ایک سوال : یہ جو باب الاسلام جیسی اصطلاحات ہیں اور حجاج بن یوسف و محمد بن قاسم جیسے ہیروز سے ہمیں متعارف کرایا گیا ہے, کیا یہ ہو بہو ایسا ہے یا وہ لوگ پیسے اور اقتدار کی حرص میں ادھر آنکلے؟

مُحمد مُسلم "" خواجہ فرید گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج رحیم یار خان "" میں لیکچرر ہیں !! مُحمد مُسلم بھائی کی طرف سے ایک سوال کا خوبصورت جواب پیش خدمت ہے !!!
یہی وہ کام ہے جس کی کمی محسوس ہوتی ہے فیس بُک پر اہل اسلام کی طرف سے !! دل باغ باغ ہو گیا یہ تحریر پڑھ کر !! جزاک اللہ خیر !! مُحمد مُسلم بھائی
!!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر !!! مُحمد مسلم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک سوال
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ جو باب الاسلام جیسی اصطلاحات ہیں اور حجاج بن یوسف و محمد بن قاسم جیسے ہیروز سے ہمیں متعارف کرایا گیا ہے, کیا یہ ہو بہو ایسا ہے یا وہ لوگ پیسے اور اقتدار کی حرص میں ادھر آنکلے؟
جن لوگوں نے صرف نسیم حجازی صاحب کا حوالہ دینا تھا ان کو جان بوجھ کر ٹیگ نہیں کیا  ۔ ۔ ۔ ۔ توجہ چاہوں گا احباب !!!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مُحمد مسلم صاحب کا جواب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس بارے میں عرض ہے کہ: صنعتی انقلاب سے پہلے جبکہ ابھی مادیت نے جنم نہیں لیا تھا، تہذیب و ثقافت کی بنیاد مذہب پر ہی رکھی جاتی تھی۔ ایک ہی مذہب کو ماننے والے دنیا کے کسی بھی کونے میں ہوتے تو آپس میں بھائی بھائی ہوتے۔ یہ بات اسلام کے بارے میں اور بھی سچی تھی۔ محمد رسول اﷲﷺ کی تشریف آوری کے بعد عرب ہدایت پر آئے اور انہیں اپنے ہدایت یافتہ ہونے کا اس قدر پختہ یقین تھا کہ انہوں نے اس پیغامِ ہدایت کو ساری دنیا میں پھیلانے کا عہد کر لیا۔ بنو امیہ کے دور کے آخر تک مسلمانوں میں یہ جذبہ بہت کمال کو پہنچا ہوا تھا۔ حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کے دور میں مکران تک کا علاقہ فتح ہو چکا تھا۔ اسی دوران سندھ کا سروے بھی کرایا جا چکا تھا۔ اسلامی افواج افریقہ، ماوراء النہر، چین، آزربائیجان وغیرہ کی سمتوں میں اپنی فتوحات جاری رکھے ہوئے تھیں۔ جو بھی مفتوح ہوئے ان کی حیثیت ذمیوں کی تھی، جو مفتوح مسلمان ہو گئے وہ برابر کے اسلامی ریاست کے شہری بن گئے اس وجہ سے اس ابتدائی دور میں کسی قسم کا کوئی تعصب نظر نہیں آتا۔ شادی بیاہ بھی آپس میں ہو رہے تھے، تہذیب و ثقافت بھی اسلامی ہی ان لوگوں پر غالب آگئی، بلکہ ان میں سے بیشتر علاقوں کی آج بھی زبان عربی ہے، پہلی صدی میں ہی اکثر و بیشتر شہروں کی مسند علم پر عجمی براجمان ہو چکے تھے۔ انہی حالات میں بعد ازاں محمد بن قاسم نے سندھ کو فتح کیا، اہل سندھ کے اسلام قبول کرنے کے بعد وہ بھی ایک عالمگیر اسلامی برادری کا حصہ بن گئے، اور سندھ باب الاسلام کہلایا۔ یہ خالصتاً اسلامی اصطلاح ہے آپ کو یہ اصطلاح ہندو مصنفین کے ہاں بالعموم نہیں ملے گی اگر ملے گی تو مسلمانوں کے تتبع میں ملے گی۔ سندھ کے جو لوگ مسلمان ہوئے ان کے رشتے ناتے عرب فاتحین سے جائز قرار پائے لیکن مقامی ہندو سندھیوں سے ناجائز قرار پائے، جس کی بنا پر جو مسلمان ہوئے ان کا رابطہ جاہلیتِ قدیمہ سے کٹ گیا اور انہوں نے اپنی مذہبی تاریخ نئے سرے سے شروع کی، جس کی بنیاد پر ان کی تہذیب و ثقافت اور لٹریچر کی بھی تاریخ نئے سرے سے شروع ہوئی۔ ماضی میں کوئی قابلِ فخر چیز تو تھی نہیں کہ اس پر فخر کیا جاتا۔۔۔۔ کیا کفر و شرک، ظلم و عدوان پر فخر کیا جاتا؟ یا کوئی عربوں سے زیادہ ایڈوانس ٹیکنالوجی تھی ان لوگوں کے پاس؟ عرب اس وقت کی سائنس اور ٹیکنالوجی میں بھی آگے تھے، تہذیب و ثقافت میں بھی آگے تھے، عدل و انصاف میں بھی بر تر تھے سو محمد بن قاسم کو مقامی مسلمانوں نے ہیرو قرار دیا۔ وہ واقعتاً اس قابل تھا کہ اس کو ہیرؤوں کی عالمی فہرست میں جگہ دی جائے۔

