ماسٹر محمد عامر{بلبیرسنگھ }سے ایک چشم کشاملاقات

ماسٹر محمد عامر{بلبیرسنگھ }سے ایک چشم کشاملاقات


..........جیسے ہی اوما بھارتی نے نعرہ لگایا، ایک دھکا اور دو، بابری مسجد توڑ دو، بس میری مرادوں کے پورا ہونے کا وقت آگیا اور میں نے بیچ والے گنبد پر کدال چلائی اور...............


 ماسٹرمحمد عامر  :   السلام علیکم وحمتہ اللہ
 احمد اواہ         :   وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ‘

  سوال  :  ماسٹر صاحب ایک عرصے سے ابی کا حکم تھا کہ میں ارمغان کے لئے آپ سے انٹرویو لوں اچھا ہوا آپ خود ہی تشریف لے آئے آپ سے کچھ باتیں کرنی ہیں۔
 جواب  :  احمد بھائی آپ نے میرے دل کی بات کہی، جب سے ارمغان میں نو مسلموں کے انٹرویو کا یہ سلسلہ چل رہا ہے، میری خواہش تھی کہ میرے قبول اسلام کا حال اس میں چھپے،اس لئے نہیں کہ میرا نام ارمغان میں آئے، بلکہ اس لئے کہ دعوت کا کام کرنے والوں کا حوصلہ بڑھے اور دنیا کے سامنے کریم وہادی رب کی کرم فرمائی کی ایک مثال سامنے آئے اور دعوت کا کام کرنے والوں کو یہ معلوم ہوکہ جب ایسے کمینے انسان اور اپنے مبارک گھر کو ڈھانے والے کو اللہ تعالیٰ ہدایت سے نواز سکتے ہیں تو عام شریف اور بھولے بھالے  لوگوں کے لئے ہدایت کے کیسے مواقع ہیں۔

