرما میں گھی لینے کے لئے بازار گئی تھی جب تو نے گھی لا کر گھر میں جوش دیا تو اس میں سے ایک روپیہ نکلا۔ اول توُ نے چاہا کہ اس روپے کو چپکے سے اپنے پاس رکھ لے ، اپنے کام میں لائے اس لئے کہ کسی کو اس راز کی خبر نہ تھی، پھر یہ خیال کر کے کہ حق تعالیٰ تودیکھ رہا ہے تو نے وہ روپیہ دکاندار کو لوٹا دیا ۔ تیرا یہ عمل اللہ کے یہاں پسند ہوا ، اسی کی وجہ سے ہم تجھ کو بشارت دے رہے ہیں‘‘۔



(ماہنامہ دارالعلوم جلد ۸ شمارہ ۲ صفحہ ۴۰۔ بحوالہ جواہر پارے از مولانا نعیم الدین مکتبہ قاسمیہ اردو بازار لاہور صفحہ ۱۵۶)


’امریکہ کولمبس نے نہیں مسلمانوں نے دریافت کیا‘ . . .

ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے دعویٰ کیا ہے کہ مسلمانوں نے کرسٹوفر کولمبس سے تین صدی قبل ہی براعظم امریکہ دریافت کر لیا تھا۔
استنبول میں لاطینی امریکہ کے مسلمان رہنماؤں کی ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ترک صدر کا کہنا تھا کہ اس بات کا ثبوت کولمبس کی دستاویزات سے ملتا ہے جس میں اس نے کیوبا میں ایک پہاڑی پر مسجد کی موجودگی کا تذکرہ کیا ہے۔طیب ارگان کا کہنا تھا کہ اسلام اور لاطینی امریکہ کا تعلق 12 ویں صدی میں ہی استوار ہو چکا تھا اور مسلمان سنہ 1178 میں اس سرزمین پر پہنچ چکے تھے۔انھوں نے اسی مقام پر ایک مسجد کی تعمیر کی پیشکش بھی کی جس کا ذکر کولمبس نے کیا ہے۔

عام خیال یہی ہے کہ سیاح کرسٹوفر کولمبس نے 1492 میں امریکہ اس وقت دریافت کیا جب وہ بھارت کے لیے نئے بحری راستے کی تلاش میں سفر پر نکلا تھا۔تاہم 1996 میں ایک مسلم مورخ یوسف مروح نے اپنی کتاب میں کولمبس کی دستاویز کے حوالے سے دعویٰ کیا مسلمان سب سے پہلے امریکہ پہنچے اور وہاں دینِ اسلام پھیل چکا تھا۔تاہم بہت سے دیگر مورخین کے خیال میں کولمبس نے اپنے سفر نامے میں مسجد کا نہیں بلکہ مسجد جیسی شکل والی پہاڑی کا تذکرہ کیا تھا۔ترک صدر کا کہنا تھا کہ آج بھی اس پہاڑی پر بہترین مسجد تعمیر ہو سکتی ہے اور وہ اس بارے میں کیوبن حکام سے بات کرنا چاہیں گے۔
خیال رہے کہ شمالی و جنوبی امریکہ پر سب سے پہلے قدم ایشیا سے آنے والے افراد نے رکھے جو ایک خیال کے مطابق آبنائے بہرنگ سے گزر کر 15 ہزار سال قبل وہاں آئے تھے۔شمالی امریکہ پہنچنے والے سب سے پہلے یورپی ناروے کے مہم جو تھے جو کولمبس سے پانچ سو سال قبل وہاں گئے تھے۔

<<< پچھلا صفحہ اگلا صفحہ >>>

تعمیر نیوز

اس بلاگ کی مذید تحاریر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

Powered by Blogger.