June 2011

حق ضرور کہے . . . . .

آپ کے کان بج رہے ہیں۔ دماغ خراب ہے آپ کا۔ 25 سالوں سے امامت کر رہا ہوں ۔ جا کے اپنے کان کا علاج کروائیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ رد عمل تھا ہمارے علاقے کے ایک امام صاحب کا ‘جب میرے ایک ساتھی نے  ان کے قراءت میں ہونے والی غلطی کے بارے میں بتایا ۔ ۔ ۔ ۔

دراصل بات تقریبا" 7-8 مہینے قبل کی ہے ۔ ہمارے بستی کے ایک امام صاحب سے دوران قراءت ایک چھوٹی سے غلطی ہوئے جا رہی تھی  -اللہ سبحانہ و تعالی نے محترم کو  بڑی خوش الحان آواز دی ہے ۔  ایک عجیب انداز ہے ان کی قراءت کا ۔  مجھے اور میرے دوست کو جب بھی موقع ملتا‘ مغرب و عشاء ان کی ہی مسجد میں ادا کرتے ۔ ۔ ۔ بڑا مزہ آتا ان کی قراءت میں قرآن سننے۔ ۔ ۔ ۔ مگر ان سے دوران قراءت ایک غلطی ہوئے جا رہی تھی ۔  ہم لوگوں نے کئی دفعہ بہت ہی غور سے سننے کی کوشش کی کہ کہیں ہمارے سننے میں کوئی کمی رہ جاتی ہو یا اسپیکر کا کوئ مسئلہ ہو۔۔ ۔ ۔ مگر تقریبا" ایک مہینے کے مسلسل غور و خوض کے بعد ہم دونوں اس بات پر متفق ہو گئے کہ غلطی تو امام صاحب کے حرفوں کے ادائیگی میں ہی ہے ۔ ۔ ۔  بس میرے دوست نے عزم کیا کہ اس کے بارے میں وہ امام صاحب کو ضرور بتائے گا ( میں تو پہلے سے ہی کم ہمت ہوں تو میں اس کی جراءت نہ کر سکا) ۔ ۔ ۔  اور جب امام صاحب کو یہ بتایا گیا کہ آپ سے حرفوں کے ادائیگی میں یہ غلطی ہو رہی ۔ ۔  ۔ ۔ ۔ ۔  تو امام صاحب تو چراغ پا ہو گئے ۔ ۔ ۔

خیر ‘ ہم نے  ان کا معاملہ اللہ کے سپرد کر دیا ۔ ۔  اس کے بعد میرے دوست نے ان کی اقتداء میں نماز پڑھنا ہی چھوڑ دی اور ۔ ۔ ۔ ۔ اتفاقا" کچھ مصروفیات اتنی بڑی کہ  میرا بھی اس مسجد میں جانا چھوٹ گیا ۔

گزشتہ ہفتہ اچانک کسی کام سے میرے اس مسجد کی طرف جانا ہوا تو دل میں خیال آیا کہ کیوں نہ ایکبار پھر امام صاحب کی قراءت سنتے جاؤں ۔  جب مغرب میں ان کی قراءت سنی تو ایکدم حیران ہو گیا ۔ ۔ ۔ ۔  حضرت نے تو اپنی غلطی بالکل سدھار دی تھی ۔ ۔ ۔ میں پورے توجہ سے ان کی قراءت کو سننے لگا اور اس کو  کنفرم کرنے کے لئے ۔ ۔ ۔ عشاء بھی وہی ادا کی ۔ ۔ ۔ اور الحمداللہ ۔ ۔ ۔  پکا یقین ہوگیا کہ  امام صاحب نے اپنی غلطی کو درست کر دیا ہے . . .

اس قصے نےمجھے یہ سبق دیا کہ :  حق بات کہتے ہوئے کبھی جھجکنا نہیں چاہیئے ۔ ( ہاں ۔ ۔ ۔ موقع محل کے حساب سے حکمت سے ضرور کہے۔ مگر حق ضرور کہے ) ۔ ۔ ۔ ایک نہ ایک دن وہ ضرور اثر کرتا ہے ۔


کیا یہ شاعر / مصنف کے ساتھ نا انصافی نہیں ہے ؟‌؟

کچھ روز قبل میں اپنے پسندیدہ نعت خواں جناب جنید جمشید صاحب  کا ان کی زندگی میں آنے والے انقلاب کی داستاں ان کی زبانی سب رہا تھا...( جو انہوں نے حج یا عمرہ کے سفر میں سنائی تھی ) آخر میں انہوں نے ایک نعت سنائی اور نعت سے پہلے کہا کہ یہ نعت حضرت سعید احمد خاں صاحب- ر.ح. نے لکھی تھی . . . .  بس میرے دل میں خیال گزرا کہ جب بھی ہم نعت سنتے ہیں ہماری توجہ تو صرف نعت خواں تک محدود رہتی ہے اور ہمارے دل میں اس کی محبت و عظمت پیدا ہوتی ہے اور ہم اس کے ہی گن گانے لگتے ہیں - مگر اصل کمال تو نعت لکھنے والے کا ہوتا ہے. نعت خواں کے پاس صرف اچھی آواز ہوتی  ہے مگر جذبات' خیالات' تصورات وغیرہ تو سب کے سب نعت لکھنے والے کے ہیں -
ہونا تو یہ چاہیئے کہ نعت' حمد' غزل یا اور کوئی گانا ہو . . . اس کو گانے سے پہلے اس کے شاعر کانام بھی لیا جائے . . . وگرنہ شاعر تو بیچارہ یوں ہی گمنان رہ جاتا ہے - اور پورا  credit  تو کوئی اور...( گایک - Singer ) لے جاتا ہے . .

میں نے اس خیال کو شیئر کرنا اس لئے بھی ضروری سمجھا کہ .......... حال میں ہی میں نے محترم جناب سلیم صاحب کی ایک تحریربنام " سیب حرام ہے " اپنے بلاگ میں شامل کی - مجھے اس بات کا قطعی علم نہیں تھا کہ یہ تحریر ان کی ہے . حالانکہ انہوں نے فراخدلی کا ثبوت دیتے ہوئے میری ہمت افزائی کی ... مگر جب مجھے معلوم ہوا کہ یہ تحریر ان کی ہے تو ....میرے ذہن میں پھر وہی خیالات  ابھرے کہ" یہ تو میں نے  ایک مصنف پر ظلم کیا ہے " ایک ندامت ہوئی کہ ان کی اجازت کے بغیر میں نے اپنے بلاگ میں شامل کرکے اچھا نہیں کیا" میں پھر ایک بار ان سے معافی مانگتا ہوں .

اب میں ان خیالات و تجاویز کو تو ہر ایک کے پاس جا کر نہیں بتا سکتا . ( اور ویسے بھی محترم شازل بھائ کا حکم ہے کہ بلاگ پر اپنے تحاریر لکھا کرو ں) تو سوچا کہ کیوں نہ اس کے ساتھ ہی اس کام کا آغاز کروں . . .  ہو سکتا ہے کسی دن یہ ندا بہت دور تک پہنچ جائے ...