  سوال  : آپ اپنا خاندانی تعارف کرائیں ؟
  جواب  :  میرا تعلق صوبہ ہریانہ کے پانی پت ضلع کے ایک گائوں سے ہے میری پیدائش ۶ دسمبر ۱۹۷۰؁ء کو ایک راجپوت گھرانے میں ہوئی، میرے والد صاحب ایک اچھے کسان ہونے کے ساتھ ساتھ ایک  پرائمری اس کول میں ہیڈ ماسٹر تھے، وہ بہت اچھے انسان تھے اور انسانیت دوستی ان کا مذہب تھا، کسی پر بھی کسی طرح کے ظلم سے انہیں سخت چڑ تھی  ۱۹۴۷؁ء کے فسادات انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھے تھے وہ بہت کرب کے ساتھ ان کا ذکر کرتے اور مسلمانوں کے قتل عام کو ملک پر بڑا داغ سمجھتے تھے بچے کھچے مسلمانوں کو بسانے میں وہ بہت مدد کرتے تھے، اپنے اس کول میں مسلمان بچوں کی تعلیم کا وہ خاص خیال رکھتے تھے، میراپیدائشی نام بلبیر سنگھ تھا اپنے گائوں کے اس کول سے میں نے ہائی اس کول کرکے انٹرمیڈیٹ میں پانی پت میں داخلہ لیا، پانی پت شاید بمبئی کے بعد شیوسینا کا سب سے مضبوط گڑھ ہے، خاص طور پر جو ان طبقہ اور اس کول کے لوگ شیوسینا میں بہت لگے ہوئے ہیں، وہاں میری دوستی کچھ شیوسینکوں سے ہوگئی اور میں نے بھی پانی پت شاکھا میں نام لکھا لیا، پانی پت کے اتہاس (تاریخ) کے حوالے سے وہاں نوجوانوں میں،  مسلمانوں خاص طور پر بابر اور دوسرے مسلمان بادشاہوں کے خلاف بڑی نفرت گھولی جاتی تھی، میرے والد صاحب کو جب میرے بارے میں معلوم ہوا کہ میں شیو سینا میں شامل ہوگیا ہوں تو انہوں نے مجھے بہت سمجھایا، انہوں نے مجھے اتہاس کے حوالے سے سمجھانے کی کوشش کی، انہوں نے بابر خاص طور پر اورنگ زیب کی حکومت کے انصاف اور غیر مسلموں کے ساتھ ان کے عمدہ سلوک کے قصے سنائے اور مجھے بتانے کی کوشش کی کہ انگریزوں نے غلط تاریخ ہمیں لڑانے کے لئے اور دیش کو کمزور کرنے کے لئے گھڑ کر تیار کی ہے، انہوں نے ۱۹۴۷؁ء کے ظلم اور قتل غارت گری کے قصوں کے حوالے سے مجھے شیوسینا سے باز رکھنے کی کوشش کی، مگر میری سمجھ میں کچھ نہ آیا۔
  سوال  : آپ نے پھلت کے قیام کے دوران بابری مسجد کی شہادت میں اپنی شرکت کا قصہ سنایاتھا، ذرا اب دوبارہ تفصیل سے سنایئے؟
 جواب  :  وہ قصہ اس طرح ہے کہ  ۱۹۹۰؁ء میں ایڈوانی جی کی رتھ یا ترا میںمجھے پانی پت کے پروگرام کی خاصی بڑی ذمہ داری سونپی گئی رتھ یاترا میں ان ذمہ داروں نے ہمارے روئیں روئیں میں مسلم نفرت کی آگ بھر دی میں نے شیواجی کی سوگندھ کھا ئی کہ کوئی کچھ بھی کرے میں خود ا کیلے جاکر رام مندر پر سے اس ظالمانہ ڈھانچہ کو مسمار کروں گا، اس یاترا میں میری کارکردگی کی وجہ سے مجھے شیو سینا کے یوتھ ونگ کا صدر بنا دیا گیا، میں اپنی نوجوان ٹیم کو لے کر ۳۰ ؍اکتوبر کو ایودھیا گیا، راستہ میں ہمیں پولس نے فیض آباد میں روک دیا،میں اور کچھ ساتھی کسی طرح بچ بچا کر پھر بھی ایودھیا پہنچے، مگر پہنچنے میں دیر ہو گئی اور اس سے پہلے گولی چل چکی تھی اور بہت کوشش کے با وجود میں بابری مسجد کے پاس نہ پہنچ سکا میری نفرت کی آگ اس سے اور بھڑکی میں اپنے ساتھیوں سے بار بار کہتا تھا اس جیون سے مر جانا بہتر ہے رام کے دیش میں عرب لٹیروں کی وجہ سے رام کے بھگتوں پر رام جنم بھومی پر گولی چلا دی جائے، یہ کیسا انیائے اور ظلم ہے، مجھے بہت غصہ تھا، کبھی خیال ہوتا تھا کہ خود کشی کر لوں کبھی دل میں آتا تھا کہ لکھنؤ جا کر ملائم سنگھ کے اپنے ہاتھ سے گولی مار دو ں، ملک میں فسادات چلتے رہے اور میں اس دن کی وجہ سے بے چین تھا کہ مجھے موقعہ ملے اور میں بابری مسجد کو اپنے ہاتھو ںمسمار کروں۔