یہاں ایک اور بات بھی سامنے آتی ہے کہ یہ لوگ ہزار سالہ اسلامی دورِ حکومت میں بغیر کسی اختلاف کی ہیرو ہی رہے۔ نہ صرف محمد بن قاسم بلکہ سلطان محمود غزنوی، شہاب الدین غوری، قطب الدین ایبک اور دیگر فاتحین بھی۔ لیکن اگریزوں کے آنے کے بعد صورتحال تبدیل ہو گئی۔ انگریز بھی فاتح تھے، مسلمانوں کی طرح، ان کا بھی الگ مذہب تھا، وہ بھی ایک فرسودہ نظام کے مقابلے میں عدل و انصاف کا ایک نیا نظام لے کر آئے تھے، وہ بھی ایک نئی تہذیب و ثقافت لے کر آئے تھے۔ انہیں توقع تھی کہ ان کو بھی ان مسلمان ہیروز کی طرح ہیروز کی فہرست میں جگہ ملے گی بلکہ تازہ ترین فاتح کے طور پر ان سے بھی برتر مقام حاصل ہوگا۔ لیکن ان کے یہ خواب دھرے کے دھرے رہ گئے۔ ان کی فتوحات کو کبھی بھی دل سے قبول نہیں کیا گیا، نہ مسلمانوں نے نہ ہندؤں نے۔ ان کے مذہب کو اجتماعی طور پر قبول کرنے کی شرح بھی نہ ہونے برابر تھی، ان کی تہذیب و ثقافت کو اپنانے والے اگرچہ خال خال نظر آتے تھے لیکن وہ اپنی کمیونٹی میں بھی مطعون ہی رہتے، ان کے نظام عدل و انصاف کی سست روی نے اس کی خوبیوں کو نیست و نابود کر دیا۔ اسلامی دور کے آثار مٹانے کی حرص نے انہوں نے مسلمانوں کو اپنا دشمن بنا لیا۔ ان حالات میں انہیں ہیرو کا درجہ نہیں مل سکتا تھا۔ اگرچہ نصاب میں سرکارِ انگلشیہ کے فضائل اور انگریز فاتحین کی تاریخ اہتمام سے پڑھائی جاتی تھی، لیکن مسلمان عوام کے دلوں میں محمد بن قاسم، محمود غزنوی، شہاب الدین غوری، محمد شاہ تغلق، غیاث الدین بلبن، بابر، اورنگزیب عالمگیر اور ٹیپو سلطان جیسے مشاہیر ہی بستے تھے۔