نوٹ : چونکہ یہ میری پہلی تحریر ہے اور میں بہت ہی جاہل قسم کا انسان ہوں لہذا' اس میں اگر کسی قسم کی غلطہی ( گرامر وغیرہ کی) ہو تو معذرت .  ہو سکے تو اس کی اطلاع بھی دیں تاکہ مستقبل میں ان سے بچ سکوں)
والسلام

Fake Tomb Pictures

بسم الله الرحمٰن الرحيم


Fake Tomb Pictures  of  Prophet Muhammad (pbuh) : by _ Syed Sirajuddin Sohail

Assalam Alaykum,

This is just a plan of  Few Bad Unbelievers,who created this false image of  Prophet Muhammad (pbuh) Tomb.
as We are guided by the greatest personality of  Mankind,we are not allowed to do anything wrong with them or with there believes.
Below listed pictures with title and “FAKE IMAGE “  claimed as Prophet Muhammad  Tomb picture.I have added all pictures being used on net.It was sent for an auction also.
The only known photograph,above, of the tomb of the Prophet Muhammad in Medina, a site revered by Muslims across the globe, is expected to fetch at least £90,000.
It was this picture that was auctioned(i think) :
(without added sticker ofcource)

picture 1

Rauza-e-rasool


picture : 2

prophet_muhammad_pbuh_tomb4

picture 3

prophet_muhammad_pbuh_tomb1

Picture 4:

prophet_muhammad_pbuh_tomb2

Picture 5:

prophet_muhammad_pbuh_tomb3

Picture 6:

prophet_muhammad_pbuh_tomb5

People’s are so much blind that many have taken print out of picture and hanging on Walls in home.

WHERE IS PROPHET TOMB ,CAN WE SEE ???

Its behind these walls.We are not allowed to see ! those who try,they just see darkness,few dust ,light .



7395949941eeb826589bxy0 copy



SO,WHOSE TOMB PICTURES ?????

The tomb on the photo’s are not the BLESSED one of our Prophet (salallahu aleyhi was salaam) but it is the tomb of Osman Ghazi, the first sultan of the Ottoman Empire and MAULANA RUMI(Turkey).
For More Information about Osman-Gazi .

And here is the proof : match these pictures..


Osman-Gazi tomb old postcards:

osmangazi3rp6



osmangazikartpostaldl0

And the state of the tomb in recent times:

osman_gazi



othmangazi_grave2

othmangazi_grave


separator

MAULANA RUMI TOMB PICTURES



What a pity that in many Muslim countries this tomb is presented as the tomb of the Prophet (salallahualeyhi sallam) and pictures are sold and are hanged into houses.
PS: The Prophet’s (salallahu aleyhi was salaam) has no tomb or sanduqa on it.

Al-Qadi ‘Iyad has reported from the major scholars that it is best to make a hump over the grave because Sufyan an-Nammar told him that he had seen the grave of the Prophet, peace be upon him, with a hump over it.” (Bukhari)
Ja’far bin Muhammad reported from his father: “The grave of the Prophet, peace be upon him, was raised one hand from the ground and was coated with red clay and some gravel.” This was narrated by Abu Bakr An-Najjad

ضربِ کلیم : لا الہ الا اللہ

 خودی   کا   سر   نہاں   لا  الہ  الا  اللہ
خودی  ہے  تیغ،  فساں  لا  الہ  الا  اللہ

یہ  دور  اپنے براہیم کی تلاش میں ہے
صنم   کدہ   ہے  جہاں،  
لا  الہ  الا  اللہ

کیا  ہے  تو  نے  متاع  غرور  کا سودا
فریب  سود  و  زیاں  ،  
لا  الہ  الا  اللہ

یہ  مال  و  دولت دنیا، یہ رشتہ و پیوند
بتان   وہم   و   گماں،   
لا  الہ  الا  اللہ

خرد ہوئی ہے زمان و مکاں کی زناری
نہ  ہے  زماں  نہ  مکاں،  
لا  الہ  الا  اللہ

یہ  نغمہ  فصل  گل  و لالہ کا نہیں پابند
بہار   ہو   کہ   خزاں،   
لا  الہ  الا  اللہ

اگرچہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں
مجھے  ہے  حکم  اذاں،  
لا  الہ  الا  اللہ

ضربِ کلیم : علامہ اقبال

بلبیرسنگھ: سابق صدر، شیو سینا یوتھ ونگ کا قبول اسلام

بلبیرسنگھ: سابق صدر، شیو سینا یوتھ ونگ کی اسلام قبول کرکے ماسٹر محمد عامرہونے کی کہانی خود اُن کی زبانی

ایک چشم کشاملاقات

ماسٹرمحمد عامر : السلام علیکم وحمتہ اللہ
احمد اواہ : وعلیکم السلام و رحمة اللہ و برکاتہ

