سعدی کہتے ہیں کہ ہارون الرشید کا لڑکا
ابا کے سامنے شکایات لایا اور کہا کہ مجھے فلاں سپاہی کے لڑکے نے ماں کی گالی دی
ہے۔ ہارون نے ارکان دولت سے پوچھا
کہ کیوں بھئی کیا سزا ہونی چاہیئے! کسی نے کہا کہ اسکو قتل کردینا چاہیئے۔ خلیفہ
کی بیوی کو اور سلطنت اسلام کی خاتون اول کو اس نے گالی دی ہے۔ کسی نے کہا زبان
کاٹ دینی چاہیئے۔ کسی نے کہا اسکا مال وجائیداد ضبط کرلینا چاہیئے۔ کسی نے کہا
اسکو جلا وطن کردینا چاہیے یا کم سے کم جیل کی سزا۔
ہارون الرشید نے بیٹے کو کہا بیٹا تم معاف کردو تو
بڑا بہتر ہے۔ گالی دینے والے نے اپنا منہ گندا کیا اس میں تمہارا کیا نقصان؟
تمہاری ماں کو گالی لگی نہیں۔ اگر کسی کی ماں ایسی نہیں ہے جیسے اس نے کہا تو اسکا
منہ گندا ہوا‘ اسکی ماں کا کیا بگڑا۔ تو بہتر یہی ہے‘ مکارمِ اخلاق یہی ہے کہ تم
اسکو معاف کردو اور اگر تم سے برداشت نہیں ہوا تو وجزاء سیئة سیئة بمثلھا برائی کا
بدلہ اتنی برائی ہے۔ تم بھی اکسی ماں کو گالی دے دو لیکن شرط یہ ہے کہ جتنی اس نے
دی تھی اتنی دو اس سے زیادہ نہیں۔ کیونکہ اگر تم اس سے زیادہ دوگے تو تم ظالم بن
جاؤ گے اور تمہارا مخالف مظلوم بن جائیگا۔
معاف کر دینا بہت بڑی بات ہے اور ہر کسی کو اس کی توفیق نہیں ہوتی۔
ReplyDeleteشیخ سعدی صاحب کی لکھی ایک ایک کہانی بچوں سے لے کر بڑے بوڑھوں تک کیلئے چشم کُشا ہوتی ہے
ReplyDeleteجو آدمی کسی کی خطا دل سے معاف کرتا ہے وہ ایک ناقابلِ بیان لذت محسوس کرتا ہے
بلاشبہ ۔ ۔ ۔ سعدی ر۔ح کی حکایات بہت نفع بخش ہوتی ہیں ۔
ReplyDeleteاور بھوپال صاحب و سعد صاحب ۔۔۔ آپ دونوں کی آمد کا شکریہ
جزاک اللہ
بلاگ مبارک کچھ نیا نیا لگ رہا ہے۔
ReplyDeleteشکریہ خراسانی صاحب ۔ ۔ ۔
ReplyDeleteایک لمبے عرصے کے بعد تھوڑی فرصت ملی ہے۔
دعا کی درخواست ہے جناب