اب انگریزوں نے ایک اور پینترا بدلا، ہندو مسلمانوں میں خلیج کو گہرا کرنے کے لیے ہندو اور مسلم ہیروز کو باہم متنازعہ بنانا شروع کر دیا، پہلی بار انگریزوں کی زیرِ نگرانی ایسی تواریخ مرتب کی گئیں جن میں ان مسلمان راہنماؤں کو لٹیرا اور غاصب قرار دیا گیا۔ کیونکہ اب میٹیریل ازم کا دور تھا اس لیے لٹیرا اور غاصب کا لفظ سمجھنا لوگوں کے لیے آسان ہو گیا خصوصاً ان لوگوں کے لیے جنہوں نے میٹیریل ازم کو اپنا لیا تھا۔ جنگ آزادی کے ہیروز تو پورے ہندوستان کے مشترک تھے، خواہ وہ جھانسی کی رانی (ہندو) ہو یا ملکہ حضرت محل (مسلمان)، اب ان میں بھی اختلافات ہو گئے۔ ہندو مت جو اکثریتی تہذیب و ثقافت ہی تھی اسے ایک مذہب کے طور پر کھڑا کیا گیا جس سے مذھب کا مذہب سے ٹکراؤ شروع ہوا۔

دوسرا یہ مقصد سامنے تھا کہ جب تک مسلمان اپنی تاریخ اور اپنے ہیروز پر فخر کرتے رہیں گے انگریز کی بالا دستی قبول نہیں کریں گے۔ اس لیے باقاعدہ منظم انداز میں ان فاتحین کو لٹیرا اور غاصب قرار دیا گیا تاکہ مسلمان انہیں ہیرو سمجھنا ہی چھوڑ دیں۔ بلکہ ان لوگوں کی عیاشی اور حماقتوں کی قصے بھی گھڑے گئے، (کچھ عیاشی کی داستانیں درست بھی ہوں گی، لیکن بیشتر گھڑی گئیں) اس طرح سے ان لافانی کرداروں کو متنازعہ بنا دیا۔

باقی رہی بات محمود غزنوی اور شہاب الدین غوری کی، کہ کیا انہوں نے لوٹ مار کی؟ تو حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ بہت اعلیٰ پائے کے مذہبی علماء بھی تھے، ان کے لشکر کے ساتھ مفتی اور علماء ساتھ ہوتے تھے۔ ان لوگوں کو اسلامی اصول جنگ کا علم تھا۔ انہوں نے حملہ کیا، یہاں کے مقامی راجاؤں کو شکست دی، اور اسلامی اصولوں کے مطابق مقامی راجاؤں کے لشکر کا سامان بھی لوٹ کر مجاہدین میں مال غنیمت کے طور پر تقسیم کر دیا۔ لیکن یہ لوٹ مار صرف سرکاری افواج اورسرکاری اداروں تک محدود تھی۔ عوام کے اموال پر ان لوگوں نے دست درازی نہیں کی۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ انگریزوں کے سو سالہ دورِ حکومت کے بعد آج تک برصغیر معاشی امور میں اپنے قدموں پر کھڑا نہیں ہو سکا، لیکن ان فاتحین کے حملوں نے ایسا کوئی لمبے عرصے تک رہنے والا اثر نہیں چھوڑا ما سوائے تیمور لنگ کے۔ کہ اس کا حملہ خالصتاً لوٹ مار کے لیے ہی تھا۔ اس کے اثرات بہت لمبے عرصے تک برصغیر کی عوام نے محسوس بھی کئے۔ محمود غزنوی کا سومنات کا مندر لوٹنے کا افسانہ بہت مشہور ہوا، خود ایک ہندو محققہ رومیلا تھاپر نے (جس نے یونیورسٹی آف لندن سے پی ایچ ڈی کی)، Somanatha: the Many voices of history میں یہ ثابت کیا کہ یہ لوٹ مار محض ایک افسانہ ہے جس کو انگریزوں نے صرف اس لیے گھڑا تاکہ افغانستان پر ہندوستان کی لوٹ مار کا پریشر بڑھایا جائے اور ہندوؤں کو اینگلو افغان وار میں لڑنے پر آمادہ کیا جا سکے۔ دوسرا مقصد مسلمان فاتحین کی کردار کشی تھی جو کہ برگ و بار لانے کی کئی بار کوشش کر چکی ہے۔ اس افسانے کی بنیاد لارڈ ایلن برو نے 1843ء میں برطانوی پارلیمنٹ میں بحث کے دوران رکھی، جس میں اس نے یہ دعویٰ کیا کہ محمود غزنوی نے سومنات کے عظیم مندر کے صندل کی لکڑی کے دروازے اکھڑوا کر غزنی میں نصب کیے تھے، یہ دروازے ہندوستان کا اثاثہ ہیں انہیں واپس لایا جائے اور یہ کہ یہ ہندو قوم کی بڑی توہین تھی۔

تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ خود محمود غزنوی کی فوج میں ایک بڑی تعداد ہندؤں کی شامل تھی۔ اور محمود غزنوی کا اگر ایسا کردار ہوتا تو یہ ہندو کبھی بھی اس کی فوج کا حصہ نہ بنتے۔ باقی اس موضوع پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ مزید تھوڑی تلاش کرنے سے سچ اور جھوٹے الزامات سبھی کچھ مل جائے گا۔ تاریخ کی گرد بہت خوب طریقے سے انگریزی عہد میں اڑائی گئی ہے، اس میں سے سچ تلاش کرنا ہو تو اصل فارسی ماخذوں کی طرف رجوع کیا جائے جس میں مسلمان حکمرانوں نے صحیح تاریخ لکھوانے کا اہتمام کیا تھا۔

باقی ایک لطیفہ عرض ہے: میں جہاں پڑھاتا ہوں وہاں سرائیکی پنجابی تعصب کی بات چل رہی تھی، اور خوب ایک دوسرے کو مطعون کیا جا رہا تھا۔ مجلس میں ایک عیسائی استاد بھی موجود تھے،جو کہ پنجابی بولنے والے تھے، اور اسی طرح ایک اور غیر مسلم بھی تھے جو کہ سرائیکی بولنے والے تھے۔ میں نے ان سرائیکی اور پنجابی مسلمانوں سے پوچھا کہ کیا اپنے بچوں کے رشتے محض پنجابی یا سرائیکی کے اشتراک کی وجہ سے ان غیر مسلموں سے کرنے پر راضی ہوں گے؟ یا آپس مسلمان ہونے کی بنیاد پر سرائیکی اور پنجابی آپس میں رشتے کر سکیں گے؟ تو ان کا مشترکہ جواب یہی تھا کہ اس کے لیے ہم مذہب کو ہی دیکھیں گے۔ اور خود دونوں غیر مسلم بھی اس پر متفق تھے کہ ہم بھی اپنے ہم مذہبوں کے ساتھ ہی رشتے ناتے کریں گے۔

مقصد یہ ہے کہ اسلام تمام تعلقات اور binding forces پر غالب آجاتا ہے۔ اس کے سامنے دیگر تمام تعصبات ہیچ ہو جاتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر !! مُحمد مُسلم
Muhammad Muslim

<<< پچھلا صفحہ اگلا صفحہ >>>

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


اپنی قیمتی رائے سے آگاہ کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ (بلاگ اسپاٹ کی دنیا میں) نئے ہیں اور درج بالا تحریر پر آپ کا قیمتی تبصرہ کرنے کا ارادہ ہے تو ۔ ۔ ۔ Comment as میں جا کر“ANONYMOUS" پر کلک کر کے اپنا تبصرہ لکھ دیں – ہاں آخر میں اپنا نام لکھنا نہ بھولیں -

تعمیر نیوز

اس بلاگ کی مذید تحاریر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

Powered by Blogger.