آپسی جھگڑے میں فریقین کے نقصانات
ازقلم: چاہت محمد قریشی قاسمی
ان کا جواب بہت سمجھ
بوجھ والا تھا جو آج تک مجھے اچھی طرح یاد ہے، انہوں نے کہا تھا کہ بھتیجے! اگر میں
جواب دوں اور لڑائی جھگڑے پر اتر آؤں تو کسی نہ کسی کے تو چوٹ لگے گی ہی اور یہ چوٹ
ان کے لگے یا میرے دونوں طرح سے نقصان میرا ہی ہوگا، اگر میرے چوٹ لگ جائے تب تو میں
مروں گا ہی اور اگر میرے ہاتھ سے ان کے چوٹ لگ گئی تب بھی تھانے پولس کے چکر لگا
کر میں ہی مارا جاؤنگا اور میں ہی نقصان اٹھاؤں گا۔
یہ موجودہ زمانہ کی
ایک اٹل حقیقت ہے جس کا ہم نے بہت سی مرتبہ مشاہدہ کرلیا ہے کہ لڑائی جھگڑے اور باہمی
اختلافات سے دونوں ہی فریق نقصان اٹھاتے ہیں، جس کا موقع لگتا ہے وہ دوسرے کو مار،
پیٹ دیتا ہے اور پھر اپنے ہی کسی آدمی کے زخم لگا کر تھانے چلا جاتا ہے اور کیس کر دیتا ہے، فریقین کے خوب پیسے خرچ ہوتے ہیں،
پولس اور نیتاؤں کی خوشامد در آمد الگ سے کی جاتی ہے اور لاکھوں روپئے منٹوں اور گھنٹوں
میں خرچ ہوجاتے ہیں، پھر بھی اگر کوئی بیچ بچاؤ کرے اور درمیان میں آکر فیصلہ کرادے
تو سمجھنے والے سمجھ کر معاملہ نپٹا لیتے ہیں ورنہ تو یہ اختلاف، لڑائی اور جھگڑا سالوں اور نسلوں چلتا رہتا ہے۔
سرکاری آفسوں اور تھانے سے متعلق مسلمانوں کے کام تو پہلے ہی بغیر پیسوں کے نہیں
ہوتے تو فضول لڑائی اور بے فائدہ جھگڑے پولس والوں کے لئے غنیمت بن جاتے ہیں لہذا پیسہ
پانی کی طرح خوب بہا یا جاتا ہے اور جو لوگ غریب، غربا، مساجد، مدارس اور صدقہ خیرات
کے لئے جیب خالی دکھا دیا کرتے ہیں، کاروبار کا رونا روتے ہیں، اپنے آپ کو قرضہ میں
ڈوبا ہوا بتاتے ہیں وہ یہاں پے در پے نوٹوں کی گڈیاں لٹا رہے ہوتے ہیں، نیتا پولس اور
درمیان میں دلال اور چغلخور خوب مزے اڑاتے ہیں، آپس میں گالم گلوچ، بہتان تراشیاں اور
دیگر خرافات کی جاتی ہیں۔
ایک دوسرے کو تگنی
کا ناچ نچانے کا کھیل شروع ہوجاتا ہے لہذا کیس بنانے کے لئے اپنے ہی لوگوں کو بلیڈ،
چاقو بندوق وغیر سے زخمی کیا جاتا ہے، کبھی کبھی تو دوسروں کو مات دینے کے لئے اپنے
ہی آدمی کے گولی تک مارلی جاتی ہے لہذا کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ یہ شخص اپنے ہی لوگوں
کے ہاتھوں سے معذور ہوجاتا ہے اور بسا اوقات تو مر ہی جاتا ہے۔
یہ اختلافات اور لڑائی
جھگڑے دنیا اور آخرت کی بربادی کا سبب بن جاتے ہیں اور بہت سی کوششوں، پیسوں کے ضیاع،
جھوٹ کذب، بہتان تراشیوں کے باوجود ان سے جان بچانی مشکل ہوجاتی ہے اور یہ عذاب جاں
بن جاتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کی جیلوں میں غیروں سے زیادہ مسلمان قید و بند
کی صعوبتیں برداشت کرتے پائے جاتے ہیں۔
آیات قرآنیہ اور احادیث
نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم میں ان جھگڑوں سے روکا گیا ہے اور صلح صفائی کی ترغیب دی
گئی ہے، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اپنے بھائی سے مت جھگڑو،
نہ اس سے ہنسی مذاق کرو، اور نہ اس سے کوئی ایسا وعدہ کرو جس کی تم خلاف ورزی کرو۔
(ترمذی)
نیز ایک جگہ مزید ارشاد
فرمایا : جو شخص (جھگڑے کے وقت) جھوٹ بولنا چھوڑ دے حالانکہ وہ ناحق
پر ہے، اس کے لیے اطراف جنت میں ایک مکان بنایا جائے گا، جو شخص حق پر ہوتے ہوئے جھگڑا
چھوڑ دے اس کے لیے جنت کے بیچ میں ایک مکان بنایا جائے گا اور جو شخص اپنے اخلاق اچھے
بنائے اس کے لیے اعلیٰ جنت میں ایک مکان بنایا جائے گا۔ (ترمذی)
یہ بات مذکورہ بالا
احادیث سے مزید واضح ہوگئی کہ مسلمانوں کا آپس میں لڑائی جھگڑا ناپسندیدہ ہے ، اور
اختلاف کے وقت صلح کرانا محمود اور مطلوب ہے۔