سوال : ماسٹر صاحب ایک عرصے سے ابی( مولانا کلیم صدیقی) کا حکم تھا کہ میں ارمغان کے لئے آپ سے انٹرویو لوں اچھا ہوا آپ خود ہی تشریف لے آئے آپ سے کچھ باتیں کرنی ہیں۔
جواب : احمد بھائی آپ نے میرے دل کی بات کہی، جب سے ارمغان میں نو مسلموں کے انٹرویو کا یہ سلسلہ چل رہا ہے، میری خواہش تھی کہ میرے قبول اسلام کا حال اس میں چھپے،اس لئے نہیں کہ میرا نام ارمغان میں آئے، بلکہ اس لئے کہ دعوت کا کام کرنے والوں کا حوصلہ بڑھے اور دنیا کے سامنے کریم وہادی رب کی کرم فرمائی کی ایک مثال سامنے آئے اور دعوت کا کام کرنے والوں کو یہ معلوم ہوکہ جب ایسے کمینے انسان اور اپنے مبارک گھر کو ڈھانے والے کو اللہ تعالیٰ ہدایت سے نواز سکتے ہیں تو عام شریف اور بھولے بھالے لوگوں کے لئے ہدایت کے کیسے مواقع ہیں۔
سوال : آپ اپنا خاندانی تعارف کرائیں ؟
جواب : میرا تعلق صوبہ ہریانہ کے پانی پت ضلع کے ایک گاﺅں سے ہے میری پیدائش ۶(چھ) دسمبر ۱۹۷۰ءکو ایک راجپوت گھرانے میں ہوئی، میرے والد صاحب ایک اچھے کسان ہونے کے ساتھ ساتھ ایک پرائمری اس کول میں ہیڈ ماسٹر تھے، وہ بہت اچھے انسان تھے اور انسانیت دوستی ان کا مذہب تھا، کسی پر بھی کسی طرح کے ظلم سے انہیں سخت چڑ تھی ۱۹۴۷ءکے فسادات انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھے تھے وہ بہت کرب کے ساتھ ان کا ذکر کرتے اور مسلمانوں کے قتل عام کو ملک پر بڑا داغ سمجھتے تھے بچے کھچے مسلمانوں کو بسانے میں وہ بہت مدد کرتے تھے، اپنے اسکول میں مسلمان بچوں کی تعلیم کا وہ خاص خیال رکھتے تھے، میراپیدائشی نام بلبیر سنگھ تھا اپنے گاﺅں کے اسکول سے میں نے ہائی اسکول کرکے انٹرمیڈیٹ میں پانی پت میں داخلہ لیا، پانی پت شاید بمبئی کے بعد شیوسینا کا سب سے مضبوط گڑھ ہے، خاص طور پر جو ان طبقہ اور اسکول کے لوگ شیوسینا میں بہت لگے ہوئے ہیں، وہاں میری دوستی کچھ شیوسینکوں سے ہوگئی اور میں نے بھی پانی پت شاکھا میں نام لکھا لیا، پانی پت کے اتہاس (تاریخ) کے حوالے سے وہاں نوجوانوں میں، مسلمانوں خاص طور پر بابر اور دوسرے مسلمان بادشاہوں کے خلاف بڑی نفرت گھولی جاتی تھی، میرے والد صاحب کو جب میرے بارے میں معلوم ہوا کہ میں شیو سینا میں شامل ہوگیا ہوں تو انہوں نے مجھے بہت سمجھایا، انہوں نے مجھے اتہاس کے حوالے سے سمجھانے کی کوشش کی، انہوں نے بابر خاص طور پر اورنگ زیب کی حکومت کے انصاف اور غیر مسلموں کے ساتھ ان کے عمدہ سلوک کے قصے سنائے اور مجھے بتانے کی کوشش کی کہ انگریزوں نے غلط تاریخ ہمیں لڑانے کے لئے اور دیش کو کمزور کرنے کے لئے گھڑ کر تیار کی ہے، انہوں نے ۱۹۴۷ءکے ظلم اور قتل غارت گری کے قصوں کے حوالے سے مجھے شیوسینا سے باز رکھنے کی کوشش کی، مگر میری سمجھ میں کچھ نہ آیا۔
سوال : آپ نے پھلت کے قیام کے دوران بابری مسجد کی شہادت میں اپنی شرکت کا قصہ سنایاتھا، ذرا اب دوبارہ تفصیل سے سنایئے؟
 جواب : وہ قصہ اس طرح ہے کہ ۱۹۹۰ءمیں ایڈوانی جی کی رتھ یا ترا میںمجھے پانی پت کے پروگرام کی خاصی بڑی ذمہ داری سونپی گئی رتھ یاترا میں ان ذمہ داروں نے ہمارے روئیں روئیں میں مسلم نفرت کی آگ بھر دی میں نے شیواجی کی سوگندھ کھا ئی کہ کوئی کچھ بھی کرے میں خود ا کیلے جاکر رام مندر پر سے اس ظالمانہ ڈھانچہ کو مسمار کروں گا، اس یاترا میں میری کارکردگی کی وجہ سے مجھے شیو سینا کے یوتہ ونگ کا صدر بنا دیا گیا، میں اپنی نوجوان ٹیم کو لے کر ۳ اکتوبر کو ایودھیا گیا، راستہ میں ہمیں پولس نے فیض آباد میں روک دیا،میں اور کچھ ساتھی کسی طرح بچ بچا کر پھر بھی ایودھیا پہنچے، مگر پہنچنے میں دیر ہو گئی اور اس سے پہلے گولی چل چکی تھی اور بہت کوشش کے با وجود میں بابری مسجد کے پاس نہ پہنچ سکا میری نفرت کی آگ اس سے اور بھڑکی میں اپنے ساتھیوں سے بار بار کہتا تھا اس جیون سے مر جانا بہتر ہے رام کے دیش میں عرب لٹیروں کی وجہ سے رام کے بھگتوں پر رام جنم بھومی پر گولی چلا دی جائے، یہ کیسا انیائے اور ظلم ہے، مجھے بہت غصہ تھا، کبھی خیال ہوتا تھا کہ خود کشی کر لوں کبھی دل میں آتا تھا کہ لکھنو_¿ جا کر ملائم سنگھ کو اپنے ہاتھ سے گولی مار دوں، ملک میں فسادات چلتے رہے اور میں اس دن کی وجہ سے بے چین تھا کہ مجھے موقعہ ملے اور میں بابری مسجد کو اپنے ہاتھوں مسمار کروں۔ایک ایک دن کر کے وہ منحوس دن قریب آیا جسے میں اس وقت کاخوشی کا دن سمجھتا تھا میں اپنے کچھ جذباتی ساتھیوں کے ساتھ ایک دسمبر ۱۹۹۲ ءکو پہلے ایودھیا پہنچا میرے ساتھ سونی پت کے پاس ایک جاٹوں کے گاو_¿ں کا ایک نوجوان یوگیندر پال بھی تھا جو میرا سب سے قریبی دوست تھا،اس کے والد ایک بڑے زمیندار تھے اور وہ بھی بڑے انسان دوست آدمی تھے، انہوں نے اپنے اکلوتے بیٹے کو ایودھیا جانے سے بہت روکا اس کے تاو بھی بہت بگڑے مگر وہ نہیں رکا۔ہم لوگ چھ دسمبر سے پہلے کی رات میں بابری مسجد کے بالکل قریب پہنچ گئے اور ہم نے بابری مسجد کے سامنے کچھ مسلمانوں کے گھروں کی چھتوں پر رات گزاری، مجھے با ر بار خیال ہوتا تھا کہ کہیں ۳ اکتوبر کی طرح آج بھی ہم اس شبھ کام سے محروم نہ رہ جائیں، کئی بار خیال آیا کہ لیڈر نہ جانے کیا کریں، ہمیں خود جاکر کارسیوا شروع کرنی چاہیئے، مگر ہمارے سنچالک نے ہمیں روکا اور ڈسیپلن بنائے رکھنے کو کہا، اوما بھارتی نے بھاشن دیا اور کارسیوکوں میں آگ بھر دی میں بھاشن سنتے سنتے مکان کی چھت سے اتر کر کدال لے کر بابری مسجد کی چھت پر چڑھ گیا، یوگیندر بھی میرے ساتھ تھا، جیسے ہی اوما بھارتی نے نعرہ لگایا، ایک دھکا اور دو، بابری مسجد توڑ دو، بس میری مرادوں کے پورا ہونے کا وقت آگیا اور میں نے بیچ والے گنبد پر کدال چلائی اور بھگوان رام کی جے کے زور زور سے نعرے لگائے، دیکھتے دیکھتے مسجد مسمار ہوگئی، مسجد کے گرنے سے پہلے ہم لوگ نیچے اتر آئے، ہم لوگ بڑے خوش تھے رام للا کے لگائے جانے کے بعد اس کے سامنے ماتھا ٹیک کر ہم لوگ خوشی سے گھر آئے اور بابری مسجد کی دو دو اینٹیں اپنے ساتھ لائے، جو میں نے خوشی خوشی پانی پت کے ساتھیوں کو دکھائیں، وہ لوگ میری پیٹھ ٹھونکتے تھے، شیو سینا کے دفتر میں وہ اینٹیں رکھ دی گئیں اور ایک جلسہ کیا گیا اور سب لوگوں نے بھاشن میں فخر سے میرا ذکر کیا کہ ہمیں گرَو (فخر)ہے کہ پانی پت کے نوجوان شیوسینک نے سب سے پہلے رام بھکتی میں کدال چلائی، میں نے گھر بھی خوشی سے جاکر بتایا میرے پتا جی بہت ناراض ہوئے اور انھوں نے گہرے دکھ کا اظہار کیا اور مجھ سے صاف کہہ دیا کہ” اب اس گھر میں تو اور میں دونوں نہیں رہ سکتے، اگر تو رہے گا تو میں گھر چھوڑ کر چلاجاﺅں گا نہیں تو تو ہمارے گھر سے چلاجا، مالک کے گھر کے ڈھانے والے کی میں صورت دیکھنا نہیں چاہتا، میری موت تک تو مجھے کبھی صورت نہ دکھانا “مجھے اس کا اندازہ نہیں تھا، میں نے ان کو سمجھانے کی کوشش کی اور پانی پت میں جو سماّن (عزت) مجھے اس کارنامہ پر ملا وہ بتانے کی کوشش کی انھوں نے کہا کہ یہ دیش ایسے ظالموں کی وجہ سے برباد ہوجائے گا اور غصہ میں گھر سے جانے لگے، میں نے موقع کو بھانپا اور کہا آپ گھر سے نہ جائیے میں خود اس گھر میں رہنا نہیں چاہتا جہاں رام مندر بھگت کو ظالم سمجھا جاتا ہو اور میں گھر چھوڑ کر آگیا اور پانی پت میں رہنے لگا ۔
