February 2015

قصور کس کا ہے ؟ ؟ ؟ ؟ ؟ ؟ پاکستانی کرکٹ ٹیم کا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یا ۔ ۔ ۔


پاکستانی عوام نے پاک ٹیم  کی جیت کے لئے دل سے دعائیں کی  ۔ ۔ ۔ ۔

پاکستانی ٹیم  ہار گئی ۔ ۔


پھر ۔ ۔ ۔ ۔

پاکستانی ٹیم کی ہار   کے بعد ۔ ۔ ۔ ۔ دل رکھنے لئے انڈیا کے خلاف افریقہ  کی جیت کے لئے دعائیں کی   ۔ ۔ ۔ ۔

نتیجتا" ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  افریقہ کی ٹیم ہی ہار گئی ۔


اب سوچو ۔ ۔ ۔

قصور کس کا ہے ۔ ۔ ۔ ۔

پاک کرکٹ ٹیم کا  ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  یا  ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پاکستانی عوام کی دعاؤں کا !!!!

اے جنید ۔ ۔ ۔ ۔ آج خاندان نبوت کی لاج رکھ لے !!!



کسی زمانے میں بغداد میں جنید نامی ایک پہلوان رہا کرتا تھا۔ پورے بغداد میں اس پہلوان کے مقابلے کا کوئی نہ تھا۔ بڑے سے بڑا پہلوان بھی اس کے سامنے زیر تھا۔ کیا مجال کہ کوئی اس کے سامنے نظر ملا سکے۔ یہی وجہ تھی کہ شاہی دربار میں اس کو بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اور بادشاہ کی نظر میں اس کا خاص مقام تھا۔


ایک دن جنید پہلوان بادشاہ کے دربار میں اراکین سلطنت کے ہمراہ بیٹھا ہوا تھا کہ شاہی محل کے صدر دروازے پر کسی نے دستک دی۔ خادم نے آکر بادشاہ کو بتایا کہ ایک کمزور و ناتواں شخص دروازے پر کھڑا ہے جس کا بوسیدہ لباس ہے۔ کمزوری کا یہ عالم ہے کہ زمین پر کھڑا ہونا مشکل ہو رہا ہے۔ اس نے یہ پیغام بھیجا ہے کہ جنید کو میرا پیغام پہنچا دو کہ وہ کشتی میں میرا چیلنج قبول کرے۔ بادشاہ نے حکم جاری کیا کہ اسے دربار میں پیش کرو۔ اجنبی ڈگمگاتے پیروں سے دربار میں حاضر ہوا۔ وزیر نے اجنبی سے پوچھا تم کیا چاہتے ہو۔ اجنبی نے جواب دیا میں جنید پہلوان سے کشتی لڑنا چاہتا ہوں۔ وزیر نے کہا چھوٹا منہ بڑی بات نہ کرو۔ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ جنید کا نام سن کر بڑے بڑے پہلوانوں کو پسینہ آ جاتا ہے۔ پورے شہر میں اس کے مقابلے کا کوئی نہیں اور تم جیسے کمزور شخص کا جنید سے کشتی لڑنا تمہاری ہلاکت کا سبب بھی ہو سکتا ہے۔ اجنبی نے کہا کہ جنید پہلوان کی شہرت ہی مجھے کھینچ کر لائی ہے اور میں آپ پر یہ ثابت کرکے دکھاؤں گا کہ جنید کو شکست دینا ممکن ہے۔ میں اپنا انجام جانتا ہوں آپ اس بحث میں نہ پڑیں بلکہ میرے چیلنج کو قبول کیا جائے۔ یہ تو آنے والا وقت بتائے گا کہ شکست کس کا مقدر ہوتی ہے۔

