دینی مدارس کے طلباء اور ٹیکنیکل کام ـ تجویز یا اعتراض

دینی مدارس کے طلباء اور ٹیکنیکل کام ـ


 درس نظامی کے طلبا ہنر مندی سے عاری ہوتے ہیں۔ انہیں ٹیکنیکل کام سکھائے جائیں تاکہ معاشی طورپر خود کفیل ہو کر اسلام کی خدمت فی سبیل اللہ سر انجام دے سکیں  ۔ ۔ ۔ !!!

اسے اعتراض کہیں یا تجویز  ؟ ؟ ؟ 


معمولی سوجھ بوجھ رکھنے والا شخص بھی اگر غورکرے تو یہ سوچنے پر مجبور ہوجائیگا کہ دینی مدارس کے فضلا اور مولوی حضرات کے ساتھ یہ امتیاز ی سلوک کیوں ہے ! وکیلوں اور ججوں سے کیوں نہیں کہا جاتاکہ وہ ٹیکنیکل کام سیکھ کر اپنی گزر بسر کریں اور قوم کی قانونی رہنمائی فی سبیل اللہ سر انجام دیں ! ڈاکٹر وں اور انجینئروں سے کیوں نہیں کہا جاتا کہ وہ دستکاری اور ہنر سیکھ کر اپنے اخراجات پورے کریں اور طبی مشورے اور تعمیراتی رہنمائی، خدمت خلق کے جذبہ کے تحت بلا معاوضہ سر انجام دیں ! اسمبلی ممبران اور انتظامی امور چلانے والے افسران سے کیوں نہیں کہا جاتاکہ وہ قانون سازی اور انتظامی معاملات کو قومی جذبہ سےسرشار ہو کر انجام دیا کریں اور اپنے ذاتی اور گھریلو اخراجات کیلئے کوئی ہنر سیکھ کر ’’الکاسب حبیب اللہ‘‘ پر عمل کرنے کی سعادت حاصل کیا کریں۔۔۔!

اگر وکیل عدالت میں پیش ہونیکا سلیقہ سکھا تا ہے اور قانونی رہنمائی فراہم کرکے حق الخدمت وصول کرتاہے تو ایک عالم دین، احکم الحاکمین کے دربار میں پنج وقتہ پیشی میں معاونت کرتاہے اور مذہبی رہنمائی فراہم کرتاہے ۔۔۔! اگر جج لوگوں کے مقدمات کے فیصلے کرکے تنخواہ کا مستحق ہوتاہے توایک عالم دین مسلمانوں کے معاملات اور مسائل کو کتاب وسنت کی روشنی میں سلجھا کر معاشرہ کی بہت بڑی ضرورت پوری کرتاہے۔ اگر ڈاکٹر جسمانی علاج کرتاہے تو ایک عالم دین جسمانی تقاضوں کو شریعت کے مطابق پورا کرنیکا طریقہ بتاتا ہے اور روحانی علاج میں رہنمائی فراہم کرتاہے۔  اگر انجینئر آپ کو سر چھپا نے کی جگہ بنانے میں مشوروں سے نوازتاہے اور مشینری کے ستعمال کے طریقے بتاتا ہے تو ایک عالم دین قبر کی تعمیر وکشادگی، عرش کا سایہ اور جنت کے عظیم الشان محلات کی تعمیر میں آپ کو مشورے دیتاہے اور آپ کے جسم کی مشینری کے جائز استعمال کے طریقے سکھاتاہے آپ ذرا کسی ایسے مفتی صاحب کا تصور کریں جو ٹیکنیکل کام سیکھ کر روزی کمانے کی فکر میں ہو۔ آپ کوئی اہم مسئلہ پوچھنے دارالافتا پہنچے تو معلوم ہوا کہ مفتی صاحب کسی کی واشنگ مشین یا ریفریجریٹر ٹھیک کرنے گئے ہوئے ہیں یا ادھاری وصول کرنے گئے ہوئے ہیں۔

فوری ضرورت کا مسئلہ درپیش ہے مگر مولانا صاحب اپنے اور بچوں کے معاش کا انتظام کرنے میں مصروف ہیں۔ اگر مولوی صاحب کی دکان صدر میں ہے اور امامت شہر کے کسی دوردراز  علاقے میں کرواتے ہیں تو ذرا انصاف سے بتلائیے کہ اوپر تلے عصر، مغرب اور عشا کی امامت کیلئے کیا صورت اختیار کی جائے گی؟ عوام کا تو یہ حال ہے کہ خود بھلے چوتھی رکعت میں پہنچیں مولوی صاحب کسی مجبوری کے سبب اگر چار منٹ بھی لیٹ ہوجائیں تو انہیں خونخوار نظروں سے گھورا جاتا ہے ہمیں فیصلہ یہ کرنا ہوگا کہ دینی مدارس کے فضلا سے ہم نے کس شعبہ\" زندگی میں کام لیناہے؟ ہر فن کے ماہر اور ہر میدان کے شہسوار ہوتے ہیں اور ان کا دائرہ کار ان کا فن ان کے میدان تک محدود ہوتاہے کسی سرجن سے ہم نے کبھی مطالبہ نہیں کیا کہ اسےتعمیراتی نقشوں میں مہارت ہونی چاہئے اور بجری اور سیمنٹ کا تناسب )Ratio( معلوم ہونا چاہئے اور نہ ہی کسی انجینئر کیلئے ہم مشورہ دیتے ہیں کہ اسے آنکھ کے پردے یا دل کی جھلی اور پھیپھڑوں کےفنکشن کے متعلق معلومات نہ ہوں تو اسے ملازمت نہیں ملے گی لیکن دینی مدارس کے فضلا سے ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ انہیں جدید ٹیکنا لوجی میں مہارت ہونی چاہئے اور اپناپیٹ پالنے کیلئے کوئی ہنر سیکھنا چاہئے۔

آخر کیوں؟ ؟؟؟

بشکریہ  فیس بک / واٹس  اپ احباب

<<< پچھلا صفحہ اگلا صفحہ >>>

ابھی تک ایک تبصرہ ہوا ہے دینی مدارس کے طلباء اور ٹیکنیکل کام ـ تجویز یا اعتراض”

  1. دینی مدارس کے طلبا کی اکثریت عالم دین نہیں بنتی بلکہ معمولی دینی تعلیم کے بعد کسی مسجد کو سنبھال لیتی ہے۔ دوسرے دینی خدمت کوئی سرکاری یا پکی نوکری نہیں ہے بلکہ معاشرے کے رحم و کرم پر ہوتی ہے۔ اسلیے ضروری ہے کہ دینی مدرسوں کے طلبا فنی تعلیم حاصل کریں اور نوکری کیساتھ ساتھ دین کی خدمت کریں۔ یہی کچھ ہمارے نبی پاک کے دور میں ہوا تھا۔ مساجد کے خطیب اور امام تعلیم تجارت اور مزدوری کیا کرتے تھے۔

    ReplyDelete

اگر آپ (بلاگ اسپاٹ کی دنیا میں) نئے ہیں اور درج بالا تحریر پر آپ کا قیمتی تبصرہ کرنے کا ارادہ ہے تو ۔ ۔ ۔ Comment as میں جا کر“ANONYMOUS" پر کلک کر کے اپنا تبصرہ لکھ دیں – ہاں آخر میں اپنا نام لکھنا نہ بھولیں -

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


تعمیر نیوز

اس بلاگ کی مذید تحاریر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

Powered by Blogger.