سوال : اپنے قبول اسلام کے بارے میں بتائیں ؟ 
جواب : پیارے بھائی احمد !میرے اللہ کیسے کریم ہیں کہ ظلم اور شرک کے اندھیرے سے مجھے، نہ چاہتے ہوئے، اسلام کے نور اور ہدایت سے مالا مال کیا، مجھ جیسے ظالم کو جس نے اس کا مقدس گھر شہید کیا ہدایت سے نوازا، ہوا یہ کہ میرے دوست یوگیندر نے بابری مسجد کی اینٹیں لاکر رکھیں اور مائک سے اعلان کیا کہ رام مندر پر بنے ظالمانہ ڈھانچہ کی اینٹیں سوبھاگیہ(خوش قسمتی ) سے ہماری تقدیر میں آگئی ہیں سب ہندو بھائی آکر ان پر (موت دان ) پیشاب کریں، پھر کےا تھا،بھیڑلگ گئی، ہر کوئی آتا تھا اور ان اینٹوں پر حقارت سے پیشاب کرتا تھا مسجد کے مالک کو اپنی شان بھی دکھانی تھی چار پانچ روز کے بعد یوگیندر کا دماغ خراب ہوگیا، پاگل ہوکر وہ ننگا رہنے لگا، سارے کپڑے اتاراتھا، وہ عزت والے زمیندار چودھری کا اکلوتا بیٹا تھا، اس پاگل پن میں وہ بار بار اپنی ماں کے کپڑے اتار کر اس سے منھ کالا کر نے کو کہتا، بار بار اس گندے جذبہ سے اس کو لپٹ جاتا اس کے والد بہت پریشان ہوئے بہت سے سیانے اور مولانا لوگوں کو دکھایا، بار بار مالک سے معافی مانگتے، دان کرتے، مگر اس کی حالت اور بگڑتی تھی، ایک روز وہ باہر گئے تو اس نے اپنی ماں کے ساتھ گندی حرکت کرنی چاہی، اس نے شور مچایا دیا، محلہ والے آئے، تو جان بچی، اس کو زنجیر میں میں باند ھ دیا گیا، یوگیندر کے والد عزت والے آدمی تھے، انھوں نے اس کو گولی مارنے کا اراد ہ کرلیاکسی نے بتایا کہ یہاں سونی پت میں عیدگاہ میں ایک مدرسہ ہے وہاں بڑے مولانا صاحب آتے ہیں، آپ ایک دفعہ ان سے اور مل لیں، اگر وہاں کوئی حل نہ ہو تو پھر جو چاہے کرنا، وہ سونی پت گئے تو معلوم ہوا کہ مولانا صاحب تو یہاں پہلی تاریخ کو آتے ہیں اور پرسوں پہلی جنوری کو آکر ۲تاریخ کی صبح میں جاچکے ہیں، چودھری صاحب بہت مایوس ہوئے اور کسی جھاڑ پھونک کرنے والے کو معلوم کیا، معلوم ہواکہ مدرسہ کے ذمہ دار قاری صاحب یہ کام کر دیتے ہیں، مگر وہ بھی مولانا صاحب کے ساتھ سفر پر نکل گئے ہیں، عیدگاہ میں ایک دوکاندار نے انہیں مولانا کا دہلی کا پتہ بتایا کہ پرسوں بدھ میں حضرت مولانا نے (بوانے، دہلی )میں ان کے یہاں آنے کا وعدہ کیا ہے، وہ لڑکے کو زنجیر میں باندھ کر بوانہ کے امام صاحب کے پاس لے گئے، وہ آپ کے والد صاحب کے مرید تھے اور بہت زمانے سے ان سے بوانہ کے لئے تاریخ لیناچاہتے تھے مولانا صاحب ہر بار ان سے معذرت کررہے تھے، اس بار انھوں نے ادھر کے سفر میں دو روز کے بعد ظہر کی نماز پڑھنے کا وعدہ کر لیا تھا،بوانہ کے امام صاحب نے بتایا کہ حالات کے خراب ہونے کی وجہ سے ۶ (چھ)دسمبر ۱۹۹۲ءسے پہلے ہریانہ کے بہت سے امام اور مدرسین یہاں سے یوپی اپنے گھروں کو چلے گئے تھے اور ان میں سے بعض ایک مہینہ تک نہیں آئے اس لئے مولانا صاحب نے پہلی تاریخ کواس موضوع پر تقریر کی اور بڑا زور دے کریہ بات کہی کہ مسلمان نے ان غیر مسلم بھائیوں کو اگر دعوت دی ہوتی اور اسلام، اللہ اور مساجد کا تعارف کرایا ہوتا تو ایسے واقعات پیش نہ آتے، انھوں نے کہا کہ بابری مسجد کی شہادت کے بیک واسطہ ہم مسلمان ذمہ دار ہیں اور اگر اب بھی ہمیں ہوش آجائے اور ہم دعوت کا حق ادا کرنے لگیں تو یہ مسجد گرانے والے، مسجدیں بنانے اور کرنے والے بن سکتے ہیں، ایسے موقع پر ہمارے آقااللّھم اھد قومی فانھم لا یعلمون (اے اللہ، میری قوم کو ہدایت دے، اس لئے کہ یہ لوگ جانتے نہیں)فرمایا کرتے تھے۔یوگیندر کے والد چودھری رگھوبیر سنگھ جب بوانہ کے کے امام (جن کا نام شاید مولانا بشیر احمد تھا )کے پاس پہنچے، تو ان پر اس وقت اپنے شیخ کی تقریر کا بڑااثرتھا، انھوں نے چودھری صاحب سے کہا کہ میں جھاڑ پھونک کا کام کرتا تھا مگر اب ہمارے حضرت نے ہمیں اس کام سے روک دیا، کیونکہ اس پیشہ میں جھوٹ اور عورتوں سے اختلاط (میل ملاپ )بہت ہوتا ہے اور اس لڑکے پر کوئی اثر یا جادو وغیرہ نہیں بلکہ مالک کا عذاب ہے، آپ کے لئے ایک موقع ہے، ہمارے بڑے حضرت صاحب پر سوں بدھ کے روز دوپہر کو یہاں آرہے ہیں، آپ ان کے سامنے بات رکھیں، آپ کا بیٹا ہمیں امید ہے کہ ٹھیک ہو جائے گا، مگر آپ کو ایک کام کرنا پڑے گا، وہ یہ کہ اگر آپ کا بیٹا ٹھیک ہو جائے تو مسلمان ہونا پڑے گا، چودھری صاحب نے کہا کہ میرا بیٹا ٹھیک ہو جائے تو میں سب کام کرنے کو تیار ہوں۔تیسرے روز بدھ تھا چودھری رگھو بیر صاحب یو گیندر کو لے کر صبح ۸بجے بوانہ پہنچ گئے، دوپہر کو ظہر سے پہلے مولانا صاحب آئے، یو گیندر زنجیر میں بندھا ننگ دھڑنگ کھڑا تھا، چودھری صاحب روتے ہوئے مولانا کے قدموں میں گر گئے اور بولے کہ مولانا صاحب میں نے اس کمینہ کو بہت روکا، مگر یہ پانی پت کے ایک اوت کے چکر میں آگیا مولانا صاحب مجھے شما کرا دیجئے میرے گھر کو بچا لیجئے مولانا صاحب نے سختی سے انہیں سر اٹھانے کے لئے کہا اور پورا واقعہ سنا۔انہوں نے چودھری صاحب سے کہا کہ سارے سنسار کو چلانے والے سرو شکتی مان (قادر مطلق )خدا کا گھر ڈھا کر انہوں نے ایسا بڑا پاپ( ظلم ) کیا ہے کہ اگر وہ مالک سارے سنسار کوختم کردے تو ٹھیک ہے، یہ تو بہت کم ہے کہ اس اکیلے پر پڑی ہے، ہم بھی اس مالک کے بندے ہیں اورایک طرح سے اس بڑے گھنگھور پاپ (بڑے گناہ ) میں ہم بھی قصوروار ہیں کہ ہم نے مسجد کو شہید کرنے والوں کو سمجھانے کاحق ادا نہیں کیا، اب ہمارے بس میں کچھ بھی نہیں ہے بس یہ ہے کہ آپ بھی اس مالک کے سامنے گڑگڑ ائیں اور شمامانگیں اور ہم بھی معافی مانگیں، مولانا صاحب نے کہا، جب تک ہم مسجد میں پروگرام سے فارغ ہوں آپ اپنے دھیان کو مالک کی طرف لگا کر سچے دل سے معافی مانگیں اورپرارتھنا (دعا) کریں کہ مالک میری مشکل کو آپ کے علاوہ کوئی نہیں ہٹا سکتا، چودھری صاحب پھر مولانا صاحب کے قدموں میں گر گئے اوربولے جی میں اس لائق ہوتا یہ دن کیوں دیکھتا، آپ مالک کے قریب ہیں، آپ ہی کچھ کریں مولانا صاحب نے ان سے کہا کہ آپ میرے پاس علاج کے لئے آئے ہیں، اب جو علاج میں بتا رہا ہوں وہ آپ کوکرنا چاہنے، وہ راضی ہوگئے مولا نا صاحب مسجد میں گئے، نما