جنید پہلوان بڑی حیرت سے آنے والے اجنبی کی باتیں سن رہا تھا۔ بادشاہ نے کہا اگر سمجھانے کے باوجود یہ بضد ہے تو اپنے انجام کا یہ خود ذمہ دار ہے۔ لٰہذا اس کا چیلنج قبول کر لیا جائے۔ بادشاہ کا حکم ہوا اور کچھ ہی دیر کے بعد تاریخ اور جگہ کا اعلان کر دیا گیا اور پورے بغداد میں اس چیلنج کا تہلکہ مچ گیا۔ ہر شخص کی یہ خواہش تھی کہ اس مقابلے کو دیکھے۔ تاریخ جوں جوں قریب آتی گئی لوگوں کا اشتیاق بڑھتا گیا۔ ان کا اشتیاق اس وجہ سے تھا کہ آج تک انہوں نے تنکے اور پہاڑ کا مقابلہ نہیں دیکھا تھا۔ دور دراز ملکوں سے بھی سیاح یہ مقابلے دیکھنے کے لئے آنے لگے۔ جنید کے لئے یہ مقابلہ بہت پراسرار تھا اور اس پر ایک انجانی سی ہیبت طاری ہونے لگی۔ انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر شہر بغداد میں امنڈ آیا تھا۔

جنید پہلوان کی ملک گیر شہرت کسی تعارف کی محتاج نہ تھی۔ اپنے وقت کا مانا ہوا پہلوان آج ایک کمزور اور ناتواں انسان سے مقابلے کے لئے میدان میں اتر رہا تھا۔ اکھاڑے کے اطراف لاکھوں انسانوں کا ہجوم اس مقابلے کو دیکھنے آیا ہوا تھا۔ بادشاہ وقت اپنے سلطنت کے اراکین کے ہمراہ اپنی کرسیوں پر بیٹھ چکے تھے۔ جنید پہلوان بھی بادشاہ کے ہمراہ آ گیا تھا۔ سب لوگوں کی نگاہیں اس پراسرار شخص پر لگی ہوئی تھیں۔ جس نے جنید جیسے نامور پہلوان کو چیلنج دے کر پوری سلطنت میں تہلکہ مچا دیا تھا۔
مجمع کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ اجنبی مقابلے کے لئے آئے گا پھر بھی لوگ شدت سے اس کا انتظار کرنے لگے۔ جنید پہلوان میدان میں اتر چکا تھا۔ اس کے حامی لمحہ بہ لمحہ نعرے لگا کر حوصلہ بلند کر رہے تھے۔ کہ اچانک وہ اجنبی لوگوں کی صفوں کو چیرتا ہوا اکھاڑے میں پہنچ گیا۔ ہر شخص اس کمزور اور ناتواں شخص کو دیکھ کر محو حیرت میں پڑ گیا کہ جو شخص جنید کی ایک پھونک سے اڑ جائے اس سے مقابلہ کرنا دانشمندی نہیں۔ لیکن اس کے باوجود سارا مجمع دھڑکتے دل کے ساتھ اس کشتی کو دیکھنے لگا۔ کشتی کا آغاز ہوا دونوں آمنے سامنے ہوئے۔ ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے گئے۔ پنجہ آزمائی شروع ہوئی اس سے پہلے کہ جنید کوئی داؤ لگا کر اجنبی کو زیر کرتے اجنبی نے آہستہ سے جنید سے کہا اے جنید ! ذرا اپنے کان میرے قریب لاؤ۔ میں آپ سے کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ اجنبی کی باتیں سن کر جنید قریب ہوا اور کہا کیا کہنا چاہتے ہو۔

اجنبی بولا اے جنید ! میں کوئی پہلوان نہیں ہوں۔ زمانے کا ستایا ہوا ہوں۔ میں آل رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہوں۔ سید گھرانے سے میرا تعلق ہے میرا ایک چھوٹا سا کنبہ کئی ہفتوں سے فاقوں میں مبتلا جنگل میں پڑا ہوا ہے۔ چھوٹے چھوٹے بچے شدت بھوک سے بے جان ہو چکے ہیں۔ خاندانی غیرت کسی سے دست سوال نہیں کرنے دیتی۔ سید زادیوں کے جسم پر کپڑے پھٹے ہوئے ہیں۔ بڑی مشکل سے یہاں تک پہنچا ہوں۔ میں نے اس امید پر تمہیں کشتی کا چیلنج دیا ہے کہ تمہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھرانے سے عقیدت ہے۔ آج خاندان نبوت کی لاج رکھ لیجئے۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ آج اگر تم نے میری لاج رکھی تو کل میدان محشر میں اپنے نانا جان سے عرض کرکے فتح و کامرانی کا تاج تمہارے سر پر رکھواؤں گا۔ تمہاری ملک گیر شہرت اور اعزاز کی ایک قربانی خاندان نبوت کے سوکھے ہوئے چہروں کی شادابی کے لئے کافی ہوگی۔ تمہاری یہ قربانی کبھی بھی ضائع نہیں ہونے دی جائے گی۔

