February 2013

جمہوریت . . . . .

ٹیپو سلطان کے والد حیدر علی کو ایک ہندو راجہ سے مقابلہ درپیش ہوا اس حالت میں کہ حیدر علی کے پاس ٹوٹی پھوٹی تعداد میں کم اور اکثر غیر تربیت یافتہ فوج تھی جبکہ ہندو راجہ کے پاس پیشہ ور فوج کی ایک بڑی تعداد تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تب حیدر علی نے ایک چال چلی اور اپنا ایک جاسوس چند خطوط دے کر دشمن فوج میں بھجوا دیا ان خطوط میں مخالف فوج کے سرداروں اور افسروں کے ترغیب دی گئی تھی کہ اگر آپ اپنے سپاہ سالار کو قتل کر دیں تو حیدر علی سے انعام پائیں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس جاسوس نے جان بوجھ کر خود کو گرفتار کروا لیا اس کو خطوط سمیت سالار کے سامنے پیش کیا گیا تو اس نے کہا کہ یہ میرا تیسرا چکر ہے اور آپ کے کچھ افسروں سے معاملات طے پا چکے ہیں ۔۔۔سپاہ سالار خطرہ محسوس کر کے اسی رات اپنی فوج کو چھوڑ کر بھاگ گیا ۔۔۔۔۔۔۔ دوسری صبح جب فوج نے خود کو سالار کے بغیر دیکھا تو طاقت میں کئی گنا زیادہ ہونے کے باوجود بغیر لڑے ہتھیار ڈال دیے یا بھاگ گئے۔۔۔۔۔۔۔۔

ایسا جنگوں کی تاریخ میں شائد سنکڑوں بار ہو چکا ہے جب سردار کے بغیر یا سپاہ سالار کے قتل ہوتے ہی پوری فوج شکست کھا گئی یا ہتھیار ڈال دئیے چاہے مخالف فوج طاقت میں کتنی ہی کمزور کیوں نہ تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سردار میں ایسی کونسی طاقت ہوتی ہے جو فوج کے قدم جمائے رکھتی ہے ؟

امیر یا سردار یا بادشاہ نہ غیرمعولی مافوق الفطرت ذہانت رکھتا ہے نہ طاقت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ صرف انسانوں کی ایک بہت بڑی کمزوری کو کنٹرول کرتا ہے وہ ہے انتشار ۔۔۔۔۔۔ وہ ایک رائے رکھتا ہے جس کو سب نے ماننا ہوتا ہے یا ایک حکم جاری کرتا ہے جس پر بلا چون چرا پوری فوج عمل کرتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ ہوتی ہے وہ طاقت جو اس فوج کو سردار یا امیر یا سپاہ سالار سے ملتی ہے اس طاقت کے ہٹتے ہی پوری فوج ریت کی طرح بکھر جاتی ہے -
 
اسی چیز کی ضرورت انسانوں کو تب محسوس ہوئی جب وہ ملکر ایک معاشرے کے طور پر رہنے لگے انہیں ایک بادشاہ یا امیر کی ضرورت محسوس ہوئی جو انہیں انتشار سے بچا سکے ۔۔۔۔ رائے کے انتشار سے۔۔۔۔۔۔۔۔!

انسانی تاریخ میں جب بھی قوموں پر برا وقت آیا وہ خدا سے ایک بادشاہ کے طلب گار ہوئے جو انکے حالات درست کر دے اور انہیں طاقت دے اور اکثر بادشاہ آکر یہ غیر معولی کام کر جاتے تھے حالانکہ قوم وہی ہوتی تھی اور وسائل بھی وہی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پھر جدید دور آیا جب شیطانی ذہانت رکھنے والی ایک جماعت نے پوری دنیا پر کنٹرول حاصل کرنے کا پروگرام بنایا یہ بادشاہوں اور متحد قوموں کے ہوتے ہوئے ناممکن تھا انکو منتشر کرنا ضروری تھا تب انہوں نے ایک ایسی چیز ایجاد کی جس نے رفتہ رفتہ پوری دنیا کو اپنا اسیر بنا لیا ملک ،قومیں ،قبیلے سب کچھ بکھر کر رہ گیا حتی کہ گلیوں اور محلوں تک میں خوفناک نفرت و انتشار پھیل گیا
 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس شے کا نام "جمہوریت" ہے