ز پڑھی تھوڑی دیر تقریر کی اور دعا کی، مولانا صاحب نے سبھی لوگوںسے چودھری صاحب کے لئے دعا کو کہا، پروگرام کے بعد مسجد میں ناشتہ ہوا، ناشتہ سے فارغ ہو کر مسجد سے باہرنکلے تومالک کا کرم کہ یوگیندر نے اپنے باپ کی پگڑی اتار کر اپنے ننگے جسم پر لپیٹ لی تھی اورٹھیک ٹھاک اپنے والد صاحب سے بات کررہا تھا، سب لوگ بہت خوش ہوئے ، بوانہ کے امام صاحب تو بہت خوش ہوئے، انھوں نے چودھری صاحب کو وعدہ یاد دلایا اور اس کو ڈرایا بھی کہ جس مالک نے اس کو اچھا کیاہے اگر تم وعدہ کے مطابق مسلمان نہیں ہوتے ہوتو پھر یہ دوبارہ اس سے زیادہ پاگل ہوسکتا ہے، وہ تیار ہوگئے اور امام صاحب سے بولے، مولانا صاحب میری سات پشتیں آپ کے احسان کا بدلہ نہیں دے سکتیں، آپ کاغلام ہوں، جہاں چاہیں آپ مجھے بیچ سکتے ہیں، حضرت مولانا کو جب یہ معلوم ہوا کہ امام صاحب نے اس سے ٹھیک ہونے کا ایسا وعدہ کرلیا تھا، تو انھوں نے امام صاحب کو سمجھا یاکہ اس طرح کرنااحتیاط کے خلاف ہے۔چودھری صاحب کو مسجد میں لے جانے لگے، تو یوگیندر نے پوچھا پتا جی کہاں جارہے ہو انھوں نے کہا مسلمان بننے، تو یوگیندر نے کہا، مجھے آپ سے پہلے مسلمان بننا ہے اور مجھے تو بابری مسجد دوبارہ ضرور بنوانی ہے، خوشی خوشی ان دونوں کو وضو کرایا اور کلمہ پڑھوایا گیا، والد صاحب کا محمد عثمان اور بیٹے کا محمد عمر نام رکھا گیا، خوشی خوشی وہ دونوں اپنے گاﺅں پہنچے وہاں پر ایک چھوٹی سی مسجد ہے، اس کے امام صاحب سے جاکر ملے، امام صاحب نے مسلمانوں کو بتادیا، بات پورے علاقہ میں پھیل گئی، ہندﺅوں تک بات پہنچی، تو قوت دار لوگوں کی میٹنگ ہوئی اور طئے کیا کہ ان دونوں کو رات میں قتل کروایا جائے، ورنہ نہ جانے کتنے لوگوں کا دھرم خراب کریں گے، اس میٹنگ میں ایک مرتد بھی شریک تھا اس نے امام صاحب کو بتادیا، اللہ نے خیر کی ان دونوں کو راتوں رات گاﺅں سے نکالا گیا، پھلت گئے اور بعد میں جماعت میں ۴۰ چالیس دن کے لئے چلے گئے، یوگیندر نے پھر امیر صاحب کے مشورہ سے تین چلے لگائے، بعد میں ان کی والدہ بھی مسلمان ہوگئیں، محمد عمر کی شادی دہلی میں ایک اچھے مسلمان گھرانے میں ہوگئی اور وہ سب لوگ خوشی خوشی دہلی میں رہ رہے ہیں گاﺅں کا مکان اور زمین وغیرہ بیچ کر دہلی میں ایک کارخانہ لگالیا ہے۔سوال : ماسٹر صاحب آپ سے میں نے، آپ کے اسلام قبول کرنے کے بارے میں سوال کیا تھا آپ نے یوگیندر اور ان کے خاندان کی داستان سنائی، واقعی یہ خود عجیب و غریب کہانی ہے، مگر مجھے تو آپ کے قبول اسلام کے بارے میں معلوم کرنا ہے ؟جواب : پیارے بھائی اصل میں میرے قبول اسلام کو اس کہانی سے الگ کرنا ممکن نہیں، اس لئے میں نے اس کا پہلا حصہ سنایا، اب آگے دوسرا حصہ سن لیجیے، ۹مارچ ۱۹۹۳ءکو اچانک میرے والد کا ہارٹ فیل ہوکر انتقال ہوگیا، ان پر بابری مسجد کی شہادت اور اس میں میر ی شر کت کابڑا غم تھا، وہ میری ممی سے کہتے تھے کہ مالک نے ہمیں مسلمانوں میں پیدا کیوں نہیں کیا، اگر مسلمان گھرانے میں پیدا ہوتے، کم از کم ظلم سہنے والوں میں ہمارا نام آتا، ظلم کرنے والی قوم میں ہمیں کیوں پیدا کردیا، انھوں نے گھر والوں کو وصیت کی تھی کہ میری ارتھی پر بلبیر نہ آنے پائے، میری ارتھی کو یا تو مٹی میں دبانا، یا پانی میں بہادینا، ظالم قوم کے رواج کے مطابق آگ مت لگانا بلکہ ہندﺅوں کے شمشان میں بھی نہ لے جانا، گھر والوں نے ان کی اِچھّا(خواہش ) کے مطابق عمل کیا اور آٹھ دن بعد مجھے ان کے انتقال کی خبر ہوئی، میرا دل بہت ٹوٹا، ان کے انتقال کے بعد بابری مسجد کا گرانا مجھے ظلم لگنے لگا اور مجھے اس پر فخر کے بجائے افسوس ہونے لگا اور میرا دل بجھ سا گیا، میں گھر کو جاتا تو میری ممی میرے والد کے غم کو یاد کرکے رونے لگتیں اور کہتیں کہ ایسے دیوتا باپ کو تونے ستاکر ماردیا تو کیسا نیچ انسان ہے میں نے گھر جانا بند کردیا، جون میں محمد عمر جما عت سے واپس آیا تو پانی پت میرے پاس آیا اور اپنی پوری کہانی بتائی دو مہینہ سے میرا دل ہر وقت خوف زدہ سا رہتا تھا کہ کوئی آسمانی آفت مجھ پر نہ آجائے، والد کا دکھ اور بابری مسجد کی شہادت دونوں کی وجہ سے ہر وقت دل سہما سہما سا رہتا تھا، محمد عمر کی کہا نی سن کرمیں اور بھی پریشان سا ہوا، عمر بھائی نے مجھ پر زور دیا کہ۲۳جون کو سونی پت میں مولانا صاحب آنے والے ہیں، آپ ان سے ضرور ملیں اور اچھا ہے کچھ دن ان کے ساتھ رہیں، میں نے پروگرام بنایا، مجھے پہنچنے میں دیر ہوگئی، عمر بھائی پہلے پہنچ گئے تھے اور مولانا صاحب سے میرے بارے میں پورا حال بتادیا تھا، میں گیا تو مولانا صاحب بڑی محبت سے ملے،اور مجھ سے کہا کہ آپ کی تحریک پر اس گناہ کو کرنے والے یوگیندر کے ساتھ مالک یہ معاملہ کر سکتے ہیں تو آپ کے ساتھ بھی یہی معاملہ پیش آسکتا ہے اور اگر اس دنیا میں وہ مالک سزانہ بھی دے تو مرنے کے بعد ہمیشہ کے جیون میں جو سزاملے گی آپ اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ایک گھنٹہ ساتھ رہنے کے بعد میں نے فیصلہ کرلیا کہ اگر مجھے آسمانی آفت سے بچنا ہے تو مسلمان ہوجانا چاہئے،مولانا صاحب دو روز کے سفر پر جارہے تھے، میں نے دو روزساتھ رہنے کی خواہش کا اظہار کیا، تو انھوں نے خوشی سے قبول کیا،ایک روز ہریانہ پھر دہلی اور خورجہ کا سفر تھا، دو روز کے بعد پھلت پہنچے دوروز کے بعد میں دل سے اسلام کے لئے آمادہ ہوچکا تھا، میں نے عمر بھائی سے اپنا خیال ظاہر کیا تو انھوں نے خوشی خوشی مولانا صاحب سے بتایا اور الحمد للہ میں نے ۲۵ جون ۱۹۹۳ ءظہر کے بعد اسلام قبول کیا مولانا صاحب نے میرا نام محمد عامر رکھا اسلام کے مطالعہ اور نماز وغیرہ یاد کرنے کے لئے مجھے پھلت رہنے کا مشورہ دیا، میں نے اپنی بیوی اور چھوٹے بچوں کی مجبوری کاذکر کیا تو میرے لئے مکان کا نظم کردیا گیا، میں چند ماہ پھلت آکر رہا اور اپنی بیوی پر کام کرتا رہا، تین مہینے کے بعد وہ بھی مسلمان ہو گئی۔ الحمدللہ
سوال : آپ کی والدہ کا کیا ہوا؟
جواب : میں نے اپنی ماں سے اپنے مسلمان ہونے کے بارے میں بتایا، وہ بہت خوش ہوئیں اور بولیں کہ تیرے پتا کو اس سے شانتی ملے گی، وہ بھی اسی سال مسلمان ہوگئیں۔سوال : آج کل آپ کیا کررہے ہیں ؟جواب : آج کل میں ایک جونیرہا ئی ا سکول چلارہا ہوں، جس میں اسلامی تعلیم کے ساتھ انگریزی میڈیم میں تعلیم کا نظم ہے۔
سوال : ابی بتا رہے تھے کہ ہریانہ پنجاب وغیرہ کی غیر آباد مسجدوں کو آباد کرنے کی بڑی کوششیں آپ کررہے ہیں ؟