                ایک ایک دن کر کے وہ منحوس دن قریب آیا جسے میں اس وقت کاخوشی کا دن سمجھتا تھا میں اپنے کچھ جذباتی ساتھیوں کے ساتھ ایک دسمبر ۱۹۹۲؁ ء کو پہلے ایودھیا پہنچا میرے ساتھ سونی پت کے پاس ایک جاٹوں کے گاؤں کا ایک نوجوان یوگیندر پال بھی تھا جو میرا سب سے قریبی دوست تھا، اسکے والد ایک بڑے زمیندار تھے اور وہ بھی بڑے انسان دوست آدمی تھے، انہوں نے اپنے اکلوتے بیٹے کو ایودھیا جانے سے بہت روکا اس کے تاؤ بھی بہت بگڑے مگر وہ نہیں رکا۔
                ہم لوگ چھ دسمبر سے پہلے کی رات میں بابری مسجد کے بالکل قریب پہنچ گئے اور ہم نے بابری مسجد کے سامنے کچھ مسلمانوں کے گھروں کی چھتوں پر رات گزاری، مجھے با ر بار خیال ہوتا تھا کہ کہیں ۳۰؍اکتوبر کی طرح آج بھی ہم اس شبھ کام سے محروم نہ رہ جائیں، کئی با ر خیال آیا کہ لیڈر نہ جانے کیا کریں، ہمیں خود جاکر کارسیوا شروع کرنی چاہیئے، مگر ہمارے سنچالک نے ہمیں روکا اور ڈسیپلن بنائے رکھنے کو کہا، اوما بھارتی نے بھاشن دیا اور کارسیوکوں میں آگ بھر دی میں بھاشن سنتے سنتے مکان کی چھت سے اتر کر کدال لے کر بابری مسجد کی چھت پر چڑھ گیا، یوگیندر بھی میرے ساتھ تھا، جیسے ہی اوما بھارتی نے نعرہ لگایا، ایک دھکا اور دو، بابری مسجد توڑ دو، بس میری مرادوں کے پورا ہونے کا وقت آگیا اور میں نے بیچ والے گنبد پر کدال چلائی اور بھگوان رام کی جے کے زور زور سے نعرے لگائے، دیکھتے دیکھتے مسجد مسمار ہوگئی، مسجد کے گرنے سے پہلے ہم لوگ نیچے اتر آئے، ہم لوگ بڑے خوش تھے رام للا کے لگائے جانے کے بعد اس کے سامنے ماتھا ٹیک کر ہم لوگ خوشی سے گھر آئے اور بابری مسجد کی دو دو اینٹیں اپنے ساتھ لائے، جو میں نے خوشی خوشی پانی پت کے ساتھیوں کو دکھائیں، وہ لوگ میری پیٹھ ٹھونکتے تھے، شیو سینا کے دفتر میں وہ اینٹیں رکھ دی گئیں اور ایک جلسہ کیا گیا اور سب لوگوں نے بھاشن میں فخر سے میرا ذکر کیا کہ ہمیں گرو   (فخر)ہے کہ پانی پت کے نوجوان شیوسینک نے سب سے پہلے رام بھکتی میں کدال چلائی، میں نے گھر بھی خوشی سے جاکر بتایا میرے پتا جی بہت ناراض ہوئے اور انھوں نے گہرے دکھ کا اظہار کیا اور مجھ سے صاف کہہ دیا کہ’’ اب اس گھر میں تو اور میں دونوں نہیں رہ سکتے، اگر تو رہے گا تو میں گھر چھوڑ کر چلاجائوں گا نہیں تو تو ہمارے گھر سے چلاجا، مالک کے گھر کے ڈھانے والے کی میں صورت دیکھنا نہیں چاہتا، میری موت تک تو مجھے کبھی صورت نہ دکھانا ‘‘مجھے اس کا اندازہ نہیں تھا، میں نے ان کو سمجھانے کی کوشش کی اور پانی پت میں جو سماّن (عزت)  مجھے اس کارنامہ پر ملا وہ بتانے کی کوشش کی انھوں نے کہا کہ یہ دیش ایسے ظالموں کی وجہ سے برباد ہوجائے گا اور غصہ میں گھر سے جانے لگے، میں نے موقع کو بھانپا اور کہا آپ گھر سے نہ جائیے میں خود اس گھر میں رہنا نہیں چاہتا جہاں رام مندر بھگت کو ظالم سمجھا جاتا ہو اور میں گھر چھوڑ کر آگیا اور پانی پت میں رہنے لگا ۔