اجنبی شخص کے یہ چند جملے جنید پہلوان کے جگر میں اتر گئے۔ اس کا دل گھائل اور آنکھیں اشک بار ہو گئیں۔ سیدزادے کی اس پیش کش کو فوراً قبول کرلیا اور اپنی عالمگیر شہرت، عزت و عظمت آل سول صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان کرنے میں ایک لمحے کی تاخیر نہ کی۔ فوراً فیصلہ کر لیا کہ اس سے بڑھ کر میری عزت و ناموس کا اور کونسا موقع ہو سکتا ہے کہ دنیا کی اس محدود عزت کو خاندان نبوت کی اڑتی ہوئی خاک پر قربان کردوں۔ اگر سید گھرانے کی مرجھائی ہوئی کلیوں کی شادابی کے لئے میرے جسم کا خون کام آ سکتا ہے تو جسم کا ایک ایک قطرہ تمہاری خوشحالی کے لئے دینے کے لئے تیار ہوں۔ جنید فیصلہ دے چکا۔ اس کے جسم کی توانائی اب سلب ہو چکی تھی۔ اجنبی شخص سے پنجہ آزمائی کا ظاہری مظاہرہ شروع کر دیا۔

کشتی لڑنے کا انداز جاری تھا۔ پینترے بدلے جا رہے تھے۔ کہ اچانک جنید نے ایک داؤ لگایا۔ پورا مجمع جنید کے حق میں نعرے لگاتا رہا جوش و خروش بڑھتا گیا جنید داؤ کے جوہر دکھاتا تو مجمع نعروں سے گونج اٹھا۔ دونوں باہم گتھم گتھا ہو گئے یکایک لوگوں کی پلکیں جھپکیں، دھڑکتے دل کے ساتھ آنکھیں کھلیں تو ایک ناقابل یقین منظر آنکھوں کے سامنے آ گیا۔ جنید چاروں شانے چت پڑا تھا اور خاندان نبوت کا شہزادہ سینے پر بیٹھے فتح کا پرچم بلند کر رہا تھا۔
پورے مجمع پر سکتہ طاری ہو چکا تھا۔ حیرت کا طلسم ٹوٹا اور پورے مجمعے نے سیدزادے کو گود میں اٹھا لیا۔ میدان کا فاتح لوگوں کے سروں پر سے گزر رہا تھا۔ ہر طرف انعام و اکرام کی بارش ہونے لگی۔ خاندان نبوت کا یہ شہزادہ بیش بہا قیمتی انعامات لے کر اپنی پناہ گاہ کی طرف چل دیا۔

اس شکست سے جنید کا وقار لوگوں کے دلوں سے ختم ہو چکا تھا۔ ہر شخص انہیں حقارت سے دیکھتا گزر رہا تھا۔ زندگی بھر لوگوں کے دلوں پر سکہ جمانے والا آج انہی لوگوں کے طعنوں کو سن رہا تھا۔ رات ہو چکی تھی۔ لوگ اپنے اپنے گھروں کو جا چکے تھے۔ عشاء کی نماز سے فارغ ہوکر جنید اپنے بستر پر لیٹا اس کے کانوں میں سیدزادے کے وہ الفاظ بار بار گونجتے رہے۔ “آج میں وعدہ کرتا ہوں اگر تم نے میری لاج رکھی تو کل میدان محشر میں اپنے نانا جان سے عرض کرکے فتح و کامرانی کا تاج تمہارے سر پر رکھواؤں گا"