ایک عجیب و غریب نظام حکومت جس میں بظاہر ایک امیر بھی سامنے آجاتا ہے اور بہت سے حاکم بھی لیکن رائے کا انتشار برقرار رہتا ہے اور ہر طرف غل غپاڑہ ،دنگا فساد اور شور سنائی دیتا ہے اسکے ذریعے حکومتوں کا وقار خاک میں ملا دیا گیا ہے اور مرکزیت ختم ہوچکی ہے ۔۔۔۔۔۔۔

اس نظام کی بدصورتی کو چھپانے کے لیے انہوں نے اپنے زیر انتظام علاقوں میں بظاہر "آزادی و جمہوریت" کا جھنڈا بلند کر رکھا ہے جسکے ثمرات دکھا کر وہ اقوام عالم کو بہکا رہے ہیں ۔۔۔۔۔ لیکن خٖفیہ طور پر وہ آزاد اور جمہوری ریاستیں دراصل انکے خوفناک اور آہنی شکنجے میں پھنسی ہوئی ہیں وہاں بھی فیصلے کرنے والی اصل طاقت ایک ہی ہے اور ان کو فلحال رائے کے انتشار سے بچائے ہوئے ہے حتی کہ جب مناسب وقت آئے گا تب ان جمہوریتوں کو بھی "آزاد" چھوڑ دیا جائے گا جسکے بعد وہاں خوفناک فساد پھیلے گا تب یہ جماعت مسیحا بن کر اقوام عالم کے سامنے آئے گی ۔۔۔۔۔

"جمہوریت ظلم کا دیو ہے جو پاوں مار رہا ہے"

تحریر شاہد خان

ہندوستان بمقابلہ پاکستان ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یا ؟ ؟ ؟ ؟




ایک واقعہ سناتا ہوں ۔ ۔ ۔
 
میرے ماموں بھارت پیٹرولیم میں ملازمت کرتے تھے ۔ ۔ کرکٹ سے دور دور کا کوئی واسطہ نہ تھا۔۔۔ کبھی بھی میچ نہ دیکھتے تھے ۔

ایکبار انڈیا - پاک کا میچ چل رہا تھا۔۔۔ ان کے آفس ( ڈپارٹمنٹ) میں یہ واحد مسلم شخص تھے ۔ تو غیروں نے ان سے کہا کہ  ..

سر  ۔ ۔ آج کون جیتنا چاہیئے ۔ ۔۔ ۔ ۔

ماموں جان سمجھ گئے کہ یہ لوگ جان بوجھ کر ان سے پوچھ رہے ہیں ۔ ۔ ۔ اب انہوں نے جو جواب دیا  ۔ ۔۔   وہ بہت ہی مزیدار تھا ۔ ۔ ۔

ماموں جان ان لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا کہ  ۔ ۔ ۔


اگر آج ہندوستان بمقابلہ پاکستان ہے تو ۔ ۔ ۔ ہندوستان جیتنا چاہیئے ۔ ۔ ۔



اور  ۔ ۔ ۔



اگر یہ مقابلہ  ۔ ۔ ۔ ۔ ہندو اور مسلمان کے خلاف ہے تو ۔ ۔۔۔ مسلمان ۔ ۔ ۔ ۔

اب کہو ۔ ۔ ۔ تم کس مقابلے کی بات کر رہے ہو ۔ ۔ ۔۔

بے چارے  ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سب اپنا سا منہ بنا کر چلے گئے  ۔ ۔ ۔۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

