جمہوریت . . . . .

ٹیپو سلطان کے والد حیدر علی کو ایک ہندو راجہ سے مقابلہ درپیش ہوا اس حالت میں کہ حیدر علی کے پاس ٹوٹی پھوٹی تعداد میں کم اور اکثر غیر تربیت یافتہ فوج تھی جبکہ ہندو راجہ کے پاس پیشہ ور فوج کی ایک بڑی تعداد تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تب حیدر علی نے ایک چال چلی اور اپنا ایک جاسوس چند خطوط دے کر دشمن فوج میں بھجوا دیا ان خطوط میں مخالف فوج کے سرداروں اور افسروں کے ترغیب دی گئی تھی کہ اگر آپ اپنے سپاہ سالار کو قتل کر دیں تو حیدر علی سے انعام پائیں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس جاسوس نے جان بوجھ کر خود کو گرفتار کروا لیا اس کو خطوط سمیت سالار کے سامنے پیش کیا گیا تو اس نے کہا کہ یہ میرا تیسرا چکر ہے اور آپ کے کچھ افسروں سے معاملات طے پا چکے ہیں ۔۔۔سپاہ سالار خطرہ محسوس کر کے اسی رات اپنی فوج کو چھوڑ کر بھاگ گیا ۔۔۔۔۔۔۔ دوسری صبح جب فوج نے خود کو سالار کے بغیر دیکھا تو طاقت میں کئی گنا زیادہ ہونے کے باوجود بغیر لڑے ہتھیار ڈال دیے یا بھاگ گئے۔۔۔۔۔۔۔۔

ایسا جنگوں کی تاریخ میں شائد سنکڑوں بار ہو چکا ہے جب سردار کے بغیر یا سپاہ سالار کے قتل ہوتے ہی پوری فوج شکست کھا گئی یا ہتھیار ڈال دئیے چاہے مخالف فوج طاقت میں کتنی ہی کمزور کیوں نہ تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سردار میں ایسی کونسی طاقت ہوتی ہے جو فوج کے قدم جمائے رکھتی ہے ؟

امیر یا سردار یا بادشاہ نہ غیرمعولی مافوق الفطرت ذہانت رکھتا ہے نہ طاقت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ صرف انسانوں کی ایک بہت بڑی کمزوری کو کنٹرول کرتا ہے وہ ہے انتشار ۔۔۔۔۔۔ وہ ایک رائے رکھتا ہے جس کو سب نے ماننا ہوتا ہے یا ایک حکم جاری کرتا ہے جس پر بلا چون چرا پوری فوج عمل کرتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ ہوتی ہے وہ طاقت جو اس فوج کو سردار یا امیر یا سپاہ سالار سے ملتی ہے اس طاقت کے ہٹتے ہی پوری فوج ریت کی طرح بکھر جاتی ہے -
 
اسی چیز کی ضرورت انسانوں کو تب محسوس ہوئی جب وہ ملکر ایک معاشرے کے طور پر رہنے لگے انہیں ایک بادشاہ یا امیر کی ضرورت محسوس ہوئی جو انہیں انتشار سے بچا سکے ۔۔۔۔ رائے کے انتشار سے۔۔۔۔۔۔۔۔!

انسانی تاریخ میں جب بھی قوموں پر برا وقت آیا وہ خدا سے ایک بادشاہ کے طلب گار ہوئے جو انکے حالات درست کر دے اور انہیں طاقت دے اور اکثر بادشاہ آکر یہ غیر معولی کام کر جاتے تھے حالانکہ قوم وہی ہوتی تھی اور وسائل بھی وہی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پھر جدید دور آیا جب شیطانی ذہانت رکھنے والی ایک جماعت نے پوری دنیا پر کنٹرول حاصل کرنے کا پروگرام بنایا یہ بادشاہوں اور متحد قوموں کے ہوتے ہوئے ناممکن تھا انکو منتشر کرنا ضروری تھا تب انہوں نے ایک ایسی چیز ایجاد کی جس نے رفتہ رفتہ پوری دنیا کو اپنا اسیر بنا لیا ملک ،قومیں ،قبیلے سب کچھ بکھر کر رہ گیا حتی کہ گلیوں اور محلوں تک میں خوفناک نفرت و انتشار پھیل گیا
 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس شے کا نام "جمہوریت" ہے

ایک عجیب و غریب نظام حکومت جس میں بظاہر ایک امیر بھی سامنے آجاتا ہے اور بہت سے حاکم بھی لیکن رائے کا انتشار برقرار رہتا ہے اور ہر طرف غل غپاڑہ ،دنگا فساد اور شور سنائی دیتا ہے اسکے ذریعے حکومتوں کا وقار خاک میں ملا دیا گیا ہے اور مرکزیت ختم ہوچکی ہے ۔۔۔۔۔۔۔

اس نظام کی بدصورتی کو چھپانے کے لیے انہوں نے اپنے زیر انتظام علاقوں میں بظاہر "آزادی و جمہوریت" کا جھنڈا بلند کر رکھا ہے جسکے ثمرات دکھا کر وہ اقوام عالم کو بہکا رہے ہیں ۔۔۔۔۔ لیکن خٖفیہ طور پر وہ آزاد اور جمہوری ریاستیں دراصل انکے خوفناک اور آہنی شکنجے میں پھنسی ہوئی ہیں وہاں بھی فیصلے کرنے والی اصل طاقت ایک ہی ہے اور ان کو فلحال رائے کے انتشار سے بچائے ہوئے ہے حتی کہ جب مناسب وقت آئے گا تب ان جمہوریتوں کو بھی "آزاد" چھوڑ دیا جائے گا جسکے بعد وہاں خوفناک فساد پھیلے گا تب یہ جماعت مسیحا بن کر اقوام عالم کے سامنے آئے گی ۔۔۔۔۔

"جمہوریت ظلم کا دیو ہے جو پاوں مار رہا ہے"

تحریر شاہد خان

<<< پچھلا صفحہ اگلا صفحہ >>>

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


اپنی قیمتی رائے سے آگاہ کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ (بلاگ اسپاٹ کی دنیا میں) نئے ہیں اور درج بالا تحریر پر آپ کا قیمتی تبصرہ کرنے کا ارادہ ہے تو ۔ ۔ ۔ Comment as میں جا کر“ANONYMOUS" پر کلک کر کے اپنا تبصرہ لکھ دیں – ہاں آخر میں اپنا نام لکھنا نہ بھولیں -

تعمیر نیوز

اس بلاگ کی مذید تحاریر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

Powered by Blogger.