جنید سوچتا کیا واقعی ایسا ہوگا کیا مجھے یہ شرف حاصل ہوگا کہ حضور سرور کونین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں سے یہ تاج میں پہنوں ؟ نہیں نہیں میں اس قابل نہیں، لیکن خاندان نبوت کے شہزادے نے مجھ سے وعدہ کیا ہے۔ آل رسول کا وعدہ غلط نہیں ہو سکتا یہ سوچتے سوچتے جنید نیند کی آغوش میں پہنچ چکا تھا نیند میں پہنچتے ہی دنیا کے حجابات نگاہوں کے سامنے سے اٹھ چکے تھے ایک حسین خواب نگاہوں کے سامنے تھا اور گنبد خضراء کا سبز گنبد نگاہوں کے سامنے جلوہ گر ہوا، جس سے ہر سمت روشنی بکھرنے لگی، ایک نورانی ہستی جلوہ فرما ہوئی، جن کے حسن و جمال سے جنید کی آنکھیں خیرہ ہو گئیں، دل کیف سرور میں ڈوب گیا در و دیوار سے آوازیں آنے لگیں الصلوۃ والسلام علیک یارسول اللہ۔ جنید سمجھ گئے یہ تو میرے آقا ہیں جن کا میں کلمہ پڑھتا ہوں۔ فوراً قدموں سے لپٹ گئے ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے جنید اٹھو قیامت سے پہلے اپنی قسمت کی سرفرازی کا نظارہ کرو۔ نبی ذادوں کے ناموس کے لئے شکست کی ذلتوں کا انعام قیامت تک قرض رکھا نہیں جائے گا۔ سر اٹھاؤ تمہارے لئے فتح و کرامت کی دستار لے کر آیا ہوں۔ آج سے تمہیں عرفان و تقرب کے سب سے اونچے مقام پر فائز کیا جاتا ہے۔ تمہیں اولیاء کرام کی سروری کا اعزاز مبارک ہو۔

ان کلمات کے بعد حضور سرور کونین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جنید پہلوان کو سینے سے لگایا اور اس موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حالت خواب میں جنید کو کیا کچھ عطا کیا اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ اتنا اندازہ ضرور لگایا جا سکتا ہے کہ جب جنید نیند سے بیدار ہوئے تو ساری کائنات چمکتے ہوئے آئینے کی طرح ان کی نگاہوں میں آ گئی تھی ہر ایک کے دل جنید کے قدموں پر نثار ہو چکے تھے۔ بادشاہ وقت نے اپنا قیمتی تاج سر سے اتار کر ان کے قدموں میں رکھ دیا تھا۔ بغداد کا یہ پہلوان آج سید الطائفہ سیدنا حضرت جنید بغدادی کے نام سے سارے عالم میں مشہور ہو چکا تھا۔ ساری کائنات کے دل ان کے لئے جھک گئے تھے۔

امرت نگر مارکیٹ کا مستقل حل ؟ ؟ ؟


قابل احترام جناب  جیتند آوہاڈ صاحب

آداب و تسلیمات !!!

ممبر ا کوسہ -  امرت نگر کی سڑک پر ٹرافک ایک بہت بڑا مسئلہ ہے اور خصوصا" امرت نگر  - گلاب پارک کے بازار کے سامنے تو شام کے وقت روڈ پر تو ہمیشہ ٹرافک جام رہتا ہے  اور اس کا سارا الزام روڈ سے لگے فٹ پاتھ پر موجود بازار کو لگایا جاتا ہے ۔
بے شک  ۔ ۔۔فٹ پاتھ سے متصل  بازار ہی اس مسئلے کی وجہ ہے   اور اسی کی وجہ سے اس علاقہ میں اکثر سڑک جام ہو جایا کرتی ہے اور شاید اس کی شکایت بارہا میونسپل آفیسرس کو کی جاتی ہے' نتیجتا" ایک عرصہ بعد میونسپلٹی کے اراکین حرکت میں آتے ہیں اور فٹ پاتھ سے لگے بازار کو توڑ دیا جاتا ہے ۔  جیسا کہ کل  / پرسوں توڑا گیا  ۔ ۔  ۔ ۔ مگر کچھ عرصہ بعد دوبارہ  وہیں بازار بس جاتا ہے  اور پھر وہی  سرکل  ۔ ۔  وہی بازار ۔ ۔   وہی ٹرافک جام ۔ ۔ اور وہی توڑ پھوڑ ۔ ۔ ۔  خیر یہ سلسلہ چلتے رہتا ہے ۔