 سوال  :  اپنے قبول اسلام کے بارے میں بتائیں ؟
 جواب  :  پیارے بھائی احمد !میرے اللہ کیسے کریم ہیں کہ ظلم اور شرک کے اندھیرے سے مجھے، نہ چاہتے ہوئے، اسلام کے نور اور ہدایت سے مالا مال کیا، مجھ جیسے ظالم کو جس نے اس کا مقدس گھر شہید کیا ہدایت سے نوازا، ہوا یہ کہ میرے دوست یوگیندر نے بابری مسجد کی اینٹیں لاکر رکھیں اور مائک سے اعلان کیا کہ رام مندر پر بنے ظالمانہ ڈھانچہ کی اینٹیں سوبھاگیہ(خوش قسمتی ) سے ہماری تقدیر میں آگئی ہیںسب ہندو بھائی آکر ان پر (موت دان ) پیشاب کریں، پھر کیا تھا،بھیڑلگ گئی، ہر کو ئی آتا تھا اور ان اینٹو ں پر حقارت سے پیشاب کرتا تھا مسجد کے مالک کو اپنی شان بھی دکھانی تھی چار پانچ روز کے بعد یو گیندر کا دماغ خراب ہوگیا، پاگل ہوکر وہ ننگا رہنے لگا، سارے کپڑے اتاراتھا، وہ عزت والے زمیندار چودھری کا اکلوتا بیٹا تھا، اس پاگل پن میں وہ بار بار اپنی ماں کے کپڑے اتار کر اس سے منھ کالا کر نے کو کہتا، بار بار اس گندے جذبہ سے اس کو لپٹ جاتا اس کے والد بہت پریشان ہوئے بہت سے سیانے اور مولانا لوگوں کو دکھایا، بار بار مالک سے معافی مانگتے، دان کرتے، مگر اس کی حالت اور بگڑتی تھی، ایک روز وہ باہر گئے تو اس نے اپنی ماں کے ساتھ گندی حرکت کرنی چاہی، اس نے  شور مچایا دیا، محلہ والے آئے، تو جان بچی، اس کو زنجیر میں میں باند ھ دیا گیا، یو گیندر کے والد عزت والے آدمی تھے، انھوں نے اس کو گولی مارنے کا اراد ہ کرلیاکسی نے بتایا کہ یہاں سونی پت میں عیدگاہ میں ایک مدرسہ ہے وہاں بڑے مولانا صاحب آتے ہیں، آپ ایک دفعہ ان سے اور مل لیں، اگر وہاں کوئی حل نہ ہو تو پھر جو چاہے کرنا، وہ سونی پت گئے تو معلوم ہوا کہ مولانا صاحب تو یہاں پہلی تاریخ کو آتے ہیں اور پرسوں پہلی جنوری کو آکر ۲؍تاریخ کی صبح میں جاچکے ہیں، چودھری صاحب بہت مایوس ہوئے اور کسی جھاڑ پھونک کرنے والے کو معلوم کیا، معلوم ہواکہ مدرسہ کے ذمہ دار قاری صاحب یہ کام کر دیتے ہیں، مگر وہ بھی مولانا صاحب کے ساتھ سفر پر نکل گئے ہیں، عیدگاہ میں ایک دوکاندار نے انہیں مولانا کا دہلی کا پتہ بتایا کہ پرسوں بدھ میں حضرت مولانا نے (بوانے، دہلی )میں ان کے یہاں آنے کا وعدہ کیا ہے، وہ لڑکے کو زنجیر میں باندھ کر بوانہ کے امام صاحب کے پاس لے گئے، وہ آپ کے والد صاحب کے مرید تھے اور بہت زمانے سے ان سے بوانہ کے لئے تاریخ لیناچاہتے تھے مولانا صاحب ہر بار ان سے معذرت کررہے تھے، اس بار انھوں نے ادھر کے سفر میں دو روز کے بعد ظہر کی نماز پڑھنے کا وعدہ کر لیا تھا،بوانہ کے امام صاحب نے بتایا کہ حالات کے خراب ہونے کی وجہ سے ۶؍دسمبر  ۱۹۹۲؁ء سے پہلے ہریانہ کے بہت سے امام اور مدرسین یہاں سے یوپی اپنے گھروں کو چلے گئے تھے اور ان میں سے بعض ایک مہینہ تک نہیں آئے اس لئے مولانا صاحب نے پہلی تاریخ کواس موضوع پر تقریر کی اور بڑا زور دے کریہ بات کہی کہ مسلمان نے ان غیر مسلم بھائیوں کو اگر دعوت دی ہوتی اور اسلام، اللہ اور مساجد کا تعارف کرایا ہوتا تو ایسے واقعات پیش نہ آتے، انھوں نے کہا کہ بابری مسجد کی شہادت کے بیک واسطہ ہم مسلمان ذمہ دار ہیں اور اگر اب بھی ہمیں ہوش آجائے اور ہم دعوت کا حق ادا کرنے لگیں تو یہ مسجد گرانے والے، مسجدیں بنانے اور کرنے والے بن سکتے ہیں، ایسے موقع پر ہمارے آقااللّھم اھد قومی فانھم لا یعلمون (اے اللہ، میری قوم کو ہدایت دے، اس لئے کہ یہ لوگ جانتے  نہیں )فرمایا کرتے تھے۔
       یو گیندر کے والد چودھری رگھوبیر سنگھ جب بوانہ کے کے امام (جن کا نام شاید مولانا بشیر احمد تھا )کے پاس پہنچے، تو ان پر اس وقت اپنے شیخ کی تقریر کا بڑااثرتھا، انھوں نے چودھری صاحب سے کہا کہ میں جھاڑ پھونک کا کام کرتا تھا مگر اب ہمارے حضرت نے ہمیں اس کام سے روک دیا، کیوںکہ اس پیشہ میں جھوٹ اور عورتوں سے اختلاط (میل ملاپ )بہت ہوتا ہے اور اس لڑکے پر کوئی اثر یا جادو وغیرہ نہیں بلکہ مالک کا عذاب ہے، آپ کے لئے ایک موقع ہے، ہمارے بڑے حضرت صاحب پر سوں بدھ کے روز دوپہر کو یہاں آرہے ہیں، آپ ان کے سامنے بات رکھیں، آپ کا بیٹا ہمیں امید ہے کہ ٹھیک ہو جائے گا، مگر آپ کو ایک کام کرنا پڑے گا، وہ یہ کہ اگر آپ کا بیٹا ٹھیک ہو جائے تو مسلمان ہونا پڑے گا، چودھری صاحب نے کہا کہ میرا بیٹا ٹھیک ہو جائے تو میں سب کام کرنے کو تیار ہوں۔