ہے کوئی آج ایسے اخلاق کا مظاہرہ کرنے والا ؟؟

ایک دفعہ مولانا حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ ٹرین میں سفر کر رہے تھے۔ سامنے والی نشست پر ایک بڑے شائستہ اور نستعلیق سوٹ بوٹ صاحب تشریف فرما تھےکچھ ابتدائی بات ہوئی مگر سوٹ صاحب کو مولوی صاحب بڑے دقیانوسی اور قوم کی پسماندگی کی دلیل نظر آئے۔چنانچہ بات چیت زیادہ آگے نہ بڑھی۔

کچھ دیر بعد سوٹ صاحب کو بیت الخلا کی حاجت ہوئی۔مگر بیت الخلا کا دروازہ کھولتے ہی انہوں نے ناک پر رومال رکھ لیا اور
جھٹ سے دروازہ بند کرکے واپس اپنی نشست پر آبیٹھےبیت الخلا میں کسی بے ہودہ شخص نے سارے میں غلاظت پھیلا دی تھی۔واقعی کوئی نفاست پسند شخص وہاں ناک نہیں دے سکتا تھا۔سوٹ صاحب کی ضرورت شدید ہوئی تو وہ پھر اٹھے، مگردوبارہ اندر جانے کی ہمت نہ کر سکے اور واپس آگئے۔ایسا تین چار بار ہوا۔ 

اب مولانا حسین احمد اٹھے۔لوٹا ہاتھ میں لیا اور بلا جھجک بیت الخلا میں داخل ہوکر دروازہ اندر سے بند کر لیا ۔ سوٹ صاحب نے ایک مولوی کی اس بے حسی پر ناک منہ بنایا۔ انہیں یوں بھی کسی مولوی سے تہذیب تمیز کی امید نہیں تھی۔
 
دس پندرہ منٹ بعد مولانا بیت الخلا سے برآمد ہوئے اور سوٹ صاحب سے کہا:
واقعی اندر بے حد غلاظت تھی اوروہاں جانا آپ کی نفاست پسندطبیعت سے بعید تھا ، مگر آپ کی سخت ضرورت دیکھ میں نہ رہ سکا۔میں نے بیت الخلا کو خوب اچھی طرح دھو دیا ہے۔اب آپ اطمینان سے جا سکتے ہیں۔

ہے کوئی آج ایسے اخلاق کا مظاہرہ کرنے والا ؟؟


بشکریہ : عمران میمن صاحب - فیس بک

پھرلوٹ کے دنيا ميں آؤں . . . .

ميں سچے رب كے رستے ميں
سو بار لڑوں اور جاں دے دوں
پھرلوٹ كے دنيا ميں آوں....
پھرجام شهادت نوش كروں

ميرے جسم كا هر جز كٹ جاۓ
اور ميت خوں ميں اٹ جاۓ
يه ظلم كا بادل چ
ھٹ جاۓ
يه كفر كا پهرا هٹ جاۓ

پھرجاگے جوش جوانوں ميں
پھرجنگ چھڑے گھمسانوں ميں
ميں تيغ و صناع سے لڑ جاؤں
سيڑهى فردوس كى چڑھ جاؤں

جب دنيا مجھ په رشک کرے
يه الله سے ميں عرض کروں
پھرلوٹ کے دنيا ميں آؤں
پھرجام شهادت نوش کروں

جب ڈنکه ديں کا بجنے لگے
اور بول اسلام کا بالا هو
پھرمشرق و مغرب کے اندر
پھرحق کا نور اجالا هو

پھرلاشوں کے انبار لگيں
پھرقيديوں کے بازار لگيں
يوں روح ميرى پرواز کرے
ميرا لشكر مجھ په ناز کرے

پھرجاں اپنى قربان كروں
وه لطف دوباره سے پاؤں
پھرلوٹ کے دنيا ميں آؤں
پھرجام شهادت نوش کروں

بشکریہ :

Deobandi Banda and  Khak Nasheen ـ فیس بک صاحبان

<<< پچھلا صفحہ اگلا صفحہ >>>

تعمیر نیوز

اس بلاگ کی مذید تحاریر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

Powered by Blogger.