اسی سلسلے میں آپ نے شملہ پارک علاقے میں ایک نیا بازار بسانے کا جو قدم اٹھایا ہے  بے شک وہ لائق تحسین ہے مگر  ۔ ۔ ۔  شاید ہی کوسہ کی عوام آپ کے اس بازار سے خوش ہے !!
وجہ یہ ہے کہ ۔ ۔ ۔آپ بخوبی واقف ہونگیں کہ ممبرا کوسہ   غریب اور متوسط   آبادی والا علاقہ ہے ۔  آپ کے بنائے ہوئے بازار میں جانے اور آنے کے لئے کم از کم ایک فرد کو 50 روپئے خرچ کرنا ہونگیں  - ( امرت نگر تا شملہ پارک   - ریٹرن – 20 روپئے  اور شملہ پارک سے اندر بازار تک کم ازکم رکشا کا کرایہ 15 -15روپئے ہے )  اب  آپ ہی اندازہ لگالیں کہ کیا کوسہ کی غریب عوام میں اتنی  استعداد  ہے کہ روزانہ 50 روپئے خرچ کرسکے ؟ ؟ ؟   اس کے علاوہ کوسہ قبرستا ن سےلے کر شملہ پارک تک کی سڑک  پر ہمیشہ ٹریفک جام کا مسئلہ ہوتا ہے اس پر اگر امرت نگر اور اطراف کی عوام کا رخ بھی اس جانب موڑا  جائے تو نجانے اس روڈ کی کیا حالت ہوگی ۔ ۔ ۔
اب سوال  یہ ہے کہ کیا اس مسئلہ  کا کوئی مستقل حل ہے بھی یا نہیں ۔ ۔ ۔ ۔
میری ذاتی رائے ہے کہ اگر انتظامیہ سنجیدگی سے اس معاملے کو لے تو یہ بازار کا مسئلہ حل کیا جا سکتا ہے  اسی تعلق سے   چند تجاویز جو میرے ذہن میں تھیں ۔۔۔ آپ کی نذر کر رہا ہوں ۔ ۔
·         سب سے پہلے تو  اس سے قبل جو حصہ میونسپلٹی نے  بازار کے لئے مختصص کیا تھا  اسے اسی طرح رہنے دیا جائے  ( یعنی کہ روڈ  اور بازار کے درمیان میں جو  لوہے کی جالی  / باڑ لگائی گئی تھی ۔ بازار اسی کےاندر لگانے کی اجازت دے دی جائے )
·         اور اس کے باہر جو بھی ٹھیلہ لگانے کی کوشش کرے ۔  میونسپلٹی کا عملہ اس پر سخت سے سخت کاروائی کرے ۔  چاہے وہ کوئی بھی ہو ۔
·         دوسرے یہ کہ  بازار سے متصل سڑک پر  گاڑیوں کی پارکنگ ممنوع کر دی جائے ۔ کئی بار دیکھنے میں آتا ہےکہ ایک ایک نہیں دو دو لائین میں گاڑیا ں پارک کی جاتی ہے اور ٹریفک پولس اس جانب بالکل توجہ نہیں دیتی  -  کم از کم شام کے اوقات میں تو وہاں پارکنگ کی بالکل اجازت نہ دی جائے ۔   
( ٹریفک  پولیس سے یہ بات یاد آئی کہ ممبر ا کوسہ میں ٹریفک پولیس  کا شاید ہی کوئی کام ہوتا ہوگا ۔ ۔ جہاں جہاں ضرورت ہوتی ہے وہا ں تو ان صاحبان کے دیدار نہیں ہوتے ۔  البتہ صبح کے اوقات میں رکشا والوں پر  زائد چوتھی سیٹ بٹھانے کے جرم میں فائن لینے کے لئے یہ حضرات بڑے مصروف دکھائی دیتے ہیں ۔ ۔ ۔ خیر )

درج بالا چند گزارشات پر  انتظامیہ اگر سنجیدگی سے غور کرے تو  امید ہے کہ امرت نگر کے بازار اور سڑک کی ٹریفک  دونوں مسائل بڑی آسانی سے حل کئے جا سکتے ہیں ۔۔۔ ہو سکتا ہے کہ میونسپلٹی کے اعلی حکام کے پاس اس سے بہتر حل ہو  ۔ ۔ ۔ مگر درخواست یہی ہے کہ اس بازار کو رہنے دیا جائے    ۔ 

امید ہے کہ اپ اس معاملے کو احسن طریقے سے جلد از جلد حل کر دیں گیں 

فقط  :  نون میم 

" آپ " کی جیت : ایک نظر ۔ ۔ ۔

سب سے  پہلے تو " آپ " کو اس ناقابل یقین جیت  کے لئےمبارک باد پیش کرتا ہوں کہ  دہلی الیکشن کا رزلٹ واقعی میں عام آدمی کی جیت ہے ۔ ۔ ۔



یوں تو مجھے اور میرے جیسے کئی لوگ ہونگیں جنھیں  سیاست سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی  اور ہم اس بلا   سے دور ہی رہتے ہیں ( رہنے کی کوشش کرتے ہیں )   ۔ ۔ ۔ مگر پھر بھی کہیں نہ کہیں، کبھی نہ کبھی ، کچھ حد تک اس موضوع پر گفتگو ہوتے رہتی ہے ۔

میرے خیال سے  " آپ" کی اس دبنگ جیت کے پیچھے ہندوستان کی بی جے پی حکومت کا ہاتھ ہے۔ بی جے پی نے  الیکشن سے قبل  بلنگ بانگ دعوے کئے تھے -   پہلے ہی عوام کانگریسوں کی وراثتی  حکومت  کے وہی پرانے گھسے  پٹے وعدوں  اور ان کے دعدہ خلافیوں سے بیزار ہوگئی تھی اور بھاری اکثریت نے  کانگریس کو گدی  سے ہٹانے کے فیصلہ کیا  جس کے نتیجے میں حکومت بی جے پی کے ہاتھ لگی اور گذشتہ الیکشن میں کانگریس نے منہ کی کھائی اور راج گدی پر بی جے پی قابض ہوگئی  ۔ ۔ ۔

مگر  بی جے پی نے بھی وہی روش اپنائی اور حکومت بننے کےتقریبا" 4 ماہ کے بیت جانے کے باوجود شاید ہی کوئی ایسا وعدہ ہوگا جو انہوں نے پورا کیا ہو  (  بلکہ کسی بھی اپنے انتخابی وعدے کو پورا کرنے میں سنجیدہ ہی نظر نہیں آرہی ہے ۔ یاد رہے کہ بیرون سے کالے دھن کی واپسی' بھگوا پارٹی کا سب سے اہم وعدہ تھا ) علاوہ ازیں فرقہ پرستوں کے روز بروز بڑھتے ہوئے اقدام پر بھی حکومت سرد رویہ اپنائے ہوئے ہے ۔

ان سبھی باتوں نے دہلی کے عوام کو سوچنے پر مجبور کیا اور غالب گمان یہی ہے کہ ان ہی عوامل کے رد عمل میں دہلی کے غیور عوام نے بی جے پی کو نظر انداز کرتے ہوئے "آپ "کو  اپنے قیمتی ووٹوں سے منتخب کیا ۔ 

میں دوبارہ  " آپ " کو  تہہ دل سے مبارک باد پیش کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ"  آپ " عوام کی امید پر کھڑے اترے گی اور پرانی پارٹیوں کی روش سے ہٹ کے دہلی کے عوام  اور ملک   کی فلاح و بہبودی کے کام  کو اپنا نصب العین بنائے گی ۔

 ساتھ ہی الیکشن میں ہارنے والی پارٹیوں، خصوصا" بی جے پی  اور کانگریس کو میرا یہ مشورہ ہے کہ وہ  اس ہار سے سبق لیں اور عوام کو بے وقوف بنانے والے دھندے بند کردیں۔ اب عوام ہر بار ان کے جھانسے میں آنے والی نہیں !!!!



تحریر  : نون میم 

<<< پچھلا صفحہ اگلا صفحہ >>>

تعمیر نیوز

اس بلاگ کی مذید تحاریر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

Powered by Blogger.