جواب : میں نے عمر بھائی سے مل کر یہ پروگرام بنایا کہ اللہ کے گھر کو شہید کرنے کے بعد اس بڑے گناہ کی تلافی کے لئے ہم ان ویران مسجدوں کو آباد کرنے اور کچھ نئی مسجدیں بنانے کا بیڑا اٹھائیں، ہم دونوں نے طئے کیا کہ کام تقسیم کر لیں، میںتوویران مسجدوں کو آباد کراﺅں اور عمر بھائی نئی مسجد یں بنانے کی کوشش کریں اور ایک دوسرے کا تعاون کریں، ہم دونوں نے زندگی میں سو سو مسجدیں بنانے اور واگزارکرانے کا پروگرام بنایا ہے، الحمدللہ ۶چھ دسمبر ۲۰۰۴ءتک ۱۳ویران اور مقبوضہ مسجدیں ہریانہ، پنجاب اور دہلی اور میرٹھ کینٹ میں واگزار کراکے یہ پاپی آباد کراچکاہے(جولائی ۲۰۰۹ءتک ۶۷مسجدےں واگزار اور ۳۷نئی مسجد یںبنا چکے ہیں )عمر بھائی مجھ سے آگے نکل گئے وہ اب تک بیس مسجدیں نئی بنواچکے ہیں اور اکیسویں کی بنیاد رکھی ہے ہم لوگوں نے یہ بھی طے کیا ہے کہ بابری مسجد کی شہادت کی ہر برسی پر ۶د چھ سمبر کو ایک ویران مسجد میں نماز شروع کرانی ہے اور عمر بھائی کو نئی مسجد کی بنیاد ضرور رکھنی ہے، الحمدللہ کوئی سال ناغہ نہیں ہوا، البتہ سو کا نشانہ ابھی بہت دور ہے، اس سال امید ہے تعداد بہت بڑھ جائے گی، آٹھ مسجدوں کی بات چل رہی ہے، امید ہے وہ آئندہ چندماہ میں ضرور آباد ہوجائیں گی، عمر بھائی تو مجھ سے بہت آگے پہلے ہی ہیںاور اصل میں ہمارا کام بھی ان ہی کے حصہ میں ہے، مجھے اندھیرے سے نکالنے کا ذریعہ وہی بنے۔
سوال : آپ کے خاندان والوں کا کیا خیال ہے؟
جواب :میری والدہ کے علاوہ صرف ایک بڑے بھائی ہیں ہماری بھا بھی کا چار سال پہلے انتقال ہو گیا ان کی شادی مجھ سے بعد میں ہوئی تھی، ان کے چار چھوٹے چھوٹے بچے ہیں، ایک بچہ معذور سا ہے ہماری بھابھی بڑی بھلی عورت تھیں، بھائی صاحب کے ساتھ مثالی بیوی بن کر رہیں ان کے انتقال کے بعد بھائی بالکل ٹوٹ سے گئے تھے، میری بیوی نے بھابھی کے مرنے کے بعد ان بچوں کی بڑی خدمت کی، میرے بڑے بھائی خود بہت شریف آدمی ہیں، وہ میری بیوی کی اس خدمت سے بہت متاثر ہوئے، میںنے ان کو اسلام کی دعوت دی مگرمیری وجہ سے میرے والد کے صدمہ کی وجہ سے وہ مجھے کوئی اچھا آدمی نہیں سمجھتے تھے، میں نے اپنی بیوی سے مشورہ کیا میرے بچے بڑے ہں اور بھائی مشکل سے جی رہے ہیں، اگر میں تمھیں طلاق دےدوں اور عدت کے بعد بھائی تیار ہوجائیں کہ وہ مسلمان ہوکر تم سے شادی کرلیںتو دونوں کے لئے نجات کا ذریعہ بن سکتا ہے، وہ پہلے تو بہت برامانی مگر جب میں نے اس کو دل سے سمجھانے کی کوشش کی تو وہ راضی ہوگئی، میں نے بھائی کوسمجھایا ان بچوں کی زندگی کے لئے اگر آپ مسلمان ہوجائیں اور میری بیوی سے شادی کرلیں تو اس میں کیا حرج ہے اور کوئی عورت ایسی ملنا مشکل ہے جو ماں کی طرح ان بچوں کی پرورش کرسکے، وہ بھی شروع میںتو بہت برامانے کہ لوگ کیا کہیں گے میں نے کہا عقل سے جو بات صحیح ہے اس کے ماننے میں کےاحرج ہے، باہم مشورہ ہوگیا، میںنے اپنی بیوی کو طلاق دی اورعدت گزار کر بھائی کو کلمہ پڑھوایا اور ان سے اس کا نکاح کرایا، الحمد للہ وہ بہت خوشی خوشی زندگی گزاررہے ہیں، میرے اور ان کے بچے ان کے ساتھ رہتے ہیں
۔سوال : آپ اکیلے رہتے ہیں؟
جواب : حضرت مولانا کے مشورہ سے میں نے ایک نو مسلم عورت جو کافی معمر ہیں شادی کرلی ہے الحمد للہ خوشی خوشی ہم دونوں بھی رہ رہے ہیں۔
سوال : قار ئین ارمغان کے لئے کچھ پغام آپ دےنا چاہیں گے ؟
جواب : میری ہر مسلمان سے درخواست ہے کہ اپنے مقصد زندگی کو پہچانیں اور اسلام کو انسانیت کی امانت سمجھ کر اس کو پہنچا نے کی فکرکریں، محض اسلام دشمنی کی وجہ سے ان سے بدلہ کا جذبہ نہ رکھیں احمد بھائی میں یہ بات بالکل اپنے ذاتی تجربہ سے کہہ رہا ہوں کہ بابری مسجد کی شہادت میں شریک ہر ایک شیوسینک بجرنگ دلی اور ہر ہندو کو اگر ےہ معلوم ہوتا کہ اسلام کےا ہے ؟ مسلمان کسے کہتے ہیں؟قرآن کیاہے اور مسجد کیا چیزہے تو ان میں سے ہر ایک مسجد بنانے کی تو سوچ سکتا ہے، مسجد گرانے کا تو سوال ہی نہیں ہو سکتا، میں یقین سے کہہ سکتاہوں کہ بال ٹھاکرے جی، ونئے کٹیار، اومابھارتی اور اشوک سنگھل جیسے سرکردہ لوگوں کو بھی اگر اسلام کی حقیقت معلوم ہوجائے اور یہ معلوم ہوجا ئے کہ اسلام ہمارا بھی مذہب ہے، ہمارے لئے بھی ضروری ہے، تو ان میں سے ہر ایک اپنے خرچ سے بابری مسجد دوبارہ تعمیر کرنے کو سعادت سمجھے گا، احمد بھائی چلئے کچھ لوگ تو اسے ہیں جو مسلمان کی دشمنی کے لئے مشہور ہیں مگر ایک ارب ہندﺅوں میں ایسے لوگ ایک لاکھ بھی نہیں ہوں گے، ایک لاکھ بھی سچی بات یہ ہے کہ میں شاید زیادہ بتارہا ہوں، ننانوے کروڑ۹۹ لاکھ تو میرے والد کی طرح ہیں، جو انسانیت دوست بلکہ اسلامی اصولوں کو دل سے پسندکرتے ہیں، احمد بھائی میرے والد (روتے ہوئے )کیا فطرتاََ مسلمان نہیں تھے مگر مسلمانوں کے دعوت نہ دینے کی وجہ سے وہ کفر پر مرگئے میرے ساتھ اور میرے والدکے ساتھ مسلمانوں کا کتنا بڑا ظلم ہے، یہ بات سچی ہے کہ بابری مسجدکو شہید کرنے والے مجھ سے زیادہ ظالم کون ہوسکتا ہے ؟مگر مجھ سے بہت زیادہ ظالم تو وہ مسلمان ہیں، جن کی دعوت سے غفلت کی وجہ سے میرے ایسے پیارے باپ دوزخ میں چلے گئے، مولانا صاحب سچ کہتے ہیں، ہم شہید کرنے والے بھی، نہ جاننے اور مسلمانوں کے نہ پہنچانے کی وجہ سے ہوئے، ہم نے انجانے میں ایسا ظلم کیا اور مسلمان جان بوجھ کران کو دوزخ میں جانے کا ذریعہ بن رہے ہیں، مجھے جب اپنے والد کے کفر پر مر نے کا رات میںبھی خیال آتا ہے تو میری نیند اڑ جاتی ہے، ہفتوں ہفتوںنیند نہیں آتی نیند کی گولیاں کھانی پڑتی ہیں، کاش مسلمانوں کو اس دردکااحساس ہو
۔سوال : بہت بہت شکریہ، ماشاءاللہ آپ کی زندگی اللہ کی صفت ہادی اور اسلام کی حقانیت کی کھلی نشانی ہے ۔
جواب : بلاشبہ احمد بھائی، اس لئے میری خواہش تھی کہ ارمغان میں یہ چھپے، اللہ تعالی اس کی اشاعت کو مسلمانوں کے لئے ان کی آنکھیں کھولنے کا ذریعہ بنائے۔آمین
پیغام
ماسٹر عامر:میری ہر مسلمان سے درخواست ہے کہ اپنے مقصد زندگی کو پہچانیں اور اسلام کو انسانیت کی امانت سمجھ کر اس کو پہنچا نے کی فکرکرےں، محض اسلام دشمنی کی وجہ سے ان سے بدلہ کا جذبہ نہ رکھیں احمد بھائی میں یہ بات بالکل اپنے ذاتی تجربہ سے کہہ رہا ہوں کہ بابری مسجد کی شہادت میں شریک ہر ایک شیوسنک بجرنگ دلی اور ہر ہندو کو اگر یہ معلوم ہوتا کہ اسلام کیا ہے ؟ مسلمان کسے کہتے ہیں؟قرآن کیاہے اور مسجد کیا چےزہے تو ان میں سے ہر ایک مسجد بنانے کی تو سوچ سکتا ہے، مسجد گرانے کا تو سوال ہی نہیں ہو سکتا، میں یقین سے کہہ سکتاہوں کہ بال ٹھاکرے جی ،ونئے کٹیار، اومابھارتی اور اشوک سنگھل جیسے سرکردہ لوگوں کو بھی اگر اسلام کی حقیقت معلوم ہوجائے اور یہ معلوم ہوجا ئے کہ اسلام ہمارا بھی مذہب ہے،
ہمارے لئے بھی ضروری ہے، تو ان میں سے ہر ایک اپنے خرچ سے بابری مسجد دوبارہ تعمیر کرنے کو سعادت سمجھے گا.