                تیسرے روز بدھ تھا چودھری رگھو بیر صاحب یو گیندر کو لے کر صبح  ۸؍بجے بوانہ پہنچ گئے، دوپہر کو ظہر سے پہلے مولانا صاحب آئے، یو گیندر زنجیر میں بندھا ننگ دھڑنگ کھڑا تھا، چودھری صاحب روتے ہوئے مولانا کے قدموں میں گر گئے اور بولے کہ مولانا صاحب میں نے اس کمینہ کو بہت روکا، مگر یہ پانی پت کے ایک اوت کے چکر میں آگیا مولانا صاحب مجھے شما کرا دیجئے میرے گھر کو بچا لیجئے مولانا صاحب نے سختی سے انہیں سر اٹھانے کے لئے کہا اور پورا واقعہ سنا۔
                انہوں نے چودھری صاحب سے کہا کہسارے سنسار کو چلانے والے سرو شکتی مان (قادر مطلق )خدا کا گھر ڈھا کر انہوں نے ایسا بڑا پاپ( ظلم ) کیا ہے کہ اگر وہ مالک سارے سنسار کوختم کردے تو ٹھیک ہے، یہ تو بہت کم ہے کہ اس اکیلے پر پڑی ہے، ہم بھی اس مالک کے بندے ہیں اورایک طرح سے اس بڑے گھنگھور پاپ (بڑے گناہ ) میں ہم بھی قصوروار ہیں کہہم نے مسجد کو شہید کرنے والوں کو سمجھانے کاحق ادا نہیں کیا، اب ہمارے بس میں کچھ بھی نہیں ہے بس یہ ہے کہ آپ بھی اس مالک کے سامنے گڑگڑ ائیں اور شمامانگیں اور ہم بھی معافی مانگیں، مولانا صاحب نے کہا، جب تک ہم مسجد میں پروگرام سے فارغ ہوں آپ اپنے دھیان کو مالک کی طر ف لگا کر سچے دل سے معافی مانگیں اور پرارتھنا (دعا) کریں کہ مالک میری مشکل کو آپ کے علاوہ کوئی نہیں ہٹا سکتا، چودھری صاحب پھر مولانا صاحب کے قدموں میں گر گئے اوربولے جی میں اس لائق ہوتا یہ دن کیوں دیکھتا، آپ مالک کے قریب ہیں، آپ ہی کچھ کریں مولانا صاحب نے ان سے کہا کہ آپ میرے پاس علاج کے لئے آئے ہیں، اب جو علاج میں بتا رہا ہوں وہ آپ کوکرنا چاہنے، وہ راضی ہوگئے  مولا نا صاحب مسجد میں گئے، نما ز پڑھی  تھوڑی دیر تقریر کی اور دعا کی، مولانا صاحب نے سبھی لوگوںسے چودھری صاحب کے لئے دعا کو کہا، پروگرام کے بعد مسجد میں ناشتہ ہوا، ناشتہ سے فار غ ہو کر مسجد سے باہرنکلے تومالک کا کرم کہ یوگیندر نے اپنے باپ کی پگڑی  اتارا کر اپنے  ننگے جسم پر لپیٹ لی تھی اورٹھیک ٹھاک اپنے والد صاحب سے بات کررہا تھا، سب لوگ بہت خوش ہوئے ، بوانہ کے امام صاحب تو بہت خوش  ہوئے، انھوں نے چودھری صاحب کو وعدہ یاد دلایا اور اس کو ڈرایا  بھی کہ جس مالک نے اس کو اچھا کیاہے اگر تم وعدہ کے مطابق مسلمان نہیں ہوتے  ہوتو پھر یہ دوبارہ اس سے زیادہ پاگل ہوسکتا ہے، وہ تیار ہوگئے اور امام صاحب سے بولے، مولانا صاحب میری سات پشتیں آپ کے احسان کا بدلہ نہیں دے سکتیں، آپ کاغلام ہوں، جہاں چاہیں آپ مجھے بیچ سکتے ہیں، حضرت مولانا کو جب یہ معلوم ہوا کہ امام صاحب نے اس سے ٹھیک ہونے کا ایسا وعدہ کرلیا تھا، تو انھوں نے امام صاحب کو سمجھا یاکہ اس طرح کرنااحتیاط کے خلاف ہے۔
                چودھری صاحب کو مسجد میں لے جانے لگے، تو یو گیندر نے پوچھا پتا جی کہاں جارہے ہو انھوں نے کہا مسلمان بننے، تو یوگیندر نے کہا، مجھے آپ سے پہلے مسلمان بننا ہے اور مجھے تو بابری مسجد دوبارہ ضرور بنوانی ہے، خوشی خوشی ان دونوں کو وضو کرایا اور کلمہ پڑھوایا گیا، والد صاحب کا محمد عثمان اور بیٹے کا محمد عمر نام رکھا گیا، خوشی خوشی وہ دونوں اپنے گائوں پہنچے وہاں پر ایک چھوٹی سی مسجد ہے، اس کے امام صاحب سے جاکر ملے، امام صاحب نے مسلمانوں کو بتادیا، بات پورے علاقہ میں پھیل گئی، ہندئووں تک بات پہنچی، تو قوت دار لوگوں کی میٹنگ ہوئی اور طئے کیا کہ ان دونوں کو رات میں قتل کروایا جائے، ورنہ نہ جانے کتنے لوگوں کا دھرم خراب کریں گے، اس میٹنگ میں ایک مرتد بھی شریک تھا اس نے امام صاحب کو بتادیا، اللہ نے خیر کی ان دونوں کو راتوں رات گائوں سے نکالا گیا، پھلت گئے اور بعد میں جماعت میں ۴۰ دن کے لئے چلے گئے، یوگیندر نے پھر امیر صاحب کے مشورہ سے تین چلے لگائے، بعد میں ان کی والدہ بھی مسلمان ہوگئیں، محمد عمر کی شادی دہلی میں ایک اچھے مسلمان گھرانے میں ہوگئی اور وہ سب لوگ خوشی خوشی دہلی میں رہ رہے ہیں گائوں کا مکان اور زمین وغیرہ بیچ کر دہلی میں ایک کارخانہ لگالیا ہے۔

