جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا

ایک بہت مشہور واقعہ ہے کہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 ایک محفل میں دہلی کے اور بھی شعراء مدعو تھے. ان میں غالب اور مومن بھی تھے. غالب نے اپنا کلام پیش کیا. اور ہمیشہ کی طرح لوگوں سے داد وصول کی. مومن خان ایک اچھا شاعر ہونے کے باوجود لوگوں کا اتنا پسندیدہ نہیں تھا جتناغالب. لیکن اس دن مومن نے وہ شعر پڑھا جس کے بعد آج بھی تاریخ گواہ ہے کہ اس کے سننے کے بعد غالب تک نے مومن سے کہا

"مومن سنو! یہ شعر مجھے دے دو... اسکے بدلے میں
چاہے تو میرا پورا دیوان اپنے نام کر لو"

اور وہ شعر ہے

تم میرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا

بعد میں بھی غالب نے لوگوں سے کہا کہ اتنا سادہ شعر اتنے سادہ الفاظ سے بنا ہوا میرے ذہن میں کیوں نہیں آیا. اور خود ہی غالب جواب میں کہتے کہ شاید اس لیے کہ غالب خود بھی سادہ نہیں، اسکی سوچ سادہ نہیں، اسکا محبوب سادہ نہیں.

زندگی اپنی جب اس شکل سے گزری غالب
ہم بھی کیا یاد کر یں گے کہ خدا رکھتے تھے

<<< پچھلا صفحہ اگلا صفحہ >>>

ابھی تک ایک تبصرہ ہوا ہے جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا”

اگر آپ (بلاگ اسپاٹ کی دنیا میں) نئے ہیں اور درج بالا تحریر پر آپ کا قیمتی تبصرہ کرنے کا ارادہ ہے تو ۔ ۔ ۔ Comment as میں جا کر“ANONYMOUS" پر کلک کر کے اپنا تبصرہ لکھ دیں – ہاں آخر میں اپنا نام لکھنا نہ بھولیں -

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


تعمیر نیوز

اس بلاگ کی مذید تحاریر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

Powered by Blogger.