ما ہ نا مہ ارمغان، جو ن ۲۰۰۵ایڈیٹرما ہ نا مہ ارمغان
www.armughan.in

سیب حرام ہے . . . "عربی بلاگ سے انتخاب" ......

سیب حرام ہے!


یہ ایک شخص کی آب بیتی ہے جو کہتا ہے کہ:

میں مسجد میں تحیۃ المسجد ادا کر رہا تھا کہ سگریٹ کی ناگوار بدبو نے مجھے بے چین کر کے رکھ دیا، خشوع و خضوع قائم رکھنا تو بعد کی بات تھی بدبو کی شدت سے نماز پوری کرنا بھی محال لگ رہا تھا۔ سلام پھیر کر دیکھا تو قریب ہی ایک آدمی نماز ادا کر رہا تھا۔ سگریٹ نوشی کی کثرت سے اس کے ہونٹ سیاہ پڑ چکے تھے۔ میں نے سوچا یہ نماز سے فارغ ہو چکے تو اس سے بات کرونگا، شاید میری نصیحت سے اس پر کوئی مثبت اثر پڑ جائے۔ لیکن مجھے اس وقت حیرت کا سامنا کرنا پڑا جب اس شخص کے ساتھ بیٹھے ایک نوجوان نے اسکی نماز سے فراغت پر مجھ سے پہلے ہی اس سے گفتگو کرنا شروع کی، سننے کیلئے میں نے بھی کان لگائے تو کچھ اس قسم کی بات چیت ہو رہی تھی:

نوجوان: السلام و علیکم، چچا آپ کون ہیں؟

وہ آدمی: میں ۔۔۔۔۔ ہوں۔

نوجوان: چچا، کیا آپ نے شیخ عبدا لحمید كشك کا نام سنا ہے؟

وہ آدمی: جی، میں جانتا ہوں انہیں۔ نوجوان:

اچھا تو آپ شیخ جاد الحق کو بھی جانتے ہونگے؟

وہ آدمی: جی، میں انہیں بھی جانتا ہوں۔

نوجوان: تو آپ شیخ محمد الغزالی کو بھی جانتے ہیں؟

وہ آدمی: جی، میں انہیں بھی اچھی طرح جانتا ہوں۔

نوجوان: تو پھر آپ ان کی کیسٹیں اور فتاویٰ جات بھی سنتے ہونگے ناں؟

وہ آدمی: جی، میں ان کی کیسٹیں بھی سنتا ہوں اور انکے فتاویٰ جات بھی۔

نوجوان: آپ جانتے ہیں ناں یہ سارے شیوخ سگریٹ کو حرام کہتے ہیں، تو پھر آپ کیوں پیتے ہیں سگریٹ؟

وہ آدمی: (جو اب اس ساری گفتگو سے بیزاری سی محسوس کر رہا تھا) نہیں سگریٹ نوشی حرام نہیں ہے۔

نوجوان: نہیں، حرام ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد بھی تو یہی ہے ناں کہ (پلید چیزوں کو تم پر حرام کر دیا گیا ہے)۔ کیا کبھی سگریٹ شروع کرتے وقت آپ نے بسم اللہ پڑھی ہے یا سگریٹ ختم ہونے پر الحمدللہ کہی ہے؟

وہ آدمی: (تقریبا بھناتے ہوئے) مجھے قرآن شریف کی ایک آیت دکھا دو جس میں کہا گیا ہو کہ (ویحرم علیكم الدخان) اور ہم نے تم پر سگریٹ نوشی حرام قرار دی ہے۔

نوجوان: چچا یقین کیجیئے اسلام میں سگریٹ نوشی بالکل ویسے ہی حرام ہے جس طرح سیب حرام ہے۔

اس آدمی کا صبر کا پیمانہ لبریز ہی ہو چکا تھا، جھلاتے ہوئے خونخوار لہجے میں بولا اوئے لڑکے، تو ہوتا کون ہے کہ جس چیز کو چاہے حرام قرار دے اور جس چیز کو چاہے حلال قرار دیدے؟

وہ نوجوان نہایت ہی تحمل سے بولا کہ پھر لایئے اک آیت جس میں لکھا ہو کہ (ویحل لکم التفاح) اور ہم نے تم پر سیب کو حلال کر دیا ہے۔

نوجوان کی گفتگو نے اس آدمی کو ششدر ہی کر کے رکھ دیا تھا، ایسا لگ رہا تھا کہ اب رویا کہ تب، مسجد میں اقامت کی آواز گونج اٹھی تھی اور لوگ جماعت کیلیئے کھڑے ہو رہے تھے۔

نماز کے بعد وہ آدمی پھر اس نوجوان کی طرف متوجہ ہوا اور بولا دیکھو نوجوان، میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ آئندہ کبھی سگریٹ نوشی نہیں کرونگا۔

نوٹ : اس مضمون کو کچھ عرصے قبل اردونامہ پر بھی شیئر کیا جا چکا ہے . . . مگر مجھے یہ اتنا پسند آیا کہ میں نے اس سے اپنے بلاگ کو سجانا مناسب سمجھا . ہو سکتا ہے کسی کو اس سے نفع پہنچے .

( بشکریہ : جناب آصف احمد بھٹی صاحب) اور ( اردونامہ)

ایک دن دنیا میں آنا' اور ہے جانا ایک دن . . . خیال سومیشوری

السلام علیکم  . . .

دوستو . . .اس جہاں میں کئی شعرا ایسے ہوتے ہیں جو زمانے کی آنکھوں سے پوشیدہ رہتے ہیں .  وقت اور حالات میں ایسے جکڑے ہوئے کہ ان کو اپنا کلام دوسروں تک پہنچانے کا موقع ہی نہیں مل پاتا یا ایسے ماحول میں ان کی  زندگی گذرتی ہے جہاں ان کے فن کے قدرداں انہیں نہیں ملتے  اور اس طرح وہ اپنی شاعری کو اپنے قلب میں ہی لے کر اس فانی جہاں سے' ابدی جہاں میں چلے جاتے ہیں  . .
  آج جو کلام ہم آپ کے سامنے پیش کر رہا ہوں وہ ایسے ہی  ایک شاعر کا ہے - جنھوں نے اپنا تخلص " خیال سومیشوری " رکھا تھا - وہ اور کوئی نہیں بلکہ میرے عزیز مرحوم نانا جان تھے جو میرے ہوش و حواس سنبھالنے سے قبل ہی اس دنیا سے کوچ کر کے اپنے مالکِ حقییقی سے جا ملے .  ( اللہ تعالی ان کی مغرفت فرمائے . ان کی قبر کو نور سے بھر دے اور ان کے درجات کو بلند کرے . آمین )


ایک دن دنیا میں آنا' اور ہے جانا ایک دن
بزم دنیا میں سبھوں کا' ہے ٹھکانہ ایک دن
تیرا میرا رونا دھونا' کچھ چلے گا ہی نہیں
ثانئی  آدم'  بنی  آدم  کا سہنا   ایک  دن
جنت الفردوس کا' دعوی تو ہم کرتے مگر
حکم رب ہرگز کبھی' ہم نے نہ مانا ایک دن
خلد جانے کی تمنا' پر نفس کو ہے مگر
دنیا میں خوفِ خدا' کسی نے نہ جانا ایک دن
ذوالجلالِ پاک کا' اب کب کسی کو ہے خیالٕٕ ٕٕ
رب کی فرقت میں نہ اب' ہے کس کا رہنا ایک دن
زاہدوں کو ہے یقیں' مل جائے گا خلدِ بریں
ساتھ میں بھی عابدوں کا' ہے ٹھکانا ایک دن
شکریہ رب کا ابھی' کرتا نہیں کوئی کبھی
صدقِ دل سے رب کو رب ' ہم نے
نہ مانا ایک دن

(بقلم : خیال سومیشوری  . .  لکھی گئی  :  بروز جمعرات - 9 رجب المرجب سنہ 1404 ھ  . . . 12 اپریل سنہ 1984 ء)

توبہ کئے بغیر گذارہ ہی نہیں ہے

السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ


 دوستو . . . .


گذشتہ ہفتے آفس سے گھر جانے کے دوران ایک دوست نے اس کے موبائیل سے ایک نظم دی .  مجھے اس کے شاعر کا نام تو معلوم نہیں ہے مگر میرے خیال سے یہ کسی بزم یا مشاعرے میں  record کی گئی تھی .  مجھے اس کے الفاظ بہت پسند آئے .  سوچا کہ آپ کی خدمت میں بھی پیش کروں . . . 

اپنے کسی عمل پہ سہارا ہی نہیں ہے
توبہ کئے بغیر گذارہ ہی نہیں ہے


زاہد گناہگارہوں میں اس کے باوجود
اللہ ہے میرا بھی تمہارا ہی نہیں ہے


ہر زاویے سے دیکھا  جہاں تک نگاہ گئی
رحمت کا اس کی کوئی کنارہ ہی نہیں ہے


سنتا بھی ہے پکار وہ دیتا بھی ہے جواب
غافل ہے تو کہ دل سے پکارا ہی نہیں ہے


اتنا حسیں ہے رب میرا کہ کچھ نہ پوچھئے
وہ تو بہت ہی پیارا ہے پیارا ہی نہیں ہے


عمدہ لباس تیرے بدن پر بجا صحیح
باطن تو اپنا تونے سنوارا ہی نہیں ہے


فانی جہان دو اسے کو مستقل جہان
اس کاروبار میں تو خسارہ ہی نہیں ہے


اس کے سوا جھکائے کہیں پر بشر جبیں
یہ ظلم کبریا کو  گوارہ ہی نہیں ہے

<<< پچھلا صفحہ اگلا صفحہ >>>

تعمیر نیوز

اس بلاگ کی مذید تحاریر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

Powered by Blogger.