  سوال  :  ماسٹر صاحب آپ سے میں نے، آپ کے اسلام قبول کرنے کے بارے میں سوال کیا تھا آپ نے یوگیندر اور ان کے خاندان کی داستان سنائی، واقعی یہ خود عجیب و غریب کہانی ہے، مگر مجھے تو آپ کے قبول اسلام کے بارے میں معلوم کرنا ہے ؟
 جواب  : پیارے بھائی اصل میں میرے قبول اسلام کو اس کہانی سے الگ کرنا ممکن نہیں، اس لئے میں نے اس کا پہلا حصہ سنایا، اب آگے دوسرا حصہ سن لیجیے، ۹؍مارچ ۱۹۹۳؁ء کو اچانک میرے والد کا ہارٹ فیل ہوکر انتقال ہوگیا، ان پر بابری مسجد کی شہادت اور اس میں میر ی شر کت کابڑا غم تھا، وہ میری ممی سے کہتے تھے کہ مالک نے ہمیں مسلمانوں میں پیدا کیوں نہیں کیا، اگر مسلمان گھرانے میں پیدا ہوتے، کم از کم ظلم سہنے والوں میں ہمارا نام آتا، ظلم کرنے والی قوم میں ہمیں کیوں پیدا کردیا، انھوں نے گھر والوں کو وصیت کی تھی کہ میری ارتھی پر بلبیر نہ آنے پائے، میری ارتھی کو یا تو مٹی میں دبانا، یا پانی میں بہادینا، ظالم قوم کے رواج کے مطابق آگ مت لگانا بلکہ ہندئووں کے شمشان میں بھی نہ لے جانا، گھر والوں نے ان کی اِچھّا(خواہش ) کے مطابق عمل کیا اور آٹھ دن بعد مجھے ان کے انتقال کی خبر ہوئی، میرا دل بہت ٹوٹا، ان کے انتقال کے بعد بابری مسجد کا گرانا مجھے ظلم لگنے لگا اور مجھے اس پر فخر کے بجائے افسوس ہونے لگا اور میرا دل بجھ سا گیا، میں گھر کو جاتا تو میری ممی میرے والد کے غم کو یاد کرکے رونے لگتیں اور کہتیں کہ ایسے دیوتا باپ کو تونے ستاکر ماردیا تو کیسا نیچ انسان ہے میں نے گھر جانا بند کردیا، جون میں محمد عمر جما عت سے واپس آیا تو پانی پت میرے پاس آیا اور اپنی پوری کہانی بتائی دو مہینہ سے میرا دل ہر وقت خوف زدہ سا رہتا تھا کہ کوئی آسمانی آفت مجھ پر نہ آجائے، والد کا دکھ اور بابری مسجد کی شہادت دونوں کی وجہ سے ہر وقت دل سہما سہما سا رہتا تھا، محمد عمر کی کہا نی سن کرمیں اور بھی پریشان سا ہوا، عمر بھائی نے مجھ پر زور دیا کہ ۲۳؍جون کو سونی پت میں مولانا صاحب آنے والے ہیں، آپ ان سے ضرور ملیں اور اچھا ہے کچھ دن ان کے ساتھ رہیں، میں نے پروگرام بنایا، مجھے پہنچنے میں دیر ہوگئی، عمر بھائی پہلے پہنچ گئے تھے اور مولانا صاحب سے میرے بارے میں پورا حال بتادیا تھا، میں گیا تو مولانا صاحب بڑی محبت سے ملے،اور مجھ سے  کہا کہ آپ کی تحریک پر اس گناہ کو کرنے والے یوگیندر کے ساتھ مالک یہ معاملہ کر سکتے ہیں تو آپ کے ساتھ بھی یہی معاملہ پیش آسکتا ہے اور اگر اس دنیا میں وہ مالک سزانہ بھی دے تو مرنے کے بعدہمیشہ کے جیون میں جو سزاملے گی آپ اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔
                 ایک گھنٹہ ساتھ رہنے کے بعد میں نے فیصلہ کرلیا کہ اگر مجھے آسمانی آفت سے بچنا ہے تو مسلمان ہوجانا چاہئے،مولانا صاحب دو روز کے سفر پر جارہے تھے، میںنے دو روزساتھ رہنے کی خواہش کا اظہار کیا، تو انھوں نے خوشی سے قبول کیا،ایک روز ہریانہ پھر دہلی اور خورجہ کا  سفر تھا، دو روز کے بعد  پھلت پہنچے دوروز کے بعدمیں دل سے اسلام کے لئے آمادہ ہوچکا تھا، میں نے عمر بھائی سے اپنا خیال ظاہر کیا تو انھوں نے خوشی خوشی مولانا صاحب سے بتایا اور الحمد للہ میں نے ۲۵ ؍جون ۱۹۹۳ ؁ء ظہر کے بعد اسلام قبول کیا مولانا صاحب نے میرا نام محمد عامر رکھا اسلام کے مطالعہ اور نماز وغیرہ یاد کرنے کے لئے مجھے پھلت رہنے کا مشورہ دیا، میں نے اپنی بیوی اور چھوٹے بچوں کی مجبوری کاذکر کیا تو میرے لئے مکان کا نظم کردیا گیا، میں چند ماہ پھلت آکر رہا اور اپنی بیوی پر کام کرتا رہا، تین مہینے کے بعد وہ بھی مسلمان ہو گئی۔ الحمدللہ

