غدر کے - سو برس بعد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

آج کل بڑے زور شور سے پہلی جنگ عظیم کی صدی منائی جا رہی ہے لیکن اسی پہلی جنگ عظیم کےدوران ہونے والی ایک بڑی اہم فوجی بغاوت کے نہ تو تذکرے ہیں اور نہ ہی کوئی بحث ہو رہی ہے۔

سنگاپور میں برطانوی فوج میں شامل ہندوستانی اہلکاروں نے غیر ملکی حکومت کے خلاف 15 فروری کو بغاوت کی تھی جسے تقریباً بھلا ہی دیا گیا۔
سنگاپور میں 15 فروری سنہ 1915 کو پانچویں لائٹ انفنٹری کے تقریباً آٹھ سو فوجیوں نے بغاوت کی تھی اور باغی فوجی برطانوی افسروں کو مارتے ہوئے سنگاپور میں پھیل گئے تھے۔
غدر پارٹی کے بغاوت کرنے والے فوجیوں کا تعلق آج کے بھارت میں ہریانہ ریاست کے دیہات سے تھا۔ لیکن اب اس بغاوت میں شامل ہونے والوں کو یاد بھی نہیں کیا جاتا ہے۔
سنگاپور کی اس بغاوت میں 34 برطانوی فوجی اور 13 شہری ہلاک ہوئے تھے۔ لیکن برطانوی فوجیوں نے فرانسیسی اور روسی فوجوں کی مدد سے بالآخر اس بغاوت کو کچل دیا تھا۔
پکڑے گئے 205 باغیوں میں سے 47 کو آؤٹرام جیل کے باہر 15 ہزار افراد کی موجودگی میں گولی مار دی گئی تھی۔
فائرنگ سكواڈ کی بندوقوں کے سامنے کھڑے ان فوجیوں کی تصویریں اس وقت کے حالات کو بیان کرتی ہے۔
پانچویں لائٹ انفنٹری سنہ 1913 میں اکتوبر کے مہینے میں مدراس سے سنگا پور پہنچی تھی۔ ان فوجیوں نے غدر پارٹی کے بینر کے نیچے بغاوت کا پرچم بلند کیا تھا۔
غدر پارٹی اس وقت غیر ملکی حکومت کے خلاف مسلح جدوجہد کے لیے زبردست پرپیگنڈہ کر رہی تھی اور مکمل آزادی کا مطالبہ کر رہی تھی۔
امریکہ میں منتقل پنجابئیوں کی بنائی غدر پارٹی کے سربراہ بابا سوہن سنگھ بھكنا تھے اور مکمل آزادی کا مطالبہ کرنے والی یہ پہلی پارٹی تھی۔
کئی وجوہات کی بنا پر غدر پارٹی کا بھارت میں فوجی بغاوت کا پروگرام ناکام ہوگیا تھا لیکن سنگاپور میں مضبوط بغاوت ہوئی۔
یہ سارے فوجی پنجاب کے رنگڑھ مسلمان تھے۔ ان مسلم فوجیوں کے گاؤں گڑگاؤں جند، بھواني، حصار، روہتک اور پٹیالہ ریاست میں تھے۔
بد قسمتی سے انھیں علاقوں میں تقسیم کے وقت سب سے بڑا فساد ہوا تھا۔ گاؤں کے گاؤں قتل کر دیے گئے تھے یا پھر وہ لوگ کسی طرح پاکستان چلے گئے۔
بینسي، جمال پور، بليالي، چانگ اور گذراني جیسے گاؤں پاکستان سے آئے لوگوں نے ازسر نو آباد کیے۔ اب یہ تمام گاؤں ریاست ہریانہ میں ہیں۔
اب بغاوت کرنے والوں کی نئی نسلیں ان گاؤں میں نہیں رہتی ہیں اور جو رہتے ہیں ان کو سنگاپور کی اس تاریخی بغاوت کا معلوم ہی نہیں ہے۔
یہ سارے گاؤں فوج میں بھرتی کے لیے جانے جاتے تھے۔ ہر گاؤں سے سینکڑوں لوگوں نے پہلی جنگ عظیم میں حصہ لیا۔
ہر گاؤں سے درجنوں فوجی مارے گئے جن کی ياد میں ان کے نام کی تختیاں برطانوی فوج نے ان کے گاؤں میں لگوا دی تھیں۔ جمال پور میں تو اس کے تعلق سے يادگاري کالم بھی بنا ہوا ہے۔
سویڈن کی سٹاک ہوم یونیورسٹی میں سیاسی امور کے پروفیسر اشتیاق احمد کہتے ہیں کہ غیر ملکی حکومت کی مخالفت کرنے والے کئی اداروں کے ساتھ انصاف نہیں ہوا جن میں سے سنگاپور کی بغاوت بھی ایک ہے۔
غدر پارٹی کی تاریخ لکھنے والے مؤرخ ملوندر سنگھ وڑئچ کا کہنا ہے کہ ’غیر ملکی حکومت کے خلاف لڑنے والوں کو بھی اپنے اور غیر میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ہم آزادی کا لطف لے رہے ہیں لیکن آزادی کے لیے جان دینے والوں کو یاد نہیں کرتے۔
بھارتی ریاست پنجاب کے جالندھر میں غدر پارٹی کی یاد میں ایک میموریل ہال بنایا گیا ہے۔ یہاں لگنے والے سالانہ میلے میں سنگاپور کی بغاوت میں ہلاک ہونے والے فوجیوں کو خراج تحسین پیش کی جاتی ہے۔
اس میلے کے منتظمین میں شامل امولك سنگھ کہتے ہیں کہ ’لوگ ایسے لوگوں کی تاریخ اور حکومت حکومتوں کی تاریخ یاد رکھتی ہے۔

  

<<< پچھلا صفحہ اگلا صفحہ >>>

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


اپنی قیمتی رائے سے آگاہ کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ (بلاگ اسپاٹ کی دنیا میں) نئے ہیں اور درج بالا تحریر پر آپ کا قیمتی تبصرہ کرنے کا ارادہ ہے تو ۔ ۔ ۔ Comment as میں جا کر“ANONYMOUS" پر کلک کر کے اپنا تبصرہ لکھ دیں – ہاں آخر میں اپنا نام لکھنا نہ بھولیں -

تعمیر نیوز

اس بلاگ کی مذید تحاریر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

Powered by Blogger.