  سوال  :  آپ کی والدہ کا کیا ہوا؟
 جواب  :  میں نے اپنی ماں سے اپنے مسلمان ہونے کے بارے میں بتایا، وہ بہت خوش ہوئیں اور بولیں کہ تیرے پتا کو اس سے شانتی ملے گی، وہ بھی اسی سال مسلمان ہوگئیں۔
  
 سوال  :  آج کل آپ کیا کررہے ہیں ؟
 جواب  : آج کل میں ایک جونیرہا ئی ا سکول چلارہا ہوں، جس میں اسلامی تعلیم کے ساتھ انگریزی میڈیم میں تعلیم کا نظم ہے۔

  سوال  :  ابی بتا رہے تھے کہ ہریانہ پنجاب وغیرہ کی غیر آباد مسجدوں کو آباد کرنے کی بڑی کوششیں آپ کررہے ہیں ؟
 جواب  :  میں نے عمر بھائی سے مل کر یہ پروگر ا م بنایا کہ اللہ کے گھر کو شہید کرنے کے بعد اس بڑے گنا ہ کی تلافی کے لئے ہم ان ویران مسجدوں کو آباد کرنے اور کچھ نئی مسجدیں بنانے کا بیڑا اٹھائیں، ہم دونوں نے طئے کیا کہ کام تقسیم کر لیں، میںتوویران مسجدوں کو آباد کرائوں اور عمر بھائی نئی مسجد یں بنانے کی کوشش کریں اور  ایک دوسرے کا تعاون کریں، ہم دونوں نے زندگی میں سو سو مسجدیں بنانے اور واگزارکرانے کا پروگرام بنایا ہے، الحمدللہ ۶؍دسمبر  ۲۰۰۴؁ء تک ۱۳؍ویران اور مقبوضہ مسجدیں ہریانہ، پنجاب اور دہلی اور میرٹھ کینٹ میں واگزار کراکے یہ پاپی آباد کراچکاہے(جولائی ۲۰۰۹؁ء تک ۶۷؍مسجدیں واگزار اور ۳۷؍نئی مسجد یںبنا چکے ہیں )عمر بھائی مجھ سے آگے نکل گئے وہ اب تک بیس مسجدیں نئی بنواچکے ہیں اور اکیسویں کی بنیاد رکھی ہے ہم   لوگوں نے یہ بھی طے کیا ہے کہ بابری مسجد کی شہادت کی ہر برسی پر ۶؍دسمبر کو ایک ویران مسجد میں نماز شروع کرانی ہے اور عمر بھائی کو نئی مسجد کی بنیا دضرور رکھنی ہے، الحمدللہ کوئی سال ناغہ نہیں ہوا، البتہ سو کا نشانہ ابھی بہت دور ہے، اس سال امید ہے تعداد بہت بڑھ جائے گی، آٹھ مسجدوں کی بات چل رہی ہے، امید ہے وہ آئندہ چندماہ میں ضرور آباد ہوجائیں گی، عمر  بھائی تو مجھ سے بہت آگے پہلے ہی ہیںاور اصل میںہمارا کام بھی ان ہی کے حصہ میں ہے، مجھے اندھیرے سے  نکالنے کا ذریعہ وہی بنے۔

 سوال  : آپ کے خاندان والوں کا کیا خیال ہے؟
 جواب  :میری والدہ کے علاوہ صرف ایک بڑے بھائی ہیں ہماری بھا بھی کا چار سال پہلے انتقال ہو گیا ان کی شادی مجھ سے بعد میں ہوئی تھی، ان کے چار چھوٹے چھوٹے بچے ہیں، ایک بچہ معذور سا ہے ہماری بھابھی بڑی بھلی عورت تھیں، بھائی صاحب کے ساتھ مثالی بیوی بن کر رہیں ان کے انتقال کے بعد بھائی بالکل ٹوٹ سے گئے تھے، میری بیوی نے بھابھی کے مرنے کے بعد ان بچوں کی بڑی خدمت کی، میرے بڑے بھائی خود بہت شریف آدمی ہیں، وہ میری بیوی کی اس خدمت سے بہت متاثر ہوئے، میںنے ان کو اسلام کی دعوت دی مگرمیری وجہ سے میرے والد کے صدمہ کی وجہ سے وہ مجھے کوئی اچھا آدمی نہیں سمجھتے تھے، میں نے اپنی بیوی سے مشورہ کیا میرے بچے بڑے ہیں اور بھائی مشکل سے جی رہے ہیں، اگر میں تمھیں طلاق دیدوں اور عدت کے بعد بھائی تیار ہوجائیں کہ وہ مسلمان ہوکر تم سے شادی کرلیںتو دونوںکے لئے نجات کا ذریعہ بن سکتا ہے، وہ پہلے تو بہت برامانی مگر جب میں نے اس کو دل سے سمجھانے کی کوشش کی تو وہ راضی ہوگئی، میں نے  بھائی کوسمجھا  یا ان بچوں کی زندگی کے لئے اگر آپ مسلمان ہوجائیں اور میری بیوی سے شادی کرلیں تو اس میں کیا حرج ہے اور کوئی عورت ایسی ملنا مشکل ہے جو ماں کی طرح ان بچوں کی پرورش کرسکے، وہ بھی شروع میںتو بہت برامانے کہ لوگ کیا کہیں گے میں نے کہا عقل سے جو بات صحیح ہے اس کے ماننے میں کیاحرج ہے، باہم مشورہ ہوگیا، میںنے اپنی بیوی کو طلاق دی اورعدت گزار کر بھائی کو کلمہ پڑھوایا اور ان سے اس کا نکاح کرایا، الحمد للہ وہ بہت خوشی خوشی زندگی گزاررہے ہیں، میرے اور ان کے بچے ان کے ساتھ رہتے ہیں۔
  
 سوال  :  آپ اکیلے رہتے ہیں ؟
 جواب  :  حضرت مولانا کے مشورہ سے میں نے ایک نو مسلم عورت جو کافی معمر ہیں شادی کرلی ہے الحمدللہ خوشی خوشی ہم دونو ں بھی رہ رہے ہیں۔

 سوال  :  قار ئین ارمغان کے لئے کچھ پیغام آپ دینا چاہیں گے ؟
 جواب  :  میری ہر مسلمان سے درخواست ہے کہ اپنے مقصد زندگی کو  پہچانیں اور اسلام کو انسانیت کی امانت سمجھ کر اس کو پہنچا نے کی فکرکریں، محض اسلام دشمنی کی وجہ سے ان سے بدلہ کا جذبہ نہ رکھیں احمد بھائی میں یہ بات بالکل اپنے ذاتی تجربہ سے کہہ رہا ہوں کہ بابری مسجد کی شہادت میں شریک ہر ایک شیوسینک بجرنگ دلی اور ہر ہندو کو اگر یہ معلوم ہوتا کہ اسلام کیا ہے ؟ مسلمان کسے کہتے ہیں؟قرآن کیاہے اور مسجد کیا چیزہے تو ان میں سے ہر ایک مسجد بنانے کی تو سوچ سکتا ہے، مسجد گرانے کا تو سوال ہی نہیں ہو سکتا، میں یقین سے کہہ سکتاہوں کہ بال ٹھاکرے جی، ونئے کٹیار، اومابھارتی اور اشوک سنگھل جیسے سر کردہ لوگوں کو بھی اگر اسلام کی حقیقت معلوم ہوجائے اور یہ معلوم ہوجا ئے کہ اسلام ہمارا بھی مذہب ہے، ہمارے لئے بھی ضروری ہے، تو ان میں سے ہر ایک اپنے خرچ سے بابری مسجد دوبارہ تعمیر کرنے کو سعادت سمجھے گا، احمد بھائی چلئے کچھ لوگ تو ایسے ہیں جو مسلمان کی دشمنی کے لئے مشہور ہیں مگر ایک ارب ہندئووں میں ایسے لوگ ایک لاکھ بھی نہیں ہوں گے، ایک لاکھ بھی سچی بات یہ ہے کہ میں شاید زیادہ بتارہا ہوں، ننانوے کروڑ۹۹ لاکھ تو میرے والد کی طرح ہیں، جو انسانیت دوست بلکہ اسلامی اصولوں کو دل سے پسندکرتے ہیں، احمد بھائی میرے والد (روتے ہوئے )کیا فطرتاََ مسلمان نہیں تھے مگر مسلمانوں کے دعوت نہ دینے کی وجہ سے وہ کفر پر مرگئے میرے ساتھ اور میرے والدکے ساتھ مسلمانوں کا کتنا بڑا ظلم ہے، یہ بات سچی ہے کہ بابری مسجدکو شہید کرنے والے مجھ سے زیادہ ظالم کون ہوسکتا ہے ؟مگر مجھ سے بہت زیادہ ظالم تو وہ مسلمان ہیں، جن کی دعوت سے غفلت کی وجہ سے میرے ایسے پیارے باپ دوزخ میں چلے گئے، مولانا صاحب سچ کہتے ہیں، ہم شہید کرنے والے بھی، نہ جاننے اور مسلمانوں کے نہ پہنچانے کی وجہ سے ہوئے، ہم نے انجانے میں ایسا ظلم کیا اور مسلمان جان بوجھ کران کو دوزخ میں جانے کا  ذریعہ بن رہے ہیں، مجھے جب اپنے والد کے کفر پر مر نے کا رات میںبھی خیال آتا ہے تو میری نیند اڑ جاتی ہے، ہفتوں ہفتوںنیند نہیں آتی نیند کی گولیاں کھانی پڑتی ہیں، کاش مسلمانوں کو اس دردکااحساس ہو۔
  
 سوال  :  ہت بہت شکریہ، ماشاء اللہ آپ کی زندگی اللہ کی صفت ہادی اور اسلام کی حقانیت کی کھلی نشانی ہے ۔
  جواب  :  بلاشبہ احمد بھائی، اس لئے میری خواہش تھی کہ ارمغان میں یہ چھپے، اللہ تعالی اس کی اشاعت کو مسلمانوں کے لئے ان کی آنکھیں کھولنے کا ذریعہ بنائے۔آمین
                                                                                     اچھا اللہ حافظ         
                                                    مستفادازما ہ نا مہ ارمغان، جو ن ۲۰۰۵ء

<<< پچھلا صفحہ اگلا صفحہ >>>

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


اپنی قیمتی رائے سے آگاہ کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ (بلاگ اسپاٹ کی دنیا میں) نئے ہیں اور درج بالا تحریر پر آپ کا قیمتی تبصرہ کرنے کا ارادہ ہے تو ۔ ۔ ۔ Comment as میں جا کر“ANONYMOUS" پر کلک کر کے اپنا تبصرہ لکھ دیں – ہاں آخر میں اپنا نام لکھنا نہ بھولیں -

تعمیر نیوز

اس بلاگ کی مذید تحاریر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